11مئی2014 کی شام انتہائی خوشگوار تھی۔جوق درجوق قافلوں
کی شکل میں لوگ رواں دواں تھے۔شام کے چھ بج رہے تھے۔جیسے جیسے منزل قریب
آرہی تھی دل کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں۔تیرہ سال سے جس عظیم الشان گلشن کے
تذکرے سنتے آرہے تھے آج اس گلشن کے نظارہ کرنے کا وقت قریب آرہاتھا۔ساڑھے
چھ بجے کے قریب جب ہم حضرت مفتی رشیداحمد لدھیانوی ؒ کے عظیم گلشن جامعۃ
الرشید کراچی میں داخل ہوئے تو درودیوار سے مہکنے والی خوشبوؤں اور گلشن
میں لہلہاتے قدآوردرختوں نے محبت اور خلوص کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا۔حضرت
مفتی رشیداحمد ؒ کے اس دنیا سے رحلت کئے ہوئے کچھ زیادہ سال نہیں گزرے۔
حضرت مفتی صاحب نے اپنی زندگی میں جو خدمات اسلام اور ملک پاکستان کے لیے
سرانجام دیں وہ محتاج بیان نہیں۔حضرت مفتی صاحب کی خدمات کے لیے بس اتنا ہی
کافی ہے کہ جامعۃ الرشیدکراچی جیسا عظیم الشان ادارہ حضرت مفتی صاحبؒ کی
محنت جدوجہد ،خلوص اور خدمات کا مظہر ہے۔
جامعۃ الرشید نے گزشتہ چند سالوں میں جس تسلسل سے کامیابی کی منازل طے کیں
وہ لائق تحسین اور لائق تعریف ہیں۔اس میں قطعاًکوئی مبالغہ نہیں کہ جامعۃ
الرشید نے انتشار،خلفشار،تنازعات ،طعنہ زنی ،الزام تراشی اور دہشت گردی کی
المناک صورتحال میں نہ صرف دین اسلام کے حقیقی پیغام کو ان اداروں اور
لوگوں تک مثبت انداز میں پہنچایا ہے ،جو تمام تر خرابیوں اور برائیوں کی
وجہ دین اسلام اور اس کے حقیقی محافظوں (علماء کرام)اور دین اسلام کے مراکز
(مدارس دینیہ)کو قراردیتے ہیں،بلکہ عوام الناس میں مدارس دینیہ کے بارے میں
پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے اور بد اعتمادی کی کیفیت کو دور کرنے کے
لیے بھی زبردست اقدامات کیے ہیں۔برسوں پہلے جس طرح سے دشمنوں نے مسلمانوں
کو باہم دست وگریبان کرنے کے لیے مسٹر اورملا،دین داراوردنیا دار،مذہبی اور
سیکولر،انتہا پسند اور روشن خیال جیسی تفریق ڈالنے والی سازشوں میں الجھایا
تھا آج الحمدﷲ جامعۃ الرشید نے ان سازشوں کی قلعی کھول کر یہ ثابت کردکھایا
ہے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی فرق اگر ہے توبس پرہیزگاری اور تقوی کی وجہ
سے ہے ورنہ حقیقت میں تو یہ سب ایک جسم کی مانند ہیں۔مدارس دینیہ اور علماء
کے بارے میں جو نقشہ مغرب نے دنیاکے سامنے کھینچاتھا جامعۃ الرشید نے چند
سالوں میں دین ودنیا کے حسین امتزاج سے بھر پور تعلیمی میدان میں متنوع
شعبہ جات کے ذریعے اپنی عظیم الشان کارکردگی پیش کرکے دنیا کے سامنے مدارس
دینیہ کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔اس کے باوجود بھی اگر کچھ ناعاقبت اندیش
دوسروں کی زبان بولنے پر تلے ہوئے ہیں تو اس پر سوائے افسوس کے بھلااور کیا
کیا جاسکتا ہے۔
گیارہ مئی کی شام کو جامعۃ الرشید میں ’’تقریب تقسیم انعامات ودستار بندی‘‘
کے عنوان سے ایک عظیم الشان کانووکیشن کا اہتما م کیا گیا تھا۔اس میں مختلف
شعبہ جات کے 284فضلاکی دستار بندی سمیت اسناد وانعامات دیے گئے۔یہ
کانووکیشن ہر سال کی طرح اس باربھی اپنی شان وشوکت کے لحاظ مثالی تھا۔مدارس
دینیہ میں مئی اور جون کے دو مہینوں میں عموما ًسالانہ تقریبات کا اہتمام
کیا جاتاہے جس میں فارغ التحصیل ہونے والے طلباکو اسناد وانعامات دیے جاتے
ہیں۔ بظاہر جامعۃ الرشید کا یہ کانووکیشن بھی اسی طرح کی تقریبات میں سے
ایک تقریب تھا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کانووکیشن مدارس دینیہ کی عام
تقریبات سے یکسر مختلف تھا۔جامعۃ الرشید کے اس کانووکیشن کی تمام تر
خصوصیات کے احاطے کا یہ مختصر کالم ہرگز متحمل نہیں ہے۔اس لیے صرف تین اہم
باتوں کا تذکرہ کیا جاتاہے جس سے اس کانووکیشن کی عظمت اور انفرادیت
کاباآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔(۱)جامعۃ الرشید کے اس کانووکیشن کی سب
سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگ موجود
تھے۔دانشور،وکلا ء برادری ،جج حضرات،وائس چانسلرز، ڈاکٹر
حضرات،سفارتکار،فوجی افسران،تاجر برادری،صحافی براردری،ماہرین تعلیم ،علماء
کرام، اساتذہ کرام،مدارس دینیہ، یونیورسٹیوں اور کالجزکے طلباء سے لے کر
عوام الناس تک تقریباً ہرطبقے سے وابستہ افراد جامعۃ الرشید کے اس عظیم
کانووکیشن میں شریک تھے۔اس طرح کے جھلمل ستارے شاید ہی کسی اور کانووکیشن
میں ہوتے ہوں۔(۲)دوسری اہم بات جس نے کانووکیشن میں شریک ہر مہمان کو متاثر
کیا وہ نظم وضبط اورصفائی ستھرائی کا شاندار ماحول تھا ۔ہزاروں کے مجمع کو
اس قدر منظم انداز میں یک جا کر کے عمدہ نشستوں تک لے جانا،پھرنماز مغرب
،نمازعشاء کی ادائی اور عشائیے کے لیے مجمع کو بآسانی مسجد اور مطعم تک
رسائی دینا واقعی نظم ونسق کے اعلی انتظام ہی کا نتیجہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ
نظم وضبط کے اس اعلی معیارپر ہر مہمان مقر رنے کمال حیرت سے کہا کہ’’اس
جیسامنظم پروگرام ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔(۳)اس کانووکیشن کی تیسری
اہم بات یہ تھی کہ کانووکیشن میں شرکت عمومی نہیں تھی۔ صرف ان لوگوں کو جو
پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل تھے یا جو کسی ادارے یا شعبے سے منسلک تھے ان
کو باقاعدہ دعوت نامے کے ذریعے خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔اس کا نقد فائدہ
تو یہ ہوا کہ ایسے تمام مہمان جو یقینا کئی کئی افراد کے نمائندے اوراہم
اداروں سے وابستہ تھے، ان کے ذریعے بہتر انداز میں مدارس کامثبت پیغام
اورحقیقی تصویر عوام الناس اور مقتدر اداروں تک پہنچنے میں مدد ملی ۔دیکھا
جائے تو یہی نقد فائدہ اس کانووکیشن کی کامیابی کے لیے کافی ہے۔جہاں تک
مقررین اور ان کے بیانات کا تعلق وہ بھی محتاج بیان نہیں کیوں کہ تمام
مہمان مقررین کے بیانات کااندازہ ان کے ناموں ہی سے لگایا جاسکتا
ہے۔کانووکیشن کے چند معز زمہمان مقررین میں صاحبزادہ فضل کریم اشرفی مولانا
امداداﷲ، سابق جنرل حمید گل،نامور سائنسدان ڈاکٹر انعام الرحمن،سابق
سیکرٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد، مشہور صحافی اور مصنف زاہد ملک
،سینیٹر طلحہ محمود،ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کے بھائی محمد الغزالی،سابق
سفارت کار ایاز وزیر،مشہور صنعتکارزبیر موتی والا،وفاقی اردو یونیورسٹی کے
وائس چانسلرڈاکٹرمحمدظفر اقبال، فاسٹ یونیورسٹی کے ڈرائیکٹرڈاکٹر زبیراحمد
اے شیخ اورجاپان کے اعزازی سفارت کار ڈاکٹر ہیروکاکاہاچی سمیت دیگر معزز
علماء کرام اور تاجر حضرات شامل تھے۔
جامعۃ الرشید کراچی کا یہ عظیم الشان کانووکیشن مذکورہ خوبیوں کے علاوہ بے
شمار خوبیوں کا حامل تھا۔یقینا اس طرح کے کانووکیشنز سے مدارس دینیہ اور
عوام الناس کے درمیان جو نادیدہ قوتوں کی طر ف سے ایک خلیج حائل کردی گئی
تھی اس کے پاٹنے میں بہت زیادہ مددملی ہے۔اس میں جامعۃ الرشید نے کلیدی
کردار ادا کیا ہے۔ دین اور دنیا کی تفریق کو ختم کرنے میں جامعۃ الرشیدکے
دس سے زائد شعبہ جات کا بھی خصوصی کردارہے۔ان شعبہ جات میں فقہ،
اکنامکس،جرنلزم،انگلش وعربی لینگویج ،فلکیات،جغرافیہ سمیت کئی ایک موضوعات
پڑھائے جاتے ہیں۔ ان شعبہ جات کی تفصیلی معلومات جامعہ سے رابطہ کر کے
معلوم کی جاسکتی ہیں۔ جامعۃ الرشید طرز کے تعلیمی سلسلے اور اس طرح کے
اجتماعات کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلانے کے لیے ہر شخص کو اپنے طور پر
علماء دین اور مدارس دینیہ کا ساتھ دینے کے لیے ہمت کرنی چاہیے ۔اگر ساتھ
چلنے میں ہچکچاہٹ ہو تو کم ازکم ان مذموم سازشوں اور پروپیگنڈوں سے تودور
رہنے اور ان کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لینا چاہیے جو اغیار کی طرف سے وقتا
فوقتا مدارس اور علماء کرام کے خلاف دہشت گرد ی اور قدامت پسندی جیسے
الزامات کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔یاد رہے مدارس دینیہ کی حفاظت صرف ہمار
امذہبی فریضہ ہی نہیں، بلکہ قومی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔اس لیے بذات خود
ہر شخص کو مدارس کے بارے میں اپنا ذہن صاف رکھ کر دشمنوں کی سازشوں کو
سمجھنا چاہیے اور حسب طاقت ان سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے جامعۃ الرشید
جیسے اداروں اورعلماء کرام کے شانہ بشانہ چلنا چاہیے،تاکہ وطن عزیز کو صحیح
معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایاجاسکے ۔ |