سُپر ہیومن بِینگز

یوں تو پاکستان کو درپیش مسائل کی فہرست طویل ہے۔ اسی طویل فہرست میں ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں عام انسان نہیں بستے!اس دیس کے باسی اپنے آپ کو انسان جیسے کمتر رتبے پر فائز کرنے پر تیار ہی نہیں۔ یہاں ہر عبادت گزار اپنے آپ میں ولی اﷲ ہے۔ جو حیات ہے وہ کسی نہ کسی طرح غازی اور جو اس دنیا سے سدھار گیا وہ شہادت کی کرسی پر براجمان ہے۔یہاں ہر شخص عقلِ کل ہے۔جسے دیکھو جذبہ حب الوطنی کی سب سے اونچی چھت پر کھڑا اپنا جھنڈا لہرا رہا ہے کہ یوں مانو اس سے بڑا محب الوطن اس سرزمیں نے پیدا ہی نہیں کیا۔یہاں ہر شخص عالم ہے، ہر شخص صوفی ہے، ہر شخص پیر ہے،ہر شخص پارسا ہے، ہر شخص غیرت مندی کا آخری ستون ہے!! بس عقل و شعور اور انسان و انسانیت کمیاب شے ہیں باقی تمام معاملات میں ہم خود کفیل ہیں۔

جسے دیکھئے نیکی کے درس و یقین کی دھونی ہاتھ میں لئے معاشرے میں بھنبھناتے جھوٹ، مکر و فریب، کرپشن اوربد دیانتی کے مچھروں کو بھگانے تلا بیٹھا ہے۔ عقلِ کل ایسے کہ ہر موضوع پر بات کرنے اور آراء دینے پر ہمہ وقت تیار لیکن آواز اونچی اور دلیل کمزور! جو غیرت مند ہے ہاتھ میں لہو لہو تلوار تھامے صنفِ نازک کی کٹی پھٹی لاشوں پر پیر رکھے غیرت مندی کے میڈل سینے پر سجائے فخر و غرور سے کھڑا ہے۔ تاریخ پر پردے ڈال کر، توڑ مروڑ کر، ناکامیوں پر کامرانیوں کا میک اپ تھوپ کر حسین جھوٹ کے رخ پیش کرنے والا حب الوطن جبکہ اختلاف رکھ کر حقائق کی جانب توجہ مبذول کرانے والا غیر حب الوطن۔ جو مذہب کو جتنے مختلف زاویوں و نت نئے حربوں سے بیچ سکے وہ اتنا بڑا عالم پھر جو براہ راست مذہب بیچے وہ آن لائین عالم اور جو اس قابل نہ ہو وہ آف لائین! پارسا ایسے کہ صبر و برداشت نام کو نہیں اور سرتن سے جدا کا ورد زباں پر۔

یہ پاکستان ہے جہاں انسان نہیں کائنات کی سب سے افضل مخلوق آباد ہے۔ یہاں انسان شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں اور جو ہیں ان سے سلوک بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے جیسا فلموں میں دیکھتے ہیں یا جیسا کسی دوسری دنیا سے آئی ہوئی مخلوق سے کئے جانے کا حق ہے۔انسان نما مخلوق کو پر تجسس نظروں سے دیکھا جاتا ہے، خفیہ طور پر نگرانی کی جاتی ہے اور انسانیت سے خطرہ کے پیش نظر زندہ کو مار کر تجربات کئے جاتے ہیں! یہ ہیومن بینگز نہیں سپر ہیومن بینگز کا دیس ہے!

ایسے سپر ہیومن بینگز کی بہتات کی بنیادی وجہ نظامِ تعلیم کی وہ کمزوری ہے جو انسان کو سوچنے سمجھنے پر مائل کرتی ہے اور سوال کرنے پر اکساتی ہے۔ ’ا‘ سے اﷲ ’ب‘ بسم اﷲ ’پ‘ سے پاکستان پڑھنے والے بچے لہک لہک کر ایک دونی دونی دو دونی چار کا پہاڑا رٹتے رٹتے تمام عمر A فار ایپل B فاربال اور C فار کیٹ کے پیچھے دوڑتے رہ جاتے ہیں۔ بچہ ماں کی گود سے رٹی رٹائی چار باتیں سیکھ کر سکول میں قدم رکھتا ہے اور پھر حکومتی ٹیکسٹ پڑھ پڑھ کر جوان ہونے والا یہ ہیومن بینگ ایسے سپر ہیومن بینگ میں ارتقاء پذیر ہوتا ہے جو زندگی کی آخری سانس تک اپنی سوچ سمجھ میں ٹس سے مس ہونے کی کوشش تک نہیں کرتا۔ اس نظامِ تعلیم کی تکنیکی خرابی کے باعث سپر ہیومن بینگز کی ایسی روبوٹ نما کھیپ پیدا ہو تی رہی ہے اور ہو رہی ہے جو کسی بھی سوال کے جواب یا کسی بھی خاص صورتحال میں ہمیشہ ایک ہی طریقے سے ردِ عمل پیش کرتی ہے۔ اپنے تمام امور ایک خاص طریق پر سر انجام دیتی ہے۔ دماغ ماؤف، سوچ کے دریچے بند، زبان دراز، باتیں فلک بوس لیکن فکر، تدبیرو اعمال زمیں بوس!!!

انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کو جدید ترین خطوط پر استوار کیا جائے۔ پاکستان کی نئی پود کو رٹے لگوانے کے بجائے تحقیق اور سوال کرنا سکھایا جائے۔بچوں کو دو دونی چار کے پہاڑے یاد کروانے کے بجائے ذہن کو وسعت دینے اور سوچنے کے عمل میں مددگارثابت ہونے والے تعلیمی نظام کا بندوبست کرنا حکومتِ وقت کا فرض بھی ہے اور اسے اولین ترجیحات میں شامل بھی کیا جانا چاہیے۔ تعلیم یافتہ اساتذہ کے میرٹ پر انتخاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی باقائدہ ٹریننگ اور معیارِ زندگی بلند کیے بغیر مطلوبہ نتائج جاصل نہیں کیے جا سکتے۔ پاکستان کو اپنا مستقبل سنوارنا ہے تو حقیقی معنوں میں اپنا تعلیمی نظام جنگی بنیادوں پر درست کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں رائج فرسودہ حکومتی نظامِ تعلیم کو خدا حافظ کہنے کا وقت آن پہنچا ہے جہاں اکثریتی سرکاری سکول گھوسٹ سکول ہیں اور اساتذہ کے نام پر نالائق افراد سرکاری پیسہ کھیسوں میں بھر رہے ہیں ۔ یہ ایسا نظامِ تعلیم ہے جس کی سرکاری یونیورسٹیاں ایسے پڑھے لکھے افراد پیدا کر رہی ہیں جو نوکری کے لئے ایک ارضی یا ایک فارم بھی صحیح طور پر پر نہیں کر سکتے۔ پھر ایسے نظامِ تعلیم کی بنیاد پر ہم دنیا میں جھنڈے گاڑنے کی بڑھکیں مارتے اچھے نہیں لگتے! فی الوقت نجی تعلیمی نظام کی موجودگی میں ملک میں پڑھے لکھے افراد کے بھی دو طبقے پیدا ہو رہے ہیں۔ نجی تعلیم یافتہ سوٹڈ بوٹڈ طبقہ جو تعداد میں کافی کم ہے اور سرکاری تعلیم یافتہ جوتیاں سٹکاتا طبقہ جو تعداد میں بہت زیادہ ہے۔اس طبقاتی فرق کا خاتمہ صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت سرکاری تعلیمی نظام کا معیار بلند کر کے اسے نجی تعلیمی نظام کے متوازن کر دے۔ اس صورتحال میں نجی تعلیمی نظام کو بھی مارکیٹ میں ان رہنے کے لئے اپنی آسمان کو چھوتی فیسیں کم کرنی پڑیں گی اور مقابلے کا رجحان پیدا ہو گا۔

حکومت کو اسلحے سے زیادہ تعلیم کے شعبے پر خرچ کرنا پڑے گا۔ آئینِ پاکستان کے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ 5سے 16 سال کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔زمینی حقائق پر بات کریں تو ہم اپنے بچوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں؟ سرکاری سکول ہے تو ٹیچر نہیں، کمرہ ہے تو چھت نہیں، چھت ہے تو پنکھا نہیں، پنکھا ہے تو بجلی نہیں، بیٹھنے کے لئے کرسیاں نہیں ، پینے کے لئے پانی نہیں، صفائی ستھرائی کا خیال نہیں اور سب سے بڑھ کر تعلیم کا کوئی معیار نہیں! قوم کے معمار چلچلاتی دھوپ و کھلے میدانوں تک میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔پھر اس میں کوئی بڑی بات نہیں کہ ایسا نظام تعلیم چند ایک نابغہ افراد کو چھوڑ کر مزدور طبقہ اور سوچ پیدا کر رہا ہے!!!

سچ یقینا کڑوا ہو سکتا ہے پر سچ کی بیل پر پروان چڑھے پھل کی لذت سے ایک بار جو آشنا ہو گیا تو پھر ہر طرف یہی بیل پروان چڑھے گی!! پاکستان کو اندھی جذباتی حب الوطنی کی نہیں سچی بینا حب الوطنی کی ضرورت ہے جو بلا شبہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ پر منزل ابھی دور ہے ، راستہ کٹھن ہے، من مار کے، سچ قبول کر کے آگے بڑھا جائے تو کامیابی ہمارا مقدر ہے۔
پاکستان کو سپر ہیومن بینگز کی نہیں محض ہیومن بینگز کی ضرورت ہے!
Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 12030 views Columnist for Roznama "Din"... View More