لاڈو

طاہر ہر صبح پورٹ قاسم جاتا اور جال لگا کر خوب مچھلیاں پکڑا کرتا تھا۔ پورٹ پے مچھیروں کو اتنی آزادی نہیں تھی کہ وہ آرام سے مچھلیاں پکڑ سکتے۔ وہ چوری چوری جال لگاتا اور مچھلیاں پکڑتا کچھ مچھلیاں پورٹ کے قریب لگی مچھلی منڈی میں بیچ دیتا اور باقی گھر لے آتا۔ پورٹ طاہر کے گھر سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھی اور وہ یہ سفر روزانہ سائیکل پر طے کرتا تھا۔ اس نے سائیکل کے پیچھے لکڑی کی ایک ٹوکری باندھ رکھی تھی جو نیچے لگے لوہے کے سٹینڈ کے ساتھ منسلک تھی۔ اس ٹوکری میں وہ مچھلیاں رکھتا اور ٹوکری کو کپڑے سے ڈھانپے رکھتا تھا۔ طاہر مسلسل پانچ سال سے یہ کام کر رہا تھا۔ اُس کا باپ چند ماہ پہلے ہارٹ اٹیک ہونے سے اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ وہ بھی یہی کام کرتا تھا، اور یہ اُن کا آبائی پیشہ تھا۔ طاہر کی ماں اور اُس کی دو چھوٹی بہنیں رمیزہ اور سائرہ گھر میں رہتیں۔ اُن کا گھر ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا جہاں ایک طرف لکڑی کی ایک بوسیدہ کُرسی موجود تھی، دوسری طرف کچن کا تھوڑا سا سامان تھا اور سونے کے لیے اندر پُرانے ٹاٹ بچھے ہوئے تھے۔ جھونپڑی کے بڑے کمرے سے ایک چھوٹا دروازہ دوسری جھونپڑی کی طرف جاتا تھا جہاں طاہر کی دادی ایک پُرانی چارپائی پر سارا دن لیٹی رہتی تھی جب کبھی وہ چھوٹی جھونپڑی سے بڑی جھونپڑی کی طرف آتی تو طاہر کی ماں کی جانب سے اُسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔
’’تم ادھر کیا کرنے آئی ہو؟‘‘’’تو اور کہاں جاؤں؟‘‘
’’اندر گرمی محسوس ہو رہی تھی سوچا باہر رمیزہ اور سائرہ کے پاس چلی جاؤں۔‘‘
’’تم بچوں کے قریب کھانسی کرتی ہو تو وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بابا میں اندر لوٹ جاتی ہوں۔‘‘

طاہر دادی سے بہت پیار کرتا تھا اور جب گھر آتا، سیدھا دادی کی جھونپڑی میں جا کر اُسے سلام کرتا۔ جب کبھی وہ اپنے ساتھ رفیق حلوائی کی برفی لاتا تو پہلے اپنی دادی کو دیتا جس پر طاہر کی ماں اکثر اس سے ناراض رہتی۔ گھر کی کمائی کا واحد ذریعہ طاہر ہی تھا۔ وہ مچھلیاں بیچ کر روز کی سبزی منڈی کے قریب لگے چھوٹے سے بازار سے گھر لیے آتا۔ ایک وقت کھانا پکتا تھا جو سارا دن کھایا جاتا۔ رمیزہ اور سائرہ بھائی کی لاڈلی بہنیں تھیں وہ اُن سے بہت پیار کرتا تھا۔ طاہر کے باپ نے مرنے سے پہلے اسے یہ ہدایت کی تھی ’’کہ دادی اور بہن کا خاص خیال رکھنا، سو وہ اپنے باپ کے حکم کو پورا کرنے کی بے حد کوشش کرتا۔ جب جال میں کم مچھلیاں آتیں تو وہ پریشان ہو جاتا تھا۔ پورٹ پر کالی مچھیرا اُس کا واحد دوست تھا جو طاہر کے ساتھ ناصرف مچھلیاں پکڑتا بلکہ پورٹ پر اُس کے ہر اچھے بُرے وقت میں کام بھی آتا تھا۔ کالی مچھیرے کی ایک بیٹی لاڈو تھی۔ جس کی کالی گہری آنکھیں، موٹے ہونٹ اور منہ پر پتلا ناک اُس کی خوبصورتی کی وجہ بنا ہوا تھا۔ وہ طاہر کو بہت پسند کرتی تھی۔ اکثر وہ اپنے باپ کو پورٹ پر جاتے ہوئے کہتی:
’’ابا آج میں تیرے ساتھ چلوں گی۔‘‘کالی اُس سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ کسی حد تک پیاری بھی تھی۔ کالی اُس کی بات کو کبھی نا ٹالٹا اور اکثر اسے ساتھ لیے جاتا تھا۔ پورٹ پر جا کر وہ چپکے چپکے طاہر کو دیکھتی رہتی اور اس کی یہ بڑی خواہش ہوتی کہ کسی طرح وہ اس سے بات کرسکے مگر اپنے باپ کے ڈر سے وہ یہ نہ کر پاتی۔ کام کرتے سمے طاہر بھی کبھی کبھار اسے دیکھ لیتا اور وہ بھی اس سے کوئی بات نہ کرتا اور اپنے کام میں مگن رہتا۔ شاید اسے پیار محبت سے زیادہ اپنے گھر والے عزیز تھے۔ جب کبھی کالی بیمار پڑ جاتا تو لاڈو سر پر پیٹی اٹھائے پیدل پورٹ پر پہنچ جاتی اسے جال لگانا نہیں آتا تھا مگر وہ کنڈی لگانے کی بڑی ماہر تھی اور کنڈی کے ذریعے جلد ہی بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیتی تھی۔ لاڈو کی ماں نہیں تھی، بس وہ اپنے باپ کے ساتھ اکیلی گھر پر ہوتی تھی جب اس کا باپ پورٹ پر چلا جاتا تو وہ جھونپڑی سے نکل کر اِدھر اُدھر ٹہلتی رہتی اور کبھی کبھار پاس لگے ناریل کے درختوں کے پاس پہنچ جاتی۔ وہ ان کی چھاؤں میں بیٹھ کر ہمیشہ طاہر کے بارے میں سوچا کرتی تھی۔

ایک دن کالی قریبی گاؤں میں کسی کام سے روانہ ہوا تو لاڈو کو جاتے وقت بولا :’’پُتر دل کرے تو پورٹ پہ چلی جانا ورنہ گھر رہنا‘‘ ۔
وہ بولی: ’’میں پورٹ پر جاؤں گی۔ جلدی آ جاؤں گی۔‘‘
کالی بولا: ’’ٹھیک ہے ذرا دھیان سے‘‘ لاڈو پیٹی سر پر رکھے پورٹ کی طرف نکل پڑی۔ راستے میں اس نے طاہر کو سائیکل پر پورٹ کی جانب جاتے دیکھا۔ اس کا بہت دل چاہا کہ وہ آج طاہر کے ساتھ سائیکل پر پورٹ جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ طاہر نے تیزی سے لاڈو کو کراس کیا اور آگے نکل گیا۔ اسی دوران طاہر کو پیچھے سے لاڈو کی چیخ کی آواز سنائی دی اس نے سائیکل روکا اور پیچھے دیکھا تو لاڈو اپنے پاؤں پکڑے زمین پر بیٹھی یہ ظاہر کروا رہی تھی کہ اسے شدت سے درد ہو رہی ہے۔ طاہر پیچھے گیا اور پوچھا:
’’کیا ہوا لاڈو؟‘‘ لاڈو کا دل طاہر کی زبان سے اپنا نام سنتے ہی ٹھنڈا پٹ گیا۔ وہ بولی :
’’پاؤں میں کانٹا لگا تھا نکال دیا ہے۔ پورٹ پر جا رہی ہوں، اب چلا نہیں جائے گا۔‘‘ تھوڑے وقفے کے بعد وہ بولی:
’’کیا ہم اکٹھے سائیکل پر چلے جائیں؟‘‘ یہ سنتے ہی طاہر پریشان سا ہوگیا۔ اسے خوف کسی بات کا نہیں تھا، مگر کسی لڑکی کو سائیکل پر سوار کرکے پورٹ کی طرف جانا اس کے لیے یکدم نیا تھا۔ اس نے ناچاہتے ہوئے کہا :
’’ہاں ٹھیک ہے، تم یہ ٹوکری سائیکل کی سیٹ سے اتار کر گود میں کر لو اور بیٹھ جاؤ۔‘‘ لاڈودل ہی دل میں بہت خوش تھی اس نے اپنے سر والی ٹوکری گود میں کی اور اس ٹوکری کے اوپر طاہر والی ٹوکری رکھ کر پیچھے بیٹھ گئی۔ سائیکل چلنے لگا اور ہوا تیز ہونے لگی۔ اب طاہر سامنے سے آنے والی ہوا کو کاٹتے ہوئے پورٹ کی جانب بڑھنے لگا۔ لاڈو پیچھے بیٹھی اپنے پراندے کو کبھی آگے لیے آتی تو کبھی پیچھے پھینک دیتی، وہ اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتی تھی۔ آج اس کے پاس موقع تھا کہ وہ طاہر کو یہ بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے یہ ڈر بھی تھا کہ طاہر کہیں اس کے ابے کو اظہارِ عشق کے متعلق آگاہ نہ کر دے سو وہ پورٹ تک خاموش رہی اور طاہر بھی نہ بولا، پورٹ پر پہنچتے ہی اس نے طاہر کو کہا:
’’شکریہ طاہر‘‘ طاہر اس کے منہ سے اپنا نام سنتے ہی حیران ہوگیا اور بولا:
’’تمہیں میرا نام کس نے بتایا؟‘‘
لاڈو ہنستے ہوئے بولی : ’’مجھے تمہارا بہت پتا ہے‘‘ اور پراندے کو پیچھے پھینکتے ہوئے دوڑ گئی۔ طاہر نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کالی نے اسے میرے متعلق بتایا ہو یا پھر اسے ویسے ہی علم ہو گیا ہو۔ دونوں سارا دن خوب مچھلیاں پکڑتے رہے جب سورج ڈھلنے کے قریب پہنچا تو طاہر نے اپنی پیٹی میں مچھلیاں رکھ دیں۔ اس نے اوپر نگاہ دوڑائی تو لاڈو ابھی کنڈی لگائے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے ماتھے سے پسینے کو انگلی کی مدد سے اتارا اور پیٹی سائیکل پر رکھ دی۔ وہ پیٹی کو سٹینڈ کے ساتھ باندھ رہا تھا کہ لاڈو سائیکل کے قریب پہنچ آئی‘‘ طاہر کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ لاڈو قریب آتے ہی بولی:
’’تم واپس گھر جا رہے ہو کہ مچھلی منڈی؟‘‘ جس پر طاہر نے اسے بتایا کہ وہ پہلے منڈی جا کر سودا فروخت کرے گا پھر گھر جائے گا۔ یہ سنتے ہی لاڈو بولیؒ:
’’آج میں نے بھی بڑا مال پکڑا ہے، میں بھی منڈی جاؤں گی‘‘ یہ کہتے ہی وہ منڈی کی جانب چلنے لگی۔ ابھی وہ چند قدم آگے بڑھی تھی کہ طاہر نے پیچھے سے اسے آواز دی ’’تم میرے ساتھ ہی منڈی چلی جاؤ۔‘‘ ’’ویسے بھی تمہیں چوٹ آئی ہے‘‘ ابھی طاہر پوری بات بھی نا کر پایا تھا کہ لاڈو بولی:
’’ہاں ٹھیک ہے‘‘دونوں منڈی کی طرف روانہ ہوگئے مال بیچا اور منڈی سے گھروں کو واپس بھی اکٹھے سائیکل پر روانہ ہونے لگے۔ راستے میں لاڈو طاہر سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ ناکام رہی۔ طاہر نے اسے اس کی جھونپڑی کے قریب اتار دیا اور خود اپنے گھر کی جانب جانے لگ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے پاس پہنچ گیا۔ اندر داخلؒ ہوا تو پہلے دادی کی طرف گیا اسے سلام کرنے کے بعد وہ کچھ دیر اپنی ماں اور بہنوں کے پاس بیٹھا رہا ۔بعد میں اس نے کھانا کھایا اور سو گیا۔ دوسری طرف لاڈو آج بہت خوش تھی۔ وہ کبھی جھونپڑی سے باہر آتی اور چاند کی جانب دیکھتی تو کبھی اندر جھونپڑی میں واپس لوٹ جاتی تھی۔ وہ ساری رات آج کی ملاقات کے بارے میں سوچتی رہی اور ٹھیک طرح سے سو نہ پائی۔ صبح اس نے انگڑائی لی تو دیکھا اس کا باپ اس کے قریب بیٹھا حقہ بنا رہا تھا۔ اس نے جھونپڑی کے دروازے پے لگے پردے کو ہٹایا تو سورج کی روشنی سیدھی لاڈو کی آنکھوں پر پڑی۔ لاڈو زور سے بولی: ’’ابا تم کب آئے تھے؟‘‘
کالی بولا: ’’میں رات ہی آگیا تھا ‘‘ جب میں پہنچا تو تمہیں اُس وقت کوئی ہوش نہ تھی۔
’’اب اٹھو۔‘‘ لاڈو بولی :
’’ہاں ابا اٹھتی ہوں تو یہ پردہ آگے کر دے۔‘‘

کالی نے حقہ پکڑا، پردہ آگے کیا اور جھونپڑی سے باہر آگیا۔ طاہر نے صبح اٹھتے ہی رات کا بچا ہوا مچھلی کا سالن ابلے چاولوں پر ڈال کر کھا لیا اور جاتے وقت رمیزہ اور سائرہ کو ایک ایک روپیہ ہاتھ میں تھما دیا۔ لاڈو تھوڑی دیر بعد جھونپڑی سے باہر نکلی اور بازو اونچے کرتے ہوئے آہ بھری جیسے وہ مکمل طور پر اٹھ گئی ہو اور اپنے ابا کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ پھر اس نے اپنے ابا کو خود ہی بتا دیا کہ کل اسے راستے میں کانٹا لگا تھا۔ جسے سننے ہی اس کا باپ بولا :
’’کہاں لگا؟ ’’زیادہ تو نہیں لگا؟‘‘
وہ بولی: ’’نہیں ابا بچت ہوگی تھی‘‘’’پر میں پورٹ پر تیرے دوست طاہر کے ساتھ سائیکل پر گئی اور اسی کے ساتھ واپس آئی تھی‘‘ کالی چونک سا گیا اوربولا:
’’وہ تجھے کہاں ملا؟‘‘
’’ابا راستے میں بیٹھی تھی کہ وہ سائیکل پر گزر رہا تھا میں اس کے ساتھ چلی گئی۔‘‘
’’توں نے اسے خود روکا؟ لاڈو ڈرتے ہوئے بولی: ’’ہاں ابا‘‘۔
کالی غصے سے بولا: ’’توں اسے جانے دیتی اور خود واپس آ جاتی پورٹ پر نا جاتی‘‘ لاڈو سہمے ہوئے بولی :
’’پر ابا سودا بڑا اچھا بکا ہے۔ پورے 18 روپے بنے ہیں‘‘۔

18 روپے کا سنتے ہی کالی تھوڑا سا ڈھیلا پڑ گیا اور اس نے لاڈو کو ناریل کا پانی زخم پر لگانے کو کہا اور خود پورٹ پر روانہ ہوگیا۔ پورٹ پر پہنچتے ہی اس نے طاہر سے کل کے واقعے کے متعلق کوئی بات نہ کی اور دونوں مچھلیاں پکڑنے لگے۔ طاہر نے بھی کوئی بات نہ کی۔ پھر شام کو جب طاہر اپنا جال دھوپ میں زمین پر ڈال رہا تھا تو کالی پاس آ کر بولا:
’’کل کے لیے مہربانی‘‘ طاہر حیران ہوگیا جیسے کل کچھ ہوا ہی نہ ہو، اور حیرانگی کی سی کیفیت میں بولا:
’’مہربانی کس بات کی؟‘‘ طاہر کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی اور اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ لاڈو نے اپنے باپ کالی مچھیرے کو سارا کچھ بتا دیا ہے مگر وہ نا بولا۔ پھر کالی نے کہا:
’’ڈرو مت مجھے لاڈو نے سب بتا دیا تھا‘‘ جس پر طاہر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اسے بتایا :’’ہاں وہ اسے کانٹا لگا تھا تو میں اسے گھر واپس چھوڑ آیا۔‘‘
’’اب وہ ٹھیک ہے؟‘‘ کالی نے مارنے والی گائے کی طرح اسے دیکھا اور اس کے سوال ’’اب وہ ٹھیک ہے‘‘ پر حیران ہوگیا۔ طاہر سمجھ گیا تھا کہ کالی نے اُس سوال پر بُرا منا لیا ہے اس نے اچانک کہا:’’میرا خیال ہے شام ہو رہی ہے میں اب واپس چلتا ہوں‘‘ جس پر کالی نے کہا:
’’ٹھیک ہے جاؤ۔‘‘
طاہر گھر پہنچا تو دادی بہت تیز بخار میں مبتلا تھی۔ وہ اکیلی اندر پڑی تھی جبکہ باہر طاہر کی ماں ایک نیا جال سوئی کی مدد سے بنا رہی تھی۔ سائرہ اور رمیزہ سو رہی تھیں۔ وہ دادی کی اس کیفیت کو دیکھ کر چکرانے لگا اور باہر بیٹھی اپنی ماں پر خوب برسنے لگا۔ رات کافی گہری ہو چکی تھی اور باہر تیز بارش ہونے لگی تھی۔ اس کی جھونپڑی کی چھت سے پانی نیچے بڑی جھونپڑی میں لیٹی سائرہ پر ٹپکنے لگا تھا۔ وہ اوپر جھونپڑی پر گیا اور ناریل کے گھنے پتے سوراخ پر رکھ دیئے جس سے پانی ٹپکنا بند ہوگیا۔ تیز ہوا چلنے لگی تھی۔ساتھ ہی آسمان پر بجلی چمکنے لگی۔ اندر اس کی دادی کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگ پڑی اور طاہر کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگ گیا۔ ان کی جھونپڑی کے قریب صرف دو اور جھونپڑیاں تھیں جن میں سے ایک خالی تھی اور دوسری میں ایک میاں بیوی رہتے تھے جو کافی عمر رسیدہ تھے۔ دور تلک ہسپتال کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک سوشل سیکیورٹی والوں کی موبائل ہسپتال مہینے میں ایک بار وہاں آتی تھی جو انہیں ادویات لکھ دیتی، مگر مہیا نہ کرتی تھی۔ طاہر جھونپڑی سے باہر نکلا اِدھر اُدھر دیکھا اور سائیکل پر سوار ہو کر کالی مچھیرے کے گھر کی طرف جانے لگ پڑا جو تقریباً 10 منٹ کی دوری پر تھا۔ راستے میں خوب بارش ہوتی رہی، مگر وہ آگے بڑھتا رہا اور چند منٹ بعد اس کی جھونپڑی کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے ٹین کے ڈبوں سے بنے دروازے کو ہاتھ سے تھپتھپایا اندر سے لاڈو کی آواز آئی :
’’کون ہے؟‘‘
’’میں طاہر ہوں تمہارے ابا ہیں؟‘‘

لاڈو طاہر کا نام سنتے ہی باغ باغ ہوگئی، وہ اپنی خوشی کی انتہا کو بیان نہیں کرسکتی تھی۔ اتنے میں کالی کی آواز آئی :
’’ہاں آتا ہوں‘‘ کالی نے دروازہ کھولا اور طاہر کو بھیگا دیکھ کر ہکا بکا ہوگیا۔کالی بولا: ’’خیریت تو ہے؟‘‘ تم اتنے طوفان میں اس وقت؟‘‘

پھر طاہر نے اسے بتایا کہ اس کی دادی شدید علیل ہے اور وہ مدد کی غرض سے ان کی طرف آیا ہے۔ لاڈو طاہر کو بھیگے دیکھ کر اندر پانی پانی ہو رہی تھی۔ وہ فوراً بولی:
’’دوا ہے میرے پاس تم اندر آ جاؤ‘‘ طاہر اندر آگیا۔ کالی نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے نیچے دری پر بیٹھنے کو کہا۔ باہر طوفان تیز ہو رہا تھا۔ ناریل کے پتوں کی آوازیں لاڈو کی جھونپڑی میں سنائی دے رہی تھیں۔ لاڈو ہرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھی اور طاہر کو ناریل کا ایک چھوٹا درخت لگ رہی تھی۔ اس نے بازوؤں میں کانچ کی چوڑیاں پہنی ہوئیں تھیں۔ جو بہت خوبصورت لگ رہیں تھیں۔ آنکھوں میں تیز سرمے کی سلائی جیسے تازہ تازہ پھیری ہو اور بال جھونپڑی میں لگے چھوٹے سے لیمپ کی وجہ سے چمک رہے تھے۔ طاہر کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئیں تھیں اور لاڈو ادویات ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔ کالی طاہر کی حسرت بھری آنکھوں کی جانب دیکھ رہا تھا، مگر وہ بول نا پایا۔ کچھ دیر بعد لاڈو بولی:
’’یہ ہے دوادودھ کے ساتھ دینا وہ ٹھیک ہو جائے گی‘‘ طاہر کو اس کے آخری الفاظ میں امید کی کرن نظر آئی۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی‘‘ اسے ایسے لگا جیسے اس کی دادی ٹھیک ہوگئی ہو۔ لاڈو کا باپ اُٹھا اور کیتلی سے طاہر کے لیے قہوہ ڈالنے لگ پڑا۔ اتنے میں لاڈو طاہر کے پاس آئی دونوں کچھ دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر لاڈو نے اس کے ہاتھ میں دوا تھما دی اور اس کے قریب بیٹھ گئی دوا پکڑتے ہی طاہر بولا:
’’اچھا کالی میں اب چلتا ہوں۔ دادی پتا نہیں کس حال میں ہوگی۔‘‘
کالی نے کہا: ’’یہ پیتے جاؤ‘‘ تم سردی میں سائیکل پر آئے ہو۔‘‘

پہلے جیسے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتا ہو۔ خیر طاہر نے شکریہ ادا کیا اور بارش میں واپس اپنی جھونپڑی کی طرف لوٹ گیا۔ اس نے جاتے ساتھ ہی دادی کو دعا دی جس سے اسے کافی فرق محسوس ہوا اور اس کی رات بھلی گزر گئی۔ صبح سورج پوری چمک سے طلوع نہیں ہوا تھا۔ ہلکے ہلکی بادل آسمان کو میلا کیے ہوئے تھے۔

طاہر پچھلی رات لاڈو اور اس کے باپ کی مدد کی وجہ سے اب ان کا احسان مند ہوچکا تھا۔ اب طاہر روز پہلے کالی کے گھر جاتا، اسے ساتھ لیتا اور پورٹ پر روانہ ہو جاتا۔ دونوں منڈی میں سودا فروخت کرکے واپس بھی اکٹھے آتے تھے۔ آہستہ آہستہ کالی کے دل میں بھی طاہر کے لیے احترام ہونے لگا۔ پھر ایک دن لاڈو نے اپنے باپ کو بول دیا کہ وہ اس کے دوست طاہر سے محبت کرتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ کالی یہ سنتے ہی شش و پنج میں مبتلا ہوگیا۔ مگر دل ہی دل میں وہ مطمئن بھی تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ طاہر سے اس متعلق بات کرے مگر وہ یہ بات نہ کر پایا پھر ایک دن لاڈو ان کے گھر آ ٹپکی۔ دروازے پر دستک دی تو آگے سے طاہر کی ماں بولی ـ:
’’کون؟‘‘
لاڈو ڈرتے ہوئے : ’’جی میں لاڈو کالی مچھرے کی بیٹی۔‘‘

دروازہ کھلا تو اُس نے سلام کیا اور جھونپڑی میں داخل ہوگئی اندر والی جھونپڑی میں طاہر کی دادی پرانی چارپائی پر لیٹی آہستہ آہستہ سے کچھ پڑھ رہی تھی۔ لاڈو اندر گںی اور اس پرانی چارپائی کے قریب پڑے لکڑی کے چھوٹے سے سٹول پر بیٹھ گئی۔ چند منٹوں بعد طاہر کی دادی بولی:
’’طاہر تم آج جلدی آگئے؟‘‘
’’میں لاڈو ہوں ماں جی۔‘‘
بوڑھی: ’’کون؟‘‘
’’میں لاڈو اس رات جب آپ بیمار تھیں تو طاہر کے ہاتھ میں نے آپ کے لیے دوا بھیجی تھی اب آپ کیسی ہیں؟‘‘

یہ بات سنتے ہی طاہر کی دادی نے اپنا ہاتھ اوپر کی جانب اٹھایا لاڈو سمجھ گئی کہ بڑھیا پیار دینا چاہتی ہے وہ جلدی سے اٹھی اور اپنا سر ہاتھ کے نیچے کر لیا اماں نے ڈھیلے ہاتھوں سے پیار دیا اور بولی ـ:’’بیٹا تم بہت اچھی ہو‘‘۔
’’میں تمہاری شکر گزار ہوں۔‘‘ لاڈو اماں کی بات کو کاٹتے ہوئے بولی :
’’نہیں ماں جی وہ میرے پاس دوا پڑی تھی۔ ویسے بھی طاہر ابا کا دوست ہے۔‘‘ بوڑھی اماں پھر اس سے کافی دیر باتیں کرتی رہی۔ اُس نے اسے یہ بھی بتایا کہ طاہر کی ماں ایک سڈیل عورت ہے اور طاہر اپنے باپ کی طرح فرشتہ ہے۔ پھر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی۔ لاڈو جھونپڑی کو اوپر نیچے دیکھنے لگی۔ پھر اچانک طاہر کی دادی کو کھانسی ہوئی تو اس نے چارپائی کے نیچے پڑے پانی کے گلاس کو پکڑنا چاہا، مگر اس کا ہاتھ پانی کے گلاس کی بجائے زمین پر اِدھر اُدھر رگڑتا رہا۔ لاڈو اٹھی اور گلاس پکڑ کر اماں کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اماں نے پانی پیا تو کچھ دیر کے لیے کھانسی رک گئی۔ لاڈو طاہر کی ماں سے طاہر کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی، مگر جب چند لمحے پہلے طاہر کی دادی نے اسے بتایا تھا :
’’وہ ایک سڈیل عورت ہے‘‘ اس کے بعد لاڈو ڈر سی گئی تھی۔ اس نے سوچا کیوں نہ اب طاہر کی دادی سے اُس کے معلق بات کی جائے۔ شام ہونے کو تھی۔ ادھر طاہر اور کالی مچھیرے کے واپس آنے کا وقت ہوگیا تھا۔ لاڈو نے اماں کو مخاطب کیا۔
’’اماں میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں۔ کیا میں کر لوں؟‘‘
بوڑھی ماں کچھ دیر کے وقفے کے بعد بولی: ’’ہاں بولو بیٹا‘‘۔
لاڈو ڈرتے ہوئے بولی: ’’کیا میں آپ کے بیٹے طاہر سے شادی کرسکتی ہوں؟‘‘
اماں کے بوڑھے چہرے پر لگی عینک اماں نے اتار کر تکیے کے پاس رکھ دی اور بولی:
’’بیٹی تم ایک فرشتہ ہو۔ تم نے میری اُس رات بہت مدد کی اور جو بات ابھی تم کر رہی ہو یہ طاہر نے بھی کی ہے۔‘‘

لاڈو اماں کی یہ بات سن کر ہل سی گئی وہ بولی : ’’ماں جی کونسی بات طاہر نے آپ سے کی ہے؟‘‘

اماں دھیمے لہجے میں بولی: ’’یہی جو تم مجھ سے کر رہی ہو۔ وہ بھی تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘لاڈو بتا نہیں سکتی تھی کہ وہ کتنی خوش ہے اس کی آنکھوں میں سے آنسو ٹپک آئے اور اُسے احساس ہوگیا کہ یہ عشق دو طرفہ تھا جبکہ اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ طاہر بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اماں بولی :
’’تم چپ ہوگئی ہو؟‘‘ لاڈو نے یکدم آنسو صاف کیے اور بولی :
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے‘‘ اور ہنستے ہوئے چھوٹی جھونپڑی سے باہر بڑی جھونپڑی میں آ کر رک گئی جہاں ایک طرف رمیزہ اور سائرہ کھیل رہیں تھیں جبکہ دوسری طرف طاہر کی ماں جال کو سی رہی تھی۔ لاڈو نے ’’سلام ماسی‘‘ کہاں اور بڑی جھونپڑی سے باہر نکل گئی۔ باہر اس نے طاہر کو جھونپڑی کی طرف آتے دیکھا تو سہم سی گئی۔ طاہر نے اسے دور سے دیکھا تو اس کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ آگئی۔ وہ دور سے بولا:
’’لاڈو تم ادھر کیا کر رہی ہو؟‘‘ وہ بولی:
’’کیوں میں ادھر نہیں آسکتی؟‘‘
’’نہیں میرا مطلب ہے خیریت سے آئی تھی؟‘‘
’’ہاں کچھ کام تھا۔‘‘

طاہر چلتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو کچھ دیر کے لیے غور سے دیکھا ، اور پھر لاڈو مسکراتے ہوئے آگئے چلنے لگی۔ طاہر نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا تو وہ اسے ایک چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی۔ جو کبھی اپنے پراندے کو اِدھر کرتی کبھی اُدھر کرتی۔ کبھی زمین سے کنکریاں اٹھاتی اور نیچے پھینک دیتی تو کبھی پاؤں سے ناریل کے خالی کھوپے کو ٹھوکر سے آگے کی جانب دکھیل دیتی۔ طاہر کو اس کی یہی ادائیں پسند تھیں۔ یکدم لاڈو ناریل کے درختوں کی طرف غائب ہو گئی اور طاہراندر چلا گیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ پہلے اپنی دادی کی جھونپڑی کی طرف گیا اور سلام کیا۔ وہ لکڑی کے اُسی سٹول پر بیٹھ گیا جس پر سے لاڈو چند منٹ پہلے اٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں رفیق حلوائی کی برفی ایک گتے کے ڈبے میں موجود تھی۔ اس نے برفی اس سٹول پر رکھ دی جہاں وہ بیٹھا تھا اور خود نیچے دری پر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دادی سے کوئی بات کرتا اس کی دادی نے کہا:
’’آج مال ٹھیک بک گیا تھا؟‘‘ طاہر نے کہا:
’’ہاں ہاں دادی پورے 23 روپے بنے ہیں‘‘ وہ بولی:
’’چلو اچھا ہے۔‘‘ اور خاموش ہوگئی، کچھ دیر بعد بوڑھی بولیؒ:
’’ابھی لاڈو آئی تھی‘‘ طاہر یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ کچھ دیر پہلے وہ لاڈو کو اپنے گھر سے باہر نکلتے ہوئے ملا ہے بولا ’’یہاں آئی تھی؟‘‘ کوئی بات تو نہیں کی؟‘‘ اس کی دادی مسکرائی آج بڑے عرصے بعد وہ مسکرائی تھی۔ طاہر کو اپنی دادی کی مسکراہٹ دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ہاں ادھر آئی تھی۔‘‘
’’وہی بات کر گئی ہے جو توں چاہتا ہے‘‘ طاہر کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کی قسمت چمک پڑی ہو، وہ بولا: ’’میں کیا چاہتا ہوں؟‘‘
دادی نے کہا: ’’پاگل توں اس سے شادی کرنا چاہتا ہے نا؟‘‘
’’ہاں دادی‘‘۔
وہ بولی: ’’ہاں تو بس وہ بھی تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔‘‘
’’بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘
طاہر بولا: ’’کیا اس نے آپ کو کہا؟‘‘
اس سوال پر اس کی دادی نے کہا:
’’چل اب بھولا نا بن، اور جو برفی لایا ہے وہ کچھ مجھے کھلا اور باقی لاڈو کے گھر لیے جانا‘‘ اب طاہر کوئی اور سوال کرنے کے حق میں نہیں تھا اس نے بوڑھی دادی کو مٹھائی کھلائی اور باقی وہیں سٹول پر رکھ کر باہر اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ وہ ماں کو بھی لاڈو کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ اگرچہ اسے یہ معلوم تھا کہ اس کی ماں کبھی بھی راضی نہیں ہوگی، مگر پھر بھی وہ اپنی ماں کو لاڈو کے متعلق بتانے لگ گیا۔ اس کی اماں نے طاہر کی ساری داستان سنی اور کچھ بولے بغیر وہاں سے اٹھ کر جھونپڑی سے باہر چلی گئی۔ طاہر کو لگا کہ اس کا شک اب یقین میں بدل چکا ہے۔ مگر پھر بھی وہ ماں کے پیچھے جھونپڑی سے باہر نکلا اور اس کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی ماں بولی :
’’کب جانا ہے ادھر؟‘‘
طاہر نے حیران ہو کر کہا: ’’کدھر ماں؟‘‘ جس پر وہ بولی:
’’لاڈو کی طرف مٹھائی لے کر‘‘ ان لفظوں کو سننے کے بعد طاہر نے ماں کی طرف دیکھا اور اسے گلے لگا کر رونے لگا۔ اسی لمحے اندر سے رمیزہ دوڑتی ہوئی باہر آئی اور بولی:
’’بھائی آج آپ برفی لے کر آئے ہو؟‘‘ طاہر نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
رمیزہ برفی کے تعاقب میں واپس اندر دوڑ گئی۔ کچھ لمحوں بعد ماں بیٹا بھی اندر آگئے۔ پھر طاہر کی ماں نے اسے چاندی کی ایک انگوٹھی دکھائی جسے دیکھ کر طاہر حیران رہ گیا اور بولا:
’’ماں یہ توں نے کہاں سے لی؟‘‘ وہ بولی:
’’تیرے ابے نے شادی پر مجھے دی تھی، ہمارے حالات تنگ تھے مگر تیرے باپ کی آخری نشانی سمجھ کر میں اسے فروخت نہ کرسکی‘‘۔
’’مجھے معاف کرنا۔‘‘
طاہر نے اپنی ماں کے ہاتھ چومیں اور اس کی گالوں سے ٹپکتے ہوئے آنسوؤں کو اس کے دوپٹے سے صاف کر دیا۔ وہ رات لاڈو اور طاہر کی زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔ صبح پورٹ پر طاہر نے ڈرتے ہوئے کالی کو ساری بات بتا دی اور کالی بھی شادی کے لیے رضامند ہوگیا۔ ساتھ ہی کالی نے رات کو طاہر اور اس کے گھر والوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی جو طاہر نے قبول کر لی۔ منڈی سے واپسی پر طاہر نے گھر والوں کو تیار ہونے کا کہا۔ رمیزہ اور سائرہ بہت خوش تھیں۔ وہ مدتوں بعد کسی کے گھر جا رہیں تھیں۔ طاہر کی ماں نے بیٹے کی دادی کو آج کافی عرصے بعد دھلا جوڑا اپنے ہاتھ سے پہنایا اور اس کے بالوں پر تیل بھی لگایا تھا۔ ادھر لاڈو بھی خوب تیاریاں کر رہی تھی اس نے مہمانوں کے لیے مچھلی اور قہوہ بنایا تھا، ساتھ میں سفید چاول جو اس کا باپ قریبی گاؤں سے لے کر آیا تھا وہ بھی تیار تھے۔ لاڈو کے گھر دوسری کوئی عورت ذات نہیں تھیں جو اسے تیار کر دیتی سو وہ خود ہی تیار ہونے لگی۔ سُرما لمبی سلائی سے ڈالا اور چوڑیاں دھو کر دوبارہ چڑھا لیں، بالوں میں ہمیشہ کی طرح پراندہ باندھ لیا اور طاہر کے گھر والوں کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔ طاہر کی بوڑھی ماں تو نہ پہنچ سکی۔ مگر باقی سب لوگ ٹائم پر لاڈو کی طرف چلے گئے۔ کھانے پینے کے بعد طاہر کی ماں نے انگوٹھی طاہر کے ہاتھ میں تھما دی، جسے طاہر نے لاڈو کی گندمی انگلیوں میں سے ایک پے چڑھا دیا۔ کالی مچھیرا بھی بہت خوش تھا۔ اس کی چہتی بیٹی ایک مخلص نوجوان کی بہو بننے جا رہی تھی جسے وہ پچھلے کئی سالوں سے جانتا تھا۔ شادی کی اس چھوٹی سی رسم کے بعد لاڈو طاہر کے ساتھ اُن کے گھر روانہ ہوگئی۔ شادی کے چند دنوں بعد طاہر کی دادی کی وفات ہوگی اور اب وہ جھونپڑی جہاں اس کی دادی رہتی تھی وہ طاہر اور لاڈو کے لیے مختص ہوگئی۔ دونوں پورٹ پر مچھلی کا شکار کرتے اور شام کو گھر واپس لوٹ آتے پھر رات گئے تک خوب باتیں ہوتیں۔ شادی کے کئی سال بعد بھی اُن کے عشق کی وہی انتہا تھی جو شادی سے قبل تھی۔

Uzair Altaf
About the Author: Uzair Altaf Read More Articles by Uzair Altaf: 26 Articles with 28028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.