ابھی وہ زندہ تھا

ویسے ہم‘ بڑے سوشل اور ہم درد سے‘ واقع ہوئے ہیں۔ کسی کے ہاں سوگ ہو‘ وہاں جانا‘ نظرانداز نہیں کرتے۔ الله کا حکم کہہ کر‘ دعا کے لیے کہتے ہیں۔ اس کے بعد‘ سارا ماجرا دریافت کرتے ہیں۔ ساری رام کہانی سن کر‘ گہرے افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس وقت‘ محمد علی‘ طالش اور علاؤالدین کی ادا کاری کو‘ بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ مرنے یا حادثے کا شکار ہونے والے‘ سے اپنے گہرے تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر اس کی‘ وہ وہ خوبیاں بیان کرتے ہیں‘ کہ ان کا‘ اس شخصیت سے‘ دور کا تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ اس پر سارے سر ہلاتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ اس میں اضافے کی‘ اپنی سی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس گھر کی دہلیز میں داخل ہونے سے پہلے‘ اس شخص سے‘ ہماری کوئی ہم دردی نہیں ہوتی۔ اسی طرح‘ دکھ کا دور تک نام ونشان تک نہیں ہوتا۔ افسوس کے بعد‘ جب ہم‘ اس گھر کی دہلیز پار کرتے ہیں‘ تو ہمیں سب کہا سنا‘ بھول جاتا ہے۔

پھانسی لگنے اور پوسٹ مارٹم کے بعد‘ جب بھوسہ بھری میری لاش‘ میرے گھر آئے گی۔ یہ افسوس کے بہانے‘ میرے گھر والوں کے پاس آئیں گے۔ سب کچھ جانتے ہوئے‘ میرے گھر والوں سے معاملہ دریافت کریں گے۔ وہ بےوقوف‘ انہیں الف سے یے تک‘ کہانی سنائیں گے۔ یہاں تک بتائیں گے‘ کہ میری بھوسہ بھری لاش حاصل کرنے میں‘ انہیں کس قدر مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

لوگ کیا‘ میرے اپنے بھی‘ کتنی منافقت رکھتے ہیں۔ بس‘ میرا باپ ہی‘ خجل خوار ہو رہا ہے۔ وہ بچارہ گھر میں‘ اپنے بچوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا ہے‘ ادھر آ کر کچہری والوں سے‘ مٹی پلید کراتا ہے۔ پھر بھی‘ آنے سے باز نہیں آتا۔ ماں بےجاری وقت پر ہی چل بسی تھی‘ ورنہ وہ بھی‘ آج ذلیل ہو رہی ہوتی۔ میں تین سال سے‘ ہتھ کڑیوں سے آراستہ‘ عدالت میں لایا جا رہا ہوں۔ معاملہ جہاں تھا‘ ابھی تک‘ وہیں ہے‘ رائی بھر‘ پیش رفت نہیں ہوئی۔ میں بھی چاہتا ہوں‘ کہ معاملہ آگے نہ بڑھے۔ اگر معاملہ آگے بڑھا‘ تو میری زندگی کے آخری لمحوں کی گنتی کا‘ شمار شروع ہو جائے گا۔ میں موقع پر پکڑا گیا ہوں۔ گواہ‘ جن کا کاغذات میں اندراج ہوا ہے‘ میرے مخالفین کے ہاتھ کے ہیں۔ کوئی ملاقات تک کے لیے نہیں آیا‘ اگرچہ انہیں میرے اپنے ہونے کا دعوی رہا ہے۔

منافقت نے‘ ہمارے قول و فعل میں‘ بعد پیدا کر دیا ہے۔ ہمارا کردار‘ ہر لمحہ‘ ناصرف تضاد کا شکار رہتا ہے‘ بلکہ شکوک میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ کسی پر کیا یقین کیا جائے‘ یقین‘ نقصان سے دوچار کرتا ہے۔ یقین نہیں کرتے‘ تو تکمیل کے دروازے پر‘ قفل لگ جاتا ہے۔ درحقیقت یہ سب‘ ہمیں ورثہ میں ملا ہے۔ ہماری دھرتی‘ ہمیشہ سے‘ بیرونی عناصر کی تلوار پر رہی ہے۔ انہوں نے یہاں‘ لاشیں بچھائی ہیں۔ کھوپڑیوں کے‘ مینار بنائے رہے ہیں۔ ان کے مقاصد میں‘ وسائل اور اس دھرتی پر قبضہ کرنا رہا ہے۔ ایسے میں‘ لوگوں نے ڈر اور خوف سے‘ مذہب تبدیل کیا ہے۔ جان بچانے کے لیے ان کے قصیدے پڑھے ہیں۔ گویا باہر سے مسلمان‘ اندر سے سابقہ مذہب پر ہی‘ استقامت رہی ہے۔ اگلی نسلیں داخلی منافقت سے آگاہ نہ ہو سکیں‘ لیکن داخلی منافقت‘ جینز میں شامل ہو گئی۔ اگر تبلیغ کا کام‘ صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور مہاجر صالحین تک رہتا‘ یہاں ناصرف دو تہائی مسمان ہوتے‘ بلکہ ان میں کھرا پن بھی ہوتا۔ اور کسی کو چھوڑیں‘ کل پرسوں کے‘ ٹوپی سلار کا عدالتی نظام بھی تھا‘ لیکن ذاتی عناد کی بنا پر‘ لوگوں کے سر‘ تن سے خود جدا کرتا تھا۔ ہم کتنے چڈھو ہیں‘ جو اسے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔

جو ہمیں الٹا لٹکاتا ہے‘ ہمارا ہیرو‘ وہ ہی ہوتا ہے۔ حمیدا سڑک پر تڑپ رہا تھا۔ سب چھپ چھپ کر‘ اس کے تڑپنے کا نظارہ کر رہے تھے۔ لوگوں کے سامنے‘ جیرے نے اسے چھرا گھونپا تھا۔ کسی نے‘ جیرے کو نہیں پکڑا‘ حالاں کہ اس کے ہاتھ میں چھرا نہ تھا۔ چھرا تو ابھی تک‘ حمیدے کے پیٹ میں تھا۔ میں اس کے پیچھے بھاگا‘ لیکن وہ نکل گیا۔ پھر میں نے‘ جلدی سے‘ چھرا حمیدے کے پیٹ سے نکالا۔ میں اسے فورا ہسپتال لے جانا چاہتا تھا۔ پولیس کے آنے تک‘ اور موقع دیکھنے تک‘ وہ مر جاتا۔ سڑک پر سے‘ تانگے ریڑھے ہی آنا بند ہو گیے تھے۔ ویرانی سی پھیل گئی تھی۔ میری مدد کے لیے‘ کوئی نہیں آ رہا تھا‘ حالاں کہ لوگ گھروں پر موجود تھے۔ میں بےبسی کے عالم میں‘ کبھی ادھر جاتا تھا‘ کبھی ادھر۔ کوئی مدد کو تو نہ آیا‘ ہاں البتہ‘ پولیس ضرور آ گئی۔ مجھے پکڑ کر لے گئی‘ کیوں کہ موقع پر میں ہی موجود تھا۔ آلہءضرب پر میری انگلیوں کے نشان تھے۔

میں نے جیرے کے پیچھے بھاگنے کی‘ بہت بڑی غلطی کی۔ اس سے کاقی وقت ضائع ہو گیا۔ جیرے قاتل کے ڈر سے‘ کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ علاقے کا ہیرو ہے۔ کسی کی عزت اور مال و جان‘ اس سے محفوظ نہیں‘ پھر بھی وہ سب کا ہیرو ہے۔ سب کچھ‘ اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے‘ میرے خلاف گواہی دینے کے لیے‘ تیار کھڑے ہیں۔ ان میں سے‘ کسی سے میری دشمنی نہیں‘ بلکہ راہ چلتے کی‘ سلام دعا رہی ہے۔ جیرے سے بھی‘ میرا کوئی ذاتی عناد نہیں۔ میں اس کی حرکتوں کو‘ پسند نہیں کرتا تھا۔ پسند تو خیر‘ لوگ بھی نہیں کرتے تھے‘ فرق صرف اتنا تھا‘ کہ میں منہ پر کہہ دیتا تھا‘ جب کہ لوگ خاموشی میں‘ عافیت سمجھتے تھے۔

مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے ہی‘ دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج ہے‘ کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسرا جیرے کا جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس ذیل میں تیسریی بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190800 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.