حکیم الہ دین کے مرنے کے بعد‘ ان کی رہائش گاہ ویران پڑ
گئی۔ ان کے دونوں بیٹے‘ لاہور‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ‘ سٹ ہو گںے تھے۔
بیٹی منٹگمری بیاہی گئی تھی۔ پہلے تو‘ ماں اور باپ کی وجہ سے‘ دوسرے تیسرے
مہینے‘ دو چار دن کے لیے‘ چلی آتی تھی۔ اب اس کا یہاں کون تھا‘ جسے ملنے
آتی۔ حکیم صاحب‘ بنیادی طور پر‘ لائل پور کے رہنے والے تھے۔ یہاں ان کا کام
سٹ ہو گیا تھا‘ اسی لیے‘ یہاں ہی کے‘ ہو کر رہ گئے تھے۔ ان کی بیوی‘ چنیوٹ
کی تھی۔ بیوی کے مرنے کے بعد بھی‘ حکیم صاحب نے یہاں سے جانا پسند نہ کیا۔
حالاں کہ ان کے بیٹے‘ انہیں ساتھ لے جانے کے لیے‘ اصرار کرتے رہتےتھے ۔ ان
کے اصرار کے باوجود‘ انہیں یہاں رہنا ہی اچھا لگتا تھا۔
انہیں تنہائی کا‘ اس لیے بھی احساس نہ ہوا‘ کہ شاعر طبع شخص تھے‘ رات دیر
گیے تک‘ جوان بوڑھے شاعر‘ ان کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔ حکیم صاحب بڑے خوش خلق
اور خوش طبع‘ واقع ہوئے تھے۔ بلا کا حافظہ رکھتے تھے۔ جوانوں میں جوان ہو
جاتے۔ جب بوڑھوں سے مکالمہ چلتا‘ تو یوں لگتا‘ جیسے سن صفر سے متعلق ہوں۔
یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ان کو مرے‘ آج دس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ بہت سے‘
ان کے ساتھی‘ الله کو پیارے ہو گئے ہیں۔ جوان‘ آج جوان نہیں رہے۔ وہ آج بھی‘
انہیں بڑی محبت سے‘ یاد کرتے ہیں۔ اے ڈی قمر صاحب تو ان کے گرویدہ ہیں۔ ان
کی باتیں کرتے ہوئے‘ ان کی آنکھں بھرآاتیں ہیں۔
ایک دن میں نے سوچا‘ کیوں نہ‘ ان کا مکان خرید لوں۔ ایک بار پھر‘ اسی رونق
کو بحال کر دوں۔ ملبہ بوسیدہ ہو چکا تھا۔ جگہ کا ہی ریٹ چکانا تھا۔ مستعمل
ریٹ‘ نوے روپے چل رہا تھا۔ کل ساڑھے چار مرلے جگہ تھی۔ ٹوٹل چار سو پنتالیس
روپے بنتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار سو روپے لے لیں گے۔ میں نے ان کے
بیٹوں سے‘ رابطہ کیا۔ بھلے لوگ تھے۔ انہیں مکان سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔
اسی لیے مکان دینے پر جلد آمادہ ہو گیے۔
مکان کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔‘
اندر سے مکان‘ اب بھوت گاہ سے‘ کسی طرح کم نہ تھا۔ چھتیر اور بالوں کو گھن
نے‘ کھا لیا تھا۔ اس کے باوجود‘ خدا جانے‘ دونوں کمروں کی چھت‘ کیسے کھڑی
تھی۔ میری آنکھیں‘ حکیم صاحب کے شعر وسخن سے متعلق‘ کاغذ بتر تلاش رہی
تھیں۔ دونوں کمرے خالی تھے۔ بڑی مایوسی ہوئی۔ میں حکیم صاحب کا کلام‘ شائع
کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ان کے بیٹوں نے‘ کوڑ کباڑ‘ کباڑیے کے ہاتھ بیچ
دیا تھا۔ کتابیں اور کاغذ‘ ردی میں بک گیے تھے۔ اچانک میری نظر‘ ایک کونے
میں پڑے‘ ایک توڑے پر پڑی۔ میں اس کی جانب‘ جلدی سے بڑھا۔ اس توڑے میں‘
بوسیدہ اور کرم خوردہ چرمر کرکے‘ کاغذ ٹھونسے ہوئے تھے۔ یہ حکیم صاحب‘ کا
علمی و ادبی سرمایہ تھا۔
میں اس اجڑے دیار سے‘ ماضی کا یہ ان مول سرمایہ‘ گھر لے آیا اور پھر‘ ہر
کاغذ کو بڑی احتیاط اور پیار سے‘ سیدھا پدرا کیا۔ جانے اے ڈی قمر صاحب کو
کیسے خبر ہو گئی۔ وہ یہ سب‘ لینے چلے آئے۔ میں نے‘ دینے سے صاف انکار کر
دیا۔ انہوں نے کہا‘ جانے کب‘ تمہارے پاس پیسے آئیں گے‘ اور پھر تم اسے شائع
کرواؤ گے۔ میں اسے پہلی فرصت میں‘ اشاعت سے گزاروں گا۔ میں نے پھر بھی
انکار کیا۔ بات یہاں تک پہنچی‘ کہ وہ مجھے پانچ سو روپے‘ دینے کے لیے تیار
ہو گیے۔ آخر کب تک‘ انکار کرتا۔ میں نے پانچ سو روپے لے کر مسودہ انہیں دے
ہی دیا۔ جہاں کلام چھپوانے کا مجھے جنون تھا‘ وہاں مکان کی تعمیر کے لیے
بھی‘ رقم درکار تھی۔ الله نے خود ہی‘ اس کا بندوبست فرما دیا۔
میں نے اوپر کھڑے ہو کر‘ تعمیر کا کام کروایا۔ پہلے ملبے سے‘ بھرتی کا کام
لیا۔ اس سے‘ ایک فٹ کے قریب‘ مکان اونچا ہو گیا۔ میں نے بڑے اہتمام سے‘
بیٹھک بنوائی‘ تا کہ علاقے کے‘ شاعر حضرات بیٹھ کر‘ پرانی یادوں کو‘ ایک
بار پھر تازہ کر دیں۔ میری خواہش‘ ریزہ ریزہ ہو گئی‘ جب میری بیوی شازیہ
نے‘ بیٹھک اپنے بھائی کو اڈا لگانے کے لیے دے دی۔ اس کا کہنا تھا‘ کہ وہ در
در رل رہا ہے‘ اور تم اسے بےکار کام لیے‘ مخصوص کر رہے ہو۔ جھگڑا مول نہیں
لے سکتا تھا‘ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ صبر کے سوا‘ میرے پاس کوئی رستہ
باقی نہ رہا تھا۔ آدمی جو سوچے‘ اور سوچ کے لیے‘ کوشش بھی کرے‘ وہ پوری ہو‘
یا سوچ کے عین مطابق پوری ہو‘ ضروری نہیں۔ میری خواہش‘ دل میں ہی رہی‘ اور
میں کچھ بھی نہ کر سکا۔
مکان کو تعمیر ہوئے‘ ابھی تین چار ماہ ہی ہوئے ہوں گے۔ پکی انٹوں کا فرش
تھا‘ اور ٹیپ بھی‘ اچھی طرح کی گئی تھی‘ کچن کی پچھلی جانب‘ ایک ننھے مننے
سے پودے نے‘ دو اینٹوں کے ملنے والی جگہ سے‘ سر اٹھانا شروع کیا۔ میں حیران
تھا‘ کہ کوئی بیج ڈالا نہیں گیا۔ نچلی سطح پر‘ ایک فٹ بھرتی ڈالی گئی تھی۔
جو خود رو بوٹے اگ آئے تھے‘ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا تھا‘ تو پھر یہ
پودا‘ کہاں سے نمودار ہو گیا ہے۔ سوچا کسی سبزی وغیرہ کا بیج گر گیا ہو
گا۔غور کرنے پر‘ معلوم ہوا‘ وہ کسی سبزی کا پودا نہ تھا۔ میں نے چپ سادھ
لی‘ مبادا کسی کو پتا چل گیا‘ تو اکھاڑ پھینکا جائے گا۔
میں اسے ہر روز‘ چھپ کر‘ دو تین بار ضرور دیکھتا۔ پندرہ دنوں میں‘ اس کے
وجود کو استحقام میسر آ گیا۔ سچی بات ہے‘ وہ مجھے بڑا اچھا لگتا۔ اس کے
بڑھنے پھولنے پر‘ مجھے بڑی خوشی ہوتی۔ میں اس کے بہت قریب ہو گیا تھا۔ یوں
لگتا تھا‘ جیسے میری اور اس کی آشنائی‘ صدیوں پر محیط ہو۔ جب بھی اسے
دیکھتا‘ وہ اپنے پورے وجود کی مسکراہٹوں کے ساتھ ملتا۔ اس کا تنا ایک ہی
تھا‘ لیکن تنے سےاوپر‘ کئی شاخیں نمودار ہو گئی تھیں۔ بات یہاں تک ہی محدود
نہ تھی‘ ہر شاخ کئی شاخوں میں‘ بٹ گئی تھی۔ ہر نئی شاخ پر‘ ابتدا میں نکلنے
والے پتے‘ دوسرے پتوں سے‘ قطعی مختلف تھے۔ وہ سبز نہیں‘ براؤن سے ہوتے۔ نرم
نازک ہونا‘ تو الگ سے بات ہے‘ ان کا حسن بڑا متاثر کن تھا۔ یہ حسن اس شاخ
کی ذاتی پہچان تھا۔
میں نے سوچا‘ اس پودے کا تنا ایک ہے‘ شاخیں اسی سے وابستہ ہیں۔ ایک شاخ کی
کئی شاخیں ہیں۔ پتوں کے سائز الگ الگ ہیں۔ رنگ میں بھی‘ ایک دوسرے سے الگ
ہیں۔ سب کو زمین سے‘ تنے کے ذریعے خوراک میسر آ رہی ہے۔ انسان ایک آدم کی
اولاد ہے۔ پودے کو‘ زمین سے خوراک میسر آتی ہے۔ انسان کو بھی‘ زمین خوراک
میسر کر رہی ہے۔ پورا درخت‘ مختلف شاخوں میں بٹ کر بھی‘ ایک ہے۔ ہر شاخ‘
دوسری شاخ سے‘ پیوست ہو کر‘ درخت کو شکل دے رہی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی‘ کہ
الله قادر ہے‘ انسان کیوں ایک درخت کی شکل میں نہیں۔ اگر یہ ایک شکل میں
ہوتا‘ تو مخلوق خدا کو‘ پھل اور سایہ مہیا کرتا۔
میری سوچوں کا حلقہ‘ وسیح تر ہوتا گیا۔ پھر پتا نہیں‘ کب نیند نے آ لیا۔
صبح‘ حاجات اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد‘ پودا دیکھنے گیا‘ پودا اکھاڑ
پھینکا گیا تھا۔ میں نے شازیہ سے‘ پودے کے متعلق پوچھا‘ تو اس نے کہا‘ ہاں‘
پودا میں نے اکھاڑا ہے۔ یہ گھر ہے‘ کوئی جنگل نہیں۔ فرش کا ستیاناس ہو گیا
تھا۔ خدا معلوم‘ کیا بکواس کرتی رہی۔ میرے دماغ کی پھرکی الٹی پھرنے لگی۔
میں نے سوچا‘ بات بڑھ جائے گی‘ اس لیے گھر سے باہر نکل گیا۔ میں جانتا تھا‘
پانچوں بچوں کے منہ میں‘ شازیہ کی زبان ہے‘ اس لیے‘ میری دال گلنے کا‘ ایک
فیصد بھی امکان نہ تھا۔ وہ اسے لایعنی بحث سمجھتے‘ اور یہ باظاہر تھی بھی
بےکار کی بحث۔
اس پودے نے‘ یوں ہی جنم نہیں لیا ہو گا۔ یہاں خود رو پودوں کی بہتات تھی۔
ہم نے انہیں اکھاڑا‘ بھرتی بھی ڈالی اور اوپر چونے سے‘ فرشی اینٹیں چن دیں۔
درختوں کی جڑیں دور دور گئی ہوتی ہیں۔ ان ساری جڑوں کو تو ختم نہیں کیا جا
سکتا۔ درختوں کی ان جڑوں کو‘ زمین سے‘ خوراک ملتی رہتی ہے‘ اس لیے ان کی
موت واقع نہیں ہوتی۔ جب بھی‘ اور جہاں کہیں‘ موقع ملتا ہے‘ وہ درخت کی صورت
میں نمودار ہو
جاتی ہیں۔
حضرت ابراہیم خلیل الله ایسا برگد تھے‘ جس کی جڑیں‘ دور تک نکل گئی تھیں۔
شر کی انتہائی صورت کے باوجود‘ اس برگد کی صحت پر‘ رائی بھر‘ اثر نہ ہوا۔
دنیا کا کوئی خطہ‘ ایسا نہیں ہو گا‘ جہاں اس برگد کی جڑ سے‘ پودا نمودار نہ
ہوا ہو۔ لاریب فی‘ ہر پودے کا حسن اپنی جگہ باکمال رہا ہے۔ سچائی کا حسن‘
بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب الله
کے اختیار میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی کی
زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو
سطح زمین پر لاتی رہیں گی۔
حکیم صاحب کے بوسیدہ کاغذوں میں جان تھی‘ تب ہی تو‘ اے ڈی قمر نے‘ پانچ سو
روپے دینے میں‘ دیر نہ کی‘ ورنہ اتنی بڑی رقم کیوں دیتے۔ پودے کی جڑوں میں
دم تھا‘ اسی لیے ایک فٹ بھرتی کا سینہ چیرا‘ اور اپنے ہونے کا ثبوت فراہم
کیا۔ حر کب مرا ہے‘ اس کی جٹریں پوری دنیا میں پھیل گئی ہیں۔ حریت‘ اپنا
وجود منواتی رہے گی۔ شازیہ نے پودے کو اکھاڑ پھینکا‘ اور سمجھ بیٹھی ہے‘ اب
پودا نمودار نہیں ہو گا۔ میں کہتا ہوں‘ یہ پودا یہاں سے ناسہی‘ اسی گھر کے
پکے فرش اورایک فٹ بھرتی کا‘ سینہ چیرتا ہوا‘ کسی دوسری جگہ سے‘ ضرور
۔۔۔۔۔۔ ہاں ضرور نمودار ہو گا۔ یہ ہی اصول فطرت ہے‘ کہ حسن جگہ بدل بدل کر‘
نئے رنگ اور نئے روپ کے ساتھ‘ جلوہ گر ہوتا رہے۔ |