عشق و محبت کا موضوع توبہت پرانا
ہے۔معاشرہ ہمیشہ اسے خلافِ عشق گردانتا رہا۔حالانکہ عاشق و محبوب اس سے خ
خوشی محسوس کرتے تھے۔ مگر حالات نے انہیں غ غم میں مبتلا کیا۔ اسی لئے تو خ
لاف کو غ لاف سے مربوط کر دیا۔
یہاں خ غ کا قائدہ قانون بتانا مقصود نہیں ہے۔ جن کی حفاظت کی جانی ہوتی ہے
انہیں محفوظ کیا جاتا ہے۔ جو خوشبو پھیلاتے ہیں وہ کچھ چھپاتے نہیں ہیں۔
قوس و قزح کے رنگوں کی طرح کھلے نظر آتے ہیں۔ اپنی ذات کو وقت آنے پر فنا
کر دیتے ہیں۔ نئے آنے والوں کو سپیس دیتے ہیں۔
مگر جو ان کی محبت کو نچوڑ لیتے ہیں۔وہ انہیں غلافوں میں بھر بھر رکھتے ہیں۔
ایسی چاشنی ، لذت اور مٹھاس روئے زمین پر اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ صحت بخش ،
توانائی بھی ہوتی ہے بیماریوں سے نجات کا ذریعہ بھی۔ انگریز انہیں ہنی اور
ہم شہد کہتے ہیں۔ ہنی کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکہ اس کی افادیت شہد
بتانے سے قدرے زیادہ ہے۔حکیم ان سے علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔جب اس کا
استعمال بڑھا تو یار لوگ ملاوٹ کرنے وہاں بھی پہنچ گئے ۔ شکر کے شربت اور
لکڑی کے گھروندوں میں غلافِ عشق بنا ڈالے۔جن کی نہ ہی تاثیر ہے نہ
ذائقہ۔فائدہ تو کیا ہونا تھا چاہنے والوں کا اعتماد ہی اُٹھ گیا۔شکر سے کچھ
زیادہ مٹھاس کے علاوہ افادیت ہی کھو بیٹھا۔جب عشق و محبت میں سچائی کی
خوشبو ڈھونڈنے والے مصنوعی طاق دان میں عشق کو غلاف میں لپٹا پائیں گےتو ان
میں جستجو چاہت قربانی کے جزبات اہمیت و قدر کے ساتھ ساتھ پاکیزگی اور
شفافیت بھی کھو دیں گے۔
عشق قربانی مانگتا ہے یہاں تک کہ جان بھی عزیز نہ رہے۔اگر عاشق محبوب کی
قربت کے خیال سے نفاست نصف ایمان سے بھی بڑے درجہ پر لے جائے تو اسے عشق کو
غلاف میں لپیٹ کر رکھنا ہو گا۔موسمی اثرات ہوائے گرد آلود سے بچانے کے لئے
نہیں بلکہ عشق حقیقی کو مجازی بننے سے ۔ جن کی منزل ایک ہوتی ہے وہ مسافر
قربت کی پگڈنڈیوں سے دوسروں کو آگے بڑھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ تحریر ابھی
تک واضح خدو خال کے ساتھ دل اور دلدار کے بغیر غلافِ عشق کے زمرے میں نہیں
آ ئی۔
عاشق ذہن پر دباؤ کا شکار ہوں گے اور محبوب قلب کی تیز دھڑکن کا۔
مقدس کتاب کی طرح یہ غلاف بھی مقدس عشق کا ہے۔ ایک سچےواقعہ سے غلافِ عشق
کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
3 فروری 2012 بروز جمعۃالمبارک اوکلوہاما کے شہر تلسہ میں ایک بڑی جامع
مسجد کی دوسری صف میں کھڑا ایک نمازی جس کے بائیں جانب 60 اور دائیں جانب
45 نمازی نیت باندھے کھڑے تھے۔ مسجد داخل ہونے سے پہلے وہ سگریٹ کے پیکٹ
میں آخری سگریٹ کو دھوئیں میں ڈھال کر وضو کرتےہوئے نئے سگریٹ کے پیکٹ کے
نہ ہونے کےافسوس میں مبتلا تھا۔ کیونکہ بینسن اینڈ ہیجز برانڈ ہر جگہ سے
نہیں ملتا تھا۔ اسی چاہت شوق میں جو وہ پچیس سال سے پالے ہوئے تھا مسجد میں
نمازیوں کے ساتھ نیت باندھے کھڑا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب وہ ہمیشہ کی طرح
عشق کو غلاف سے نکال لیتا اور امام کے پیچھے اپنی ناقص عقل سے الحمداللہ رب
العالمین کو جزب کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس دن عشق نے نماز تک پہنچنے والے
خیال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہاسپٹل دفتر تو ایک طرف بسوں اور پارکوں میں جس کے
سلگانے کی اجازت نہیں ہے ۔ چند کلیوں کے بعد رب العالمین کا نام لینے سے
کوئی ملال نہیں جس کی بد بو ابھی تک سانس میں رواں تھی۔ اس خیال کے آتے ہی
قلب کے نہاں خانوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ جسم کے روئیں روئیں سے لہو غلافِ
عشق اُتار کر پچیس سال سے دماغ میں بسی چاہت دھواں کو ایک ایک خلیے سے نکال
باہر لائے ۔ اور پورے وجود کو ایسے نہلا دیا جیسے بارش کے بعد چاندنی رات
میں زمین کو روشنی سے نہلا دیتی ہے۔جسے نماز سے پہلے وہ فراموش نہیں کر پا
رہا تھا۔ اب وہ اسے یاد نہیں کر پا رہا تھا۔ جسے ہاتھ سے چھونا اور ہونٹوں
سے لگانا ایک نشہ میں مبتلا کر دیتا تھا ۔ آج وہ چاہت بے ثباتی اسے ایسے
چھوڑ گئی جیسے کسی زندہ وجود سے روح نکل کر واپسی اختیار نہیں کرتی۔عشق میں
سچائی ہو دیانت ہو ایمانداری ہو محبوب کی عزت و تکریم کا خیال ہو۔تو عشق
لہو بن کر رگوں میں دوڑتا ہے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو وہ لہو کیا ہے |