دُعا کی اہمیت و فضیلت

دُعا کے معنی اور تعریف
فرھنگ آصفیہ میں دُعا کے لغوی معنی’’ حاجت، درخواست، التجا، استدعا، التماس، عرض، ارداس، چھوٹے کا بڑے سے مانگنا، وظیفہ، مناجات، مغفرت کی طلب ‘‘ بیان کیے گئے ہیں۔ جامعہ پنجاب کے شائع کردہ ’’اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ‘‘ میں دُعا کے لغوی معنی’’ بلانا، پکارنہ، منسوب کرنا، عبادت کرنا اور مدد طلب کرنے ‘‘ کے ہیں ۔ لفظ دُعا نام رکھنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے جیسے’’ دَعَوت ْاِبنی
صائم‘‘ یعنی میں نے اپنے بیٹے کا نام ’صا ئم‘ رکھا۔دعا کے اصطلاحی معنی پرور دگار سے اپنے یا کسی اور کے لیے استمداد و استغاثہ ہے۔

دُعا کی عظمت قر آن کریم کی روشنی میں
دُعا کے بارے میں قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے متعدد جگہ ہدایت دی ان آیات مبارکہ سے دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ سورۃ البقریٰ ۲، آیت ۱۸۶ میں ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:
’’وَاِذَ ا سَاَلَکَ عِباَدِیْ عَنِّیْ فَاِ نِّیْ قَرِیْبُٗ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاِ ج اِذَدَعَانِ لا فَلْیَستَجِیْبُوْ الِیْ وَلْیُؤْ مِنُوْ ا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ں
ترجمہ : ’’ اور( اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہُوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہُوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں‘‘۔قرآن مجید کی سورۃ الا عراف۷ ،آیت ،۵۵، ۵۶ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے۔

اُدْعُوْ ارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ج وَلَاتُفْسِدُوْ ا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَا حِھَا وَدْعُوْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اﷲِ قَرِیْبُٗ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ں (سورۃ الا عراف۷ ،آیت ،۵۵، ۵۶)
ترجمہ: لوگوں اپنے پرور دگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ ’’اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خداسے خوف کرتے ہوئے اور اُمید رکھ کر دعا ئیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے‘‘۔ اسی سورۃ مبارکہ کی آیت ۲۰۵ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّ عًا خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰ صَا لِ وَلَاتَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ں
تر جمہ: اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا ۔

حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دعَا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے ۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے بطور دلیل قرآن کریم کی سورۃ ’المؤمن ‘ (۴۰) آیت ۶۰ کی تلاوت فرمائی ( وَقَالَ رَبُّکُمُادْعُوْنیِْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ْ) ، تر جمہ ’’ اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگا کرومیں تمہا ری دعا قبول کرونگا‘‘۔(مسند احمد، جامع ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، النسائی)
قرآن مجید میں لفظ دُعا جن جملہ معانی میں استعمال ہوا ہے ان میں بلانا، پکارنا(سورۃ النور۲۴ آیت ۶۳) منسوب کرنا (سورۃ الا حزاب۳۳ ، آیت ۵)، عبادت کرنا (سورۃ الا عراف۷ ، آیت ۱۹۴)، استمدادو ا ستغاثہ (سورۃ البقرۃ ۲، آیت ۲۳) ،قر آن مجید میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعوت دی کہ وہ اس سے دعا کریں۔ اس بات کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں موجود ہے۔

دُعا کی عظمت احادیث نبوی صلی اﷲ علیہ و سلم کی روشنی میں
اﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے دُعاکی عظمت ، اس کی بر کتیں ، دُعا کے آداب اور دعا کرنے کے بارے میں واضح ہدا یات دی ہیں ۔ایسی بے شمار احادیث ہیں جن میں دعا کا ذکر ہے اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرما یا’’ اﷲ کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں (جامع تر مذی، سنن ابن ماجہ)

حدیث مبارک جامعہ ترمذی ، سنن ابی داؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں نقل کی گئی ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ دعا عین عبادت ہے ‘‘ اور حدیث مبارک حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے جس میں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر قرار دیا ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)

حضر جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فر مایا ’’کیا میں تمہیں وہ عمل بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنے اﷲ سے دُعا کیا کرو رات میں اور دن میں ‘ کیو نکہ دُعا مؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی خاص طاقت ہے‘‘ ( معارف الحدیث)

دُعا مانگنے کی ہدایت
اﷲ سے اس کا فضل طلب کرنے، دعا مانگنے اور دعا کا اہتمام کرنے کی خاص ہدایت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فر مایا ’’دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے‘ پس اے خدا کے بندوں دعا کا اہتمام کرو‘‘۔ (جامع ترمذی)

ایک اور حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مردی ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اﷲ سے اس کا فضل مانگو یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و کرم فر مائے، کیونکہ اﷲ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں ‘‘ اور فرما یا کہ ’’ اﷲ تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فر مائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ‘‘ (جامع ترمذی)

جامع تر مذی اور سنن ابی داؤد میں حد یث مبارکہ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ تمہارے پرور دگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے ‘ جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے کہ اس کوخالی واپس کرے ( کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فر ما تا ہے)حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ۔ فرمایا آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ ’’جب اﷲ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فر مائے گا، اور جان لو اور یاد رکھو کہ اﷲ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل (دعا کے وقت) اﷲ سے غافل اور بے پرواہ ہو‘‘۔ (جامع تر مذی)

دُعا کے آداب
اﷲ تعالیٰ رحیم ہے، کریم ہے، مہربان ہے، سننے والا ہے، دینے والا ہے، مانگنے والے بندے پر اسے پیار آتا ہے ، بندے کا اپنے رب سے مانگنے کا عمل اسے عزیز ہے، بندہ اپنے رب سے خاموشی کے ساتھ ، عاجزی کے ساتھ، انکساری کے ساتھ، اطاعت کے ساتھ ،فر ما بر داری کے ساتھ، فقیری کے ساتھ ، گدائی کے ساتھ ،چپکے چپکے، دھیمی آواز کے ساتھ، خشو ع و خضوع کے ساتھ، اعتراف گناہ اور احساس ندامت کے ساتھ ، گڑ گڑا کردعا کرے ، یہ افضل ہے اور اﷲ کو بے حد پسند بھی ہے ۔ اس کے بر عکس وہ اپنے اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو اس سے نہ مانگے، اس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ جوا ﷲ سے نہ مانگے اس پر اﷲ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔ (جامع تر مذی)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے جسے سنن ابی داؤد نے نقل کیا ہے کہ فرمایا آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’ اﷲ سے اس طرح ہاتھ اٹھا کے مانگا کروکہ ہتھیلیوں کا رخ سامنے ہو ہاتھ الٹے کر کے نہ مانگا کر و اور جب دُعا کر چکو تو اٹھے ہاتھ چہرے پر پھیر لو ‘‘۔(سنن ابی داؤد) حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی کسی دوسرے کے لیے دعا کرنی ہو تو پہلے اﷲ تعالیٰ سے اپنے لیے مانگے اس کے بعد دوسرے کے لیے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اگر صرف دوسرے کے لیے دعا کی جائے تو اس دعا کی حیثیت ایک سفارش کی سی ہوگی جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔دعا کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ بندہ جب اپنے مالک سے دعا کرے تو با وضو ہو، دو رکعت نماز پڑھ کر ساتھ ہی دعا سے قبل اﷲ کی حمد و ثنا بیان کرے اور اپنے آقا و مولا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ فضا لہ بن عبید سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا اس نے نماز میں دعا کی جس میں نہ اﷲ کی حمد کی نہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فر مایا ’’ اس آدمی نے دعا میں جلد بازی کی ۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور اس سے یا اس کی موجودگی میں دوسرے آدمی کو مخاطب کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو (دعا کرنے سے پہلے) اس کو چاہیے کہ اﷲ کی حمد و ثنا کرے ، پھر اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اس کے بعد جو چا ہے اﷲ سے مانگے‘‘۔(جامع تر مذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی ) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہو تا ہے کہ دعا میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چا ہیے اور دعا سے قبل اﷲ کی حمد و ثنا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے۔ دعا کے آداب میں یہ بھی شامل ہے اور حدیث مبارکہ بھی ہے کہ دعا کے خاتمہ پر آمین کہنا چاہیے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ پرور دگار میری یہ دعا قبول فرما۔

اﷲ تعالیٰ نے آداب دُعا خود سکھائے۔ قرآن کریم کی سورۃ اعراف۷، آیت۵۵ میں ارشادِہوا ’’ اُدْعُوْ ارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَّ خُفْیَۃً‘‘ اپنے رب کو گڑ گڑا کر پکارو اور یہ سمجھو کہ میرا رب میری بات کو سنتا اور میری تمام حرکات و سکنات کو دیکھتا ہے۔ وہ میرے سامنے موجود ہے، وہ اپنے ماننے والوں کو ضرور دیتا ہے، محروم نہیں کرتا ہے اور جو اپنی حاجت کو رغبت سے طلب کرے ، ایسے لوگوں کی اﷲ تعریف کرتا ہے۔

دعا کے مخصوص احوال و اوقات
دُعا اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصو ص تعلق ہوتا ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے ، اپنی مشکل کا اظہار کر تا ہے ، اپنے گناہو ں کی معافی طلب کر تا ہے ، بخشش کی درخواست کر تا ہے ، مختصر یہ کہ جو کچھ اس کے دل میں ہو تا ہے وہ سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے ،دعا در اصل منگتے اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست را بطہ ہوتی ہے، مخصو ص زبان یا مخصو ص الفاظ کا سہارا نہیں لیتا وہ دعا میں اﷲ تعا لیٰ سے خطاب اپنی حاجت کی نسبت سے کر تا ہے اﷲ کو اپنے بندے کی یہی ادا پسند بھی ہے، دعا کے لیے مخصو ص الفاظ ضروری نہیں، بندہ اپنے پر ور دگا سے دن یا رات کے کسی بھی حصے میں دُ عا مانگ سکتا ہے، کوئی خاص وقت اس مقصد کے لیے مقرر نہیں ،تاہم احادیث مبارکہ سے دعا کے لیے خاص احوال و اوقات ثابت ہیں۔ان احوال و اوقات میں اﷲ تعا لیٰ کی رحمت وعنایت کی خاص امید کی جاتی ہے۔حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اذان اور اقامت کے درمیان دُعا رَد نہیں ہوتی قبول ہی ہوتی ہے‘‘۔ (جامع تر مذی، سنن ابی داؤد)

یوں تو اپنے خالق سے کسی بھی وقت کسی بھی جگہ حاجت طلب کی جاسکتی ہے اور وہ ہر وقت سنتا ہے ۔مگر اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنی عبادت و مناجات کے لیے کچھ مخصوص اوقات مقرر کر دئے ہیں کہ ان وقتوں میں دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
٭ رات کا آخری حصہ( یعنی پچھلی شب بیدار ہوکر نماز تہجد پڑھنا اس وقت دعُاؤں کو قبولیت کا درجہ عطا ہوتا ہے)
٭ جمعہ کے دن میں بھی ایک قبولیت کی ساعت(گھڑی) ہے ، اس میں دعاقبول ہوتی ہے ۔ (بیشتر علماء کے خیال میں وہ وقت عصر
کے بعد آفتاب کے غروب ہونے تک کا وقت ہے)
٭ شب قدر اس شب کی قرآن و حدیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔
٭ اذان کے وقت ۔
٭ فرض نمازوں کے بعد۔
٭ سجدے کی حالت میں۔
٭ قرآن مجید کی تلاوت اور ختم قرآن کے وقت۔
٭ عرفہ کے دن (ذی الحجہ کی نویں تاریخ)
٭ رمضان شریف کے مہینے میں اور روزہ افطار کرتے وقت۔
٭ نماز میں جب امام ’’غَیْر الْمَغضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآ لِّیْنَ‘‘ پڑھ کر آمین کہنے کے بعد۔
دعا کے لیے مخصو ص مقا مات کی بھی قید نہیں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہر جگہ ہرمقام پر سنتا ہے۔ پھر بھی بعض مقامات پر دعا ئیں قبول ہوتی ہیں وہ یہ ہیں :٭ بیت اﷲ شریف (طواف کرتے ہوئے)
٭ مسجد بنوی صلی اﷲ علیہ و سلم
٭ ملتزم پر چمٹ کر(ملتزم اس جگہ کو کہا جاتا ہے جو حجرا اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے۔ ملتزم کا مطلب ہے چمٹنا،
کیونکہ اس جگہ چمٹ کر دعا کی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے اس جگہ کو ملتزم کہا جاتا ہے
٭ میزاب کے نیچے ( خانہ کعبہ کی چھت سے پانی بہہ کر نیچے آنے کا جو پرنالہ ہے میزاب ہے)، اسے میزاب رحمت بھی کہا جاتا ہے اور حطیم میں گرتا ہے اس کے نیچے دعا قبول ہوتی ہے۔
٭ بیت المقدس
٭ رکن و مقام ابرہیم کے درمیان
٭ صفا و مروہ پہاڑیوں پر
٭ مقام ابراہیم کے پیچھے
٭ جہاں سعی کی جاتی ہے۔
٭ عرفات میں۔
٭ زمزم کا پانی پیتے وقت۔
٭ مشعر الحرام مزدلفہ میں۔
٭ رکن یمانی اور حجرا سود کے درمیان۔
٭ دونوں جمروں کے پاس جمرہ صغریٰ اور جمرہ وسطیٰ کے پاس کنکریاں مارنے کے بعد۔
رو ح ِ دُعا

صحیح مسلم کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، فرمایا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ’’ رات میں ایک خاص وقت ہے جو مؤمن بندہ اس وقت میں اﷲ تعا لیٰ سے دنیا آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی مانگے گا تو اﷲ تعا لیٰ اس کو ضرورعطا فر مادے گااور اس میں کسی خاس رات کی خصو صیت نہیں بلکہ اﷲ کا یہ کرم ہر رات میں ہوتا ہے‘‘۔بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے بہت قربت حاصل کر لیتا ہے پس تم اس حالت میں خوب خوب دعا مانگا کرو‘‘۔ اس کے علاوہ احادیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بندہ مؤ من کی دعا راہِ خدا میں جنگ کے وقت، بارش کے دوران، خانہ کعبہ نظر کے سامنے ہو،فرض نماز کے بعد، قرآن مجید ختم کرنے کے بعد اپنے پروردگا ر سے خلوص دل سے حاجت طلب کرے تو اﷲ تعالیٰ سے اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بندہ مؤ من حسب ذیل خاص احوال و اوقات اور کیفیات میں اپنے پرور دگار سے صدق دل سے بھلائی کے لیے مانگے تو وہ اسے ضرور ملے گا۔ مفتی منیب الر حمٰن کے مطابق روح ِ دُعا اور جوہر دُعا یہ ہے کہ اخلاص، نیت ہو ، لِلّہیّت ہو، حُضوریِ قَلب ہو، قلب وقالب ،جسم و جان حتیٰ کہ بدن کا ایک ایک رواں معبودِ مطلق کی جانب متوجہ ہو، زبان ہیبت الہٰی سے لر ز رہی ہو، آنکھیں اشک بار ہوں ، اس کیفیت میں ڈوب کر جو دعا مانگی جائے ، وہ ضرور شرفِ قبولیت سے سر فراز ہوگی۔ چنا نچہ بندہ دُعا کرے: با وضو ہو کر،یقین کے ساتھ،اعتراف گناہ کے ساتھ،احساس ندامت کے ساتھ،خشو ع و خضوع کے ساتھ،اخلاص نیت کے ساتھ،امید اور یقین کے ساتھ اشک بار آنکھوں کے ساتھ،گڑ گڑا کراپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر،قبلہ رخ ہوکر ،التجا اور استدعا کرتے ہوئے،سجود میں اور اقامت کے دوران اذان کے دوران ،دو رکعت ادا کرنے کے بعد ،فرض نماز کی ادئیگی کے بعد،قرآن مجید ختم کرنے کے بعد اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد،جلد بازی سے کام نہ لیتے ہوئے،اگر کسی کے لیے دعا کرنا مقصود ہو تو پہلے اپنے لیے مانگے،راہ ِخدا میں جنگ (میدان جہاد )کے وقت،برسات کے وقت(رحمت کا سماں ہو)،خانہ کعبہ نظروں کے سامنے ہو،جنگل بیابان یاایسی جگہ جہاں خدا کے سِوا اسے کوئی دیکھنے والا نہ ہو، رات کے آخری حصہ میں اﷲ کے حضور کھڑا ہودعا کرے انشا ء اﷲ دعا قبول ہوگی۔

دعا میں جلد بازی سے کام نہ لینا
دعا بندے کی جانب سے اپنے پروردگار کے حضور درخواست اور التجا ہے، وہ اپنے بندے کی سنتا ہے ، بندے کا کام اس کے حضور اپنی خواہش کا مسلسل اظہار کرتے رہنا ہے۔ انسان جلد بازواقع ہوا ہے، وہ نہ صرف یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی خواہش جوں کی توں پوری ہو بلکہ فوری اسے وہ کچھ مل جائے جس کی وہ خواہش رکھتا ہے۔ بسا اوقات جب اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتا ہے، اپنے عمل سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، دعا کا عمل ترک کردیتا ہے ۔ ہمیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے، یہ ہماری سخت غلطی ہوگی اگر ہم مایوس ہوجائیں اور اس بنا پر دعا کرنا چھوڑ دیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا یہ عمل ہی ہماری محرومی کا سبب ہوتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’ تماری دعائیں اس وقت تک قابل قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ جلد بازی یہ ہے کہ بندہ کہنے لگے کہ میں نے دُعا مانگی تھی مگر وہ قبول نہیں ہوئی‘‘۔دُعا و استغفار تین مرتبہ کرنی چاہیے۔ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تین بار دعا فرماتے تھے

دُ عا جس کی ممانعت ہے
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ المومن (۴۰)، آیت ۶۰ میں دعا کے لیے بظاہر کوئی شرط نہیں ۔ حتیٰ کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے۔ کافر کی دعا بھی اﷲ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔ نہ ہی دعا کے لیے کوئی خاص وقت یا جگہ اور نہ ہی طہارت اور باوضو ہونا شرط ہے مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو موانع قبولیت فرمایا گیا ہے ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے۔

انسان بسا اوقات پریشانیوں اور مشکلات سے گھبرا کر یا نہ دانستگی میں ایسی دعا یا ایسے جملے اپنی زبان سے اداکرنے لگتا ہے کہ اگر وہ قبول ہوجائیں تو اس میں خود اسی کا نقصان ہوجائے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسی دعاؤں سے منع فرمایا ہے۔

حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ’’ تم کبھی اپنے حق میں یا اپنی اولاد اور مال و جائیداد کے حق میں بد دُعا نہ کرو‘ مبادا وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو‘ اور تمہاری وہ دعا اﷲ تعالیٰ قبول فرمالے ( جس کے نتیجے میں خود تم پر تمہاری اولاد یا مال و جائیداد پر کوئی آفت آجائے)۔ (صحیح مسلم شریف)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ’’ تم میں سے کوئی اپنی موت کی تمنانہ کرے ‘ نہ جلدی موت آنے کے لیے اﷲ سے دعا کرے‘‘۔ (صحیح مسلم شریف)

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ’’ تم لوگ موت کی دُعا اور تمنا نہ کرو، اور کوئی آدمی ایسی دعا کے لیے مضطر ہو (اور کسی وجہ سے زندگی اس کے لیے دو بھر ہو) تو اﷲ کے حضور میں یوں عرض کرے ’’ اے اﷲ جب تک میرے لیے زندگی بہترہے مجھے زندہ رکھ، اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو دنیا سے مجھے اٹھا لے‘‘۔ ( سنن نسائی)

مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے اپنی کتاب ’’ معارف الحدیث ‘‘ میں دعاؤں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ ایک وہ جن کا تعلق خاص اوقات اور مخصوص حالات سے ہے مثلاً صبح نمودار ہونے کے وقت کی دعا، شام کے وقت کی دُعا سونے کے وقت کی دعا، نیند سے بیدار ہونے کے وقت کی دعا، آندھی یا بارش کے وقت کی دعا، کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعا وغیرہ وغیرہ۔
۲۔ دوسری وہ دعائیں ہیں جو عام نوعیت کی ہیں، کسی خاص وقت اور مخصوص حالات سے ان کا تعلق نہیں ۔ یہ دعائیں اکثر جامع قسم کی ہیں۔
۳۔ تیسری قسم کی دعائیں وہ ہیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نماز میں یا نمازسے فارغ ہوکر یعنی سلام کے بعد اﷲ تعالیٰ کے حضور میں کیا کرتے تھے۔ (مصنف کی کتاب ’دعا کی اہمیت و فضیلت ‘ شائع شدہ ۲۰۰۸ء میں شامل )
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437857 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More