مکہ لائبریری ، سعودی عرابیہ میں ایک دن

مکہ المکرمہ میں حرم شریف کی حدود میں موجود پیدائش گا ہ ( مَو لِدُ النبِی) حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اب ایک عوامی لائبریری ہے جو مَکتبہ مکَۃُ الُمکرَمہ(مکہ لائبریری) کہلاتی ہے۔ یہ گھرجو اب لائبریری ضرور ہے لیکن پیدائش گاہ ( مَو لِدُ النبِی) کے نام سے ہی معروف ہے۔ اس جگہ اور اس گھر کو اس وجہ سے ہی اہمیت ، فوقیت اور بلند مرتبہ حاصل ہے کہ اس جگہ حضور اکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔یہ گھر حر م شریف کے میدان میں باب الافتح کے سامنے، باہر کی جانب ،پہاڑ کے دامن میں واقع ہے ۔ گھر اپنی اصلی حالت میں نہیں یہ تعمیر کے کئی مراحل سے گزرا ہے لیکن خطہ زمین اور جگہ وہی ہے ۔ لائبریری کی تفصیل میں جانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس گھر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے جس کی تعمیر نو کر کے یہاں اب ایک عوامی کتب خانہ (مَکتبہ مکَۃُ الُمکرَمہ)قائم کردیا گیا ہے۔ تفسیر کبیر میں درج ہے کہ قرآن مجید میں سرزمین مکہ ’’ بَکَّہ‘‘ اور’’ مَکَّہ‘‘جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ بَکَّہ‘‘ اور’’ مَکَّہ‘‘حقیقت میں ایک ہی لفظ ہے لیکن بَکَّہ‘‘ کی با‘ میم سے بدل کر ’’مَکَّہ‘‘ بن گیا ۔تورات میں مکہ کانام اوّ لاً ’’مَدْبَار‘‘ یعنی بادیہ بتا یا گیا ہے۔ قرآن مجید نے اسی کو وَادٍی غَیْرَ ذِی زَرْعٍ‘‘’بن کھیتی کے زمیں‘ کہا ہے۔

مکہ المکرمہ کے محلے
تصانیف ’’تاریخ مکَۃُ الُمکرَمۃ‘‘اور ’’تاریخ مَدینۃُ المُنوَرۃ‘‘ کے مصنف محمد عبد المعبودنے الشیخ پاشا و اسرائے مصر کے حوالہ سے خلافت عثمانیہ میں مکہ کے محلوں کی تفصیل بیان کی ہے ا۔ اس وقت مکہ میں محلہ جرول، مسفلہ، جیاد، قشاشیہ، الغزہ، اشامیہ، القرافہ، السلیمانیہ کے علاوہ محلہ ’شعب بنی عامر بھی تھا ۔ مولد النبی ﷺاسی محلہ شعب بنی عامر میں تھا۔ یہ محلہ غزہ کے شمال میں ہے اس میں مولد النبی ﷺ مولد علی رضی اﷲ تعا لیٰ عنہا اور بنی ہاشم کے مکانات تھے۔اس کے شرقی حصہ میں زما نۂ جاہلیت میں بنی عبدالمطلب آباد تھے۔ لیکن آج کل یہاں اشرافِ مکہ مقیم ہیں۔ ریش کے مکانات زیادہ ترحرم کے شمال کی طرف تھے۔

مولد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم
مَو لِدُ النبِی یا وہ مقدس گھر جس میں آفتاب نبوت طلوع ہوا تھا۔یہ جگہ اس اعتبار سے اہم اور متبرک ہے کہ اس گھر میں ہمارے پیارے بنی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت بہ سعادت بروز پیر ، ۱۲ ربیع الا ول عام الفیل مطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء شعب بنی ہاشم میں مکہ معظمہ کے اسی گھر میں ہوئی۔ڈاکٹر انگاوی کے مطابق یہ گھر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد محترم عبداﷲ ابن عبد المطلب کی ملکیت تھا۔جب عبد المطلب نابینا ہوگئے تو انہوں نے اپنی جائیداد اپنی زندگی ہی میں اپنے بچوں میں تقسیم کردی، اس عمل کے نتیجے میں یہ گھر یعنی مَو لِدُ النبِی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے گرد جو کچھ بھی تھا شہ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد عبد اﷲ ابن عبد المطلب کے حصے میں آیا اور ان کے بعد یہ جگہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو منتقل ہوگئی۔ جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ جانے لگے تو آپ ﷺ نے اپنی یہ ملکیت اپنے چچا زاد بھائی عقیل بن ابی طالب کو ہبہ کردی ۔ آپ ﷺ نے مدینہ ہجرت کے وقت فرمایا تھا ’’کیا عقیل ہمارے لیے چھت یا گھر رہنے دیں گے‘‘ عقیل بن ابی طالب سے یہ گھر محمد بن یوسف سقفی جو حجاج بن یوسف کا بھائی تھا‘ نے خرید کر اپنے مکان میں شامل کرلیا تھا اور اسی کے نام ـ’’ـبیت ابن یوسف‘‘ سے مشہور ہوا حتیٰ کہ ۱۷۱ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کی والدہ’’ خیزران‘‘ جب حج بیت اﷲ کو گئیں تو انہوں نے اس مکان کو خرید کر وہاں مسجد تعمیر کرادی ۔

آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت بہ سعادت اور اس کے بعد اس گھر کے بارے میں’تاریخ مکہ‘‘ کے مصنف محمد عبد المعبود نے الشیخ رفعت پاشا ؒ کے حوالہ لکھا سے لکھا ہے کہ ’’نبی ﷺ کا مکانِ ولادت سڑک سے تقریباً ڈیڑھ میٹر نشیب میں واقع تھا۔ جس میں داخل ہونے کے لیے پتھر کی بنی ہوئی چند سیڑھیاں اتر کر جانا پڑتا تھا۔ شمالی دروازہ سے اندر داخل ہوتے ہی ۱۲ میٹر لمبا اور ۶ میٹر چوڑا صحن تھا۔ اس کے دائیں جانب ایک دروازہ چھوٹے سے کمرہ کی طرف کھلتا ‘ جس کے اندر لکڑی کا ایک چبوترا بنا ہوا تھا‘ جس میں سنگ مرمر کا ایک پتھر ہے جو درمیان سے کھود کر گہرا کیا گیا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہی نبی ﷺ کی ولادت گاہ ہے‘‘، اس جگہ کا کل رقبہ تقریباً ۸۰ مر بع میٹر تھا ۔اب اس گھر اور اس عمارت کی یہ صورت نہیں ۔ یہ گھر اور یہ جگہ وقت، حالات اور زمانہ کے ہاتھوں مختلف مراحل سے گزرتا ہوا موجودہ صورت تک کئی صدیوں میں پہنچا ہے۔ البتہ یہ بات انتہائی یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس جگہ پر قائم ہونے والی عمارت مختلف صورتیں اختیار کر تی رہی لیکن یہ جگہ وہی مقام ہے جہاں نبی اکرم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت بہ سعادت ہوئی۔ اب یہ گھر نشیب میں نہیں بلکہ حرف شریف کی حدود میں دروازہ باب الفتح کے سامنے پہاڑ کے دامن میں وسیع و عریض کھلے اور صاف ستھرے میدان میں نمایاں طور پر دو منزلہ عمارت کی صورت میں موجود ہے۔ نہ وہ چھوٹے کمرے ہیں نہ ہی کس جگہ کوئی چبوتراموجود ہے۔ حرف شریف کی جانب اس کا بنیادی دروازہ ہے۔ جوں ہی عمارت میں داخل ہوں ایک وسیع اور دیدہ ذیب حال جس کے چاروں جانب لکڑی کی شیسے والی خوبصورت الماریوں میں کتابیں سجی ہوئی دلکش نظارہ پیش کرتی ہیں۔ بالکل سامنے کی جانب منتظمین ِ لائبریری کی میزیں ہیں اندر کی جانب بھی کمرے ہیں جن میں لائبریری کے فنی امور کی انجام دہی کی جاتی ہے۔انتہائی بائیں جانب لائبریری کے مہتمم اعلیٰ کا دفتر ہے ۔لائبریری کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام جاری ہے۔ گویا لائبریری کا کمپیوٹرائی کیٹلاگ تیزی سے تیاری کے مراحل میں ہے۔ مہتمم اعلیٰ کے دفتر کے چاروں جانب الماریوں میں مجلد کتابیں رکھی ہیں۔بتایا گیا کہ یہ نایاب اور قدیم کتابوں اور قلمی نسخے ہیں جنہیں جلد کراکے محفوظ کیا گیا ہے۔ لائبریری کی اوپر کی منزل پر بھی الماریاں ہیں جن میں کتابیں رکھی ہیں۔ کتابوں کی ترتیب موضوعی ہے ۔ زیادہ کتابیں اسلامی موضوعات پر اور عربی زبان کی ہی ہیں۔لائبریری کی چھت پر نصب حسین فانوس لائبریری کی دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔

مولد النبی ﷺ یعنی یہ گھر اپنی اصل حالت میں نہیں ، یہ وقت ، حالات اور زمانے کے ہاتھوں ایک سے زیادہ بار اپنی ظاہری شکل و صورت بدل چکا ہے۔ اس کی تعمیر نو کئی بار ہوئی۔ لیکن یہ مقدس گھر اپنی اصل جگہ پر قائم یہ گھر مسجد بنا اور پھراس مسجد سے دوبارہ گھر میں تبدیل ہونے کے بعد اس کی تعمیر و مرمت مختلف سلاطین اپنے اپنے دور میں کرتے رہے۔ مصنف محمد عبد المعبود نے ’مراۃ الحرمین( جلد ۲ ص ۱۸۸) کے حوالہ سے لکھا ہے ۵۷۶ھ میں خلیفہ الناصر عباسی، ۶۶۶ھ میں ملک مظفر صاحب یمن، ۷۴۰ھ میں حفیدہ المجاہد، ۷۵۸ھ میں مصر کے ایک رئیس، ۷۶۶ھ‘۸۰۱ھ میں ملک اشرف شعبان، ۹۳۵ھ میں سلطان سلیمان خان نے یہ خدمت انجام دی۔ ۹۶۳ء میں سلطان سلیمان خان نے تین بیش بہا قندیلیں بھیجیں جن میں سے دو کعبہ شریف کے لیے اور ایک مولد النبی ﷺ میں آویزاں کرنے کے لیے۔ ۱۰۰۹ھ میں سلطان مراد خان نے اس کی ازسرِ نو تعمیر کرائی اور اس پر ایک عظیم الشان گنبد اور مینار بنوایا۔بعد ازیں دولت عثمانیہ میں اس جگہ دینی درسگاہ قائم کردی گئی۔

محمد عبد المعبودنے تاریخ القویم (جلد ا، ص ۱۷۲) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ علامہ طاہر کردی دامت ابرکاتہم تحریر کرتے ہیں کہ ۱۳۴۳ھ میں یہ عمارت منہدم ہوگئی تھی جسے الشیخ عباس بن یوسف القطان المتوفی ۱۳۷۰ھ نے اپنے ذاتی اخراجات سے تعمیر کرنا شروع کیا تھا لیکن دو ہی ماہ بعد ان کا وصال ہوگیا ۔ چنانچہ اس کے خلف الرشید الشیخ امین نے کام مکمل کرایا۔مرحوم نے وصیت کی تھی کہ یہاں ایک عالی شان لائبریری بنائی جائے جس سے علماء اور طلباء استفادہ کریں۔ بہر حاصل اس وقت وہاں افادۂ عوام کے لیے عالی شان لائبریری بنی ہوئی ہے اور دروازہ پر ’’ مَکتبہ مکَۃُ الُمکرَمہ‘‘ کا سائن بورڈ لگا ہوا ہے۔

ڈاکٹر سامی محسن انگاوی جو اسلامک آرچیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں نے اخبار ’’البلاد السعودیہ ‘‘ میں شائع ہوئے والے مضمون بعنوان"A School and a Library at the Historical Sites" کے حوالہ سے لکھا ہے کہ سعودی فرماں رواں شاہ عبدالعزیر نے شیخ عباس قطان کویہ متبرک جگہ جو ختیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا گھر تھا اس مقصد کے لیے دیا کہ اس گھر کی چھت پر قرآن
مجید کی تعلیم کے لیے مدرسہ قائم کریں اور مولد النبی ﷺ میں ایک عظیم الشان لائبریری کا قیام عمل میں لائیں ۔

لائبریری
راقم الحروف نے۲۰۱۱ء میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد اپنے قیام جدہ کے دوران ۷ ستمبر ۲۰۱۱ء مطابق ۹ شوال ۱۴۳۲ھ بدھ کے روز مکہ لائبریری جسیمَکتبہ مکَۃُ الُمکرَمہ کہا جاتا ہے کا تفصیلی دورہ کیا۔ لائبریری کے مطالعہ کے دوران مہتممِ اعلیٰ یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَار سے ملاقات کی اور لائبریری کا تفصیلی مطالعہ بھی کیا۔ڈاکٹر سامی محسن انگاوی نے لکھا ہے کہ یہ گھر حضورﷺ کی پیدائش گاہ کے طور پر ہی جانا ہے۔ لائبریری قشاشیہ اسٹریٹ پر مولد النبی ﷺ میں قائم ہے جو سوق الیل (نائٹ مارکیٹ) کے نام سے معروف ہے۔کہا جاتا ہے کہ اب اس گھر کے اردگرد ہفتہ میں ایک دن پرانے سامان کی خرید و فروخت کا بازار لگتا ہے۔کردی خاندان‘ کے ’ماجد کرد‘ سے ’’مجیدیہ لائبریری‘‘ جو ان کی ذاتی لائبریری تھی خریدی گئی، یہ لائبریری نایاب اور قیمتی کتب پر مشتمل ہے۔ کتابیں سلیقے سے دیدہ زیب الماریوں میں ترتیب وار رکھی ہیں۔ کتب خانہ کے مدیرکا کمرہ(آفس) وہی جگہ ہے جہاں پرہمارے نبی حضرت محمدصلی اﷲ علیہ و سلم کی دنیا میں آمد ہوئی، یہ بات مجھے مدیر مکتبہ (لائبریرین) یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَارنے ہی بتائی، الحمد اﷲ مجھے اس کمرہ میں بیٹھنے اور کچھ وقت گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی ، یسلم صاحب سے جب میَں نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے خصوصی توجہ دی، اپنے آفس میں لے گئے، قہوا پلایا، کتب خانے میں موجود قدیم اور نادر کتب کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔ یَسلم بن عبدالواحد بن یَسلم بَاصَفَار اہل بیت میں سے ہیں، جامع مسجدامام البخاری کے امام وخطیب بھی ہیں ۔

مجیدیا لائبریری کا قیام:
مصنف و مولف ڈاکٹر عبد الطیف عبد اﷲ بن ڈوہائش نے اپنی کتاب ’’پرائیویٹ لائبریریز اِن مکہ‘‘ (انگریزی) جو کراچی سے لائبریری پروموشن بیورو نے ۱۹۹۵ء میں شائع کی تھی میں لکھا ہے کہ ’’مجیدیا لائبریری کا قیام ۱۳۲۸ھ میں عمل میں آیا ۔ محمد ماجد بن صالح بن فیض اﷲ بن حسن الکرد مکہ المکرمہ میں ۱۲۹۴ھ مطابق ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے تھے یہ لائبریری انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کے طور پر قائم کی تھی۔ ماجد کرد ایک علمی و ادبی شخصیت تھے انہوں نے ہمیشہ علمی اور ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ماجد کرد کو کتابوں سے محبت تھی ، وہ بنیادی طور پر تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھے انہوں نے ۱۷۲۷ھ مطابق ۱۹۰۹ء می مکہ مکرمہ میں ایک پرنٹنگ پریس بھی قائم کیا تھا جو مجیدیا پرنٹنگ پریس کے نام سے معروف تھا۔اس چھاپا خانہ کے توسط سے سرزمین حجاز میں طباعت کواور کتابوں کی اشاعت کو فروغ حاصل ہوا۔ علمی مواد کی اشاعت بڑے پیمارے پر ہونے لگی۔اس پریس سے متعدد عربی کی اہم و معروف مطبوعات شائع ہوئی۔ان میں ـ’’اخبار مکہ ازراتی‘‘ دو جلدوں میں شائع ہوئی۔علماء کے وہ لیکچر جو مختلف اسلامی موضوعات پر حرم میں دئے گئے بطور خاص موضوعاتی ترتیب سے شائع کئے گئے۔اسی طرح
تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور تاریخ اسلام پر کتب شائع ہوئیں‘‘۔

۱۳۶۴ھ میں شاہ عبد العزیز نے ماجدکرد کا تقرر سیکریٹری تعلیم کی حیثیت سے کیا۔ ماجد کرد نے تعلیم کے میدان میں قابل ذکر کام کیا اور اپنے تقرر کو درست ثابت کر دکھا یا۔ انہوں نے اپنی تمام تر ذمہ داریاں محنت اور ایمانداری سے انجام دیں۔اس دور میں سعودی طلبہ کو بیرونی مما لک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی بھیجا گیا۔خاص طو ر پر مصر کی جامعات میں اور دیگر تعلیمی اداروں میں سعودی طلبہ نے تعلیم حاصل کی۔بعد میں ماجد کرد کو شعبہ وقف (Endowment) کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے یہاں بھی ایمانداری اور تندہی سے خدمات انجام دیں وہ اپنے انتقال تک اس شعبہ کے سربراہ رہے۔مکہ المکرمہ کے محقق احمد جمال نے ماجد کرد کے بارے میں لکھا ہے’’یہ کتاب کے عاشق تھے، ہمیشہ قابل لوگون کا احترام کیا کرتے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے، وہ اہل علم حضرات کو اپنے گھر بلا یا کرتے اور ان کی عزت و تکریم کیا کرتے۔ وہ محققین ، مصنفین و مولفین کی ہر طرح مالی اور طبعی مدد کیا کرتے تھے۔

ماجد کرد کے کتب خانہ کا ذخیرہ کتب ۱۰ ہزار نادر و نایاب کتب اور مخطوطات پر مشتمل تھا۔ یہ کتب مختلف موضوعات پر تھیں۔ماجد کرد کو جہاں سے بھی کتاب منگوانا ہوتی وہ اس کتاب کو ہر صورت میں منگولیا کرتے۔ اس ذخیرہ میں زبان پر بھی کتب موجود تھیں۔ تمام کتابیں خوبصورت و خوشنما جلدوں سے مزین ہیں۔ ایک کتاب ’’معجم المشحرات‘‘ بہت ہی نایاب کتاب تھی۔کتب خانہ کا کیٹلاگ موضوعی ترتیب میں تھاجو ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر تھی۔سعودی مصنف ’محمد علی مغربی‘‘ نے شیخ ماجد کرد کے بارے میں لکھا ’’ شیخ ماجد علم کے حصول کے شدت سے طالب تھے وہ مکمل طو پر علم و فضیلت کے لیے ہمہ وقت مصروف رہا کرتے، اچھی کتب کی خریداری اور حصول میں ذاتی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ان کے اس شوق اور عمل نے ایک عمدہ اور نایاب کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔انہوں نے اپنی دولت بلا دریغ کتب اور مخطوطات کی خریداری پر صرف کی ۔ اﷲ نے انہیں بے پناہ دولت سے نوازا تھا‘‘ ۔شیخ ماجد کرد کا انتقال ۱۹ ذالحجہ ۱۳۴۹ھ کو ہوا ، ان کے بعد ان کے بیٹے نے بھی اس لائبریری کو ترقی دی۔ ۱۳۷۰ھ میں شاہ عبد العزیز نے حکم دیا کہ پیدائش مَو لِدُ النبِی یعنی اس گھر میں جس میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت بہ سعادت ہوئی عوامی لائبریری قائم کردی جائے جو شعیب علی میں واقع تھی۔اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس و محترم جگہ کو ایسی جگہ بنا دیا جائے جہاں پر دنیا ئے اسلام سے اہم علم ، محققین و مصنفین اور علم و حکمت سے وابستہ لوگ آزادی سے آسکیں اور علم کی پیاس بجھا سکیں۔ اس مقصد کے لیے شیخ ماجد کرد کی ذاتی لائبریری کا ذخیرہ کتب جو ہر اعتبار سے منتخب، موضوع، قیمتی و نایاب
کتب پر مشتمل تھا خریدا گیا۔ سعودی حکومت کے محکمہ وقف کے زیر انتظام یہ لائبریری قائم کر دی گئی ۔عمرہ یا حج پر جانے والے زارین کو چاہیے کہ وہ اپنی عبادات میں حرف شریف کی حدود میں قائم مولد النبی ﷺ پر بھی حاضری دیں اس لائبریری اور اس گھر کودیکھ لینا اس جگہ پہچ جانا بھی ہمارے لیے باعث رحمت و برکتب ہے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284715 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More