جو بھی انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن اس دنیا
سے رخصت بھی ہونا پڑتا ہے لیکن کچھ لوگ اپنی زندگی میں اتنے عزیز ہو جاتے
ہیں کہ جب ان کی دنیا سے رخصتی کی اطلاع ملتی ہے تو دل خون کے آـنسو روتا
ہے ۔ اس کے باوجود کہ ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ اس نے موت کی صورت
میں دنیا سے رخصت بھی ہونا ہے پھر جو لوگ اپنے رویوں اور اخلاق سے دوسروں
کے لیے آسانیاں پید ا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو میں بدقسمت ہی قراردیتا ہوں
۔ اس اعتبار سے جناب نذیر حق بہت شفیق ٗہمدرد اور قابل تقلید انسان دکھائی
دیتے ہیں انہوں نے خودکو زندگی بھردوسروں کے تربیت گاہ بنائے رکھا وہ نہ
صرف ہر ملنے والے کو نہایت خوشدلی سے ملتے جس کی چاہت کااحساس مدتوں تک
قائم رہتا بلکہ ان کی زبان سے کبھی ایسے الفاظ نہیں نکلے جن سے کسی کی حق
تلفی اور توہین کا عنصر واضح ہوتا ہو۔
جناب نذیر حق سے میری پہلی ملاقات روزنامہ پاکستان میں ہوئی ۔جب میں اپنی
نئی شائع ہونے والی کتاب پر تبصرے کے لیے ان کے پاس پہنچا تو ایک عمررسیدہ
شخص مجھے ایک میز پر گردن جھکائے اپنے تحقیقی اور تخلیقی کام میں مصروف
دکھائی دیا ۔میں نے خود محسوس کیا کہ مجھے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ان
سے اجازت لینی چاہیئے تھی کیونکہ تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے والے اس قدر
حساس ہوتے ہیں کہ اگر ان کے لکھنے کا تسلسل ٹوٹ جائے تو دوبارہ تسلسل قائم
کرنے میں نہ صرف دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات تحریر کا رخ ہی
تبدیل ہوجاتا ہے اﷲ تعالی نے ہر انسان میں بے پناہ خوبیاں پیدا فرمائی ہیں
لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب نذیر حق میں اﷲ تعالی نے نہ صرف تحریر و
تحقیق اور تخلیق کی بے شمار خوبیوں ودیعت کررکھی تھی بلکہ وہ معیار سے کہیں
بلنداور پاکیزہ خیالات کے ہمدرد انسان دکھائی دیتے تھے ۔ایسی نابغہ روزگار
شخصیات دنیا میں بہت کم ہوتی ہیں۔نذیر حق صاحب نے جب بھی میری کتابو ں پر
تبصرہ کیا( جو روزنامہ پاکستان کے ہفت روزہ زندگی لاہور کے شمارے میں شائع
ہوا کرتا تھا) وہ تبصرہ نہ صرف قارئین کے لیے کتاب کے حوالے سے بہترین
معلومات سے لبریز ہوتا بلکہ رائٹر کی حیثیت سے میری تحقیقی اور تخلیقی
خوبیوں کا اعتراف بھی اس تبصرے میں شامل ہوتا ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ
اٹھارہ کروڑ عوام میں لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں
ہے اس لیے وہ معاشرہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے جو اپنے سوچنے ٗ سمجھنے اور
لکھنے والوں کو عزت نہیں دیتا ۔
ممتاز صحافی اور عظیم دانش ور جناب مجیب الرحمان شامی سے محبت کا رشتہ میرا
اتناہی پرانا ہے جتنا تحریر و تخلیق کی دنیا میں میرا وجود پرانا ہے ۔ جناب
شامی کو اﷲ تعالی نے سمندروں سے گہرا اور بلندیوں سے بلند دل عطا فرمایا ہے
وہ کسی شخص کی دولت ٗ مقام و مرتبے کو پرکھنے کی بجائے اس کی ذات میں چھپی
ہوئی خوبیوں کے برملا اعتراف کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ان کی سرپرستی کی بدولت
روزنامہ پاکستان کے دروازے مجھ جیسے بے آسرا شخص پر کھلے ۔جہاں پہنچ کر
مجھے نہ صرف نذیر حق صاحب سے محبت اور احترام کا رشتہ استوار کرنے کا موقعہ
میسر آیا بلکہ قدرت اﷲ چودھری ٗ پروفیسر نصیر ہاشمی ٗ کرنل غلام جیلانی خان
ٗ ذوالقرنین ٗ خادم حسین ٗ اختر حسین ٗ جمیل قیصر اور شہزاد چودھری جیسے
محبت کرنے والے لوگوں سے بھی شناسائی پیدا ہوئی۔بے شک یہ تمام لوگ اپنی
اپنی ذات میں ایک ادارے اور درس گاہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔(اﷲ انہیں اپنی
حفاظت میں رکھے ۔)
جن دنوں میں برادرم افتخار مجاز کی ترغیب پر "ماں " کتاب لکھنے اور ترتیب
دینے کی تیاری کررہا تھا یہ مقصد لے کر میں نذیر حق صاحب کے پاس گیا ان کے
روبرو بیٹھ کر جب میں نے ماں کے حوالے سے انہیں لکھنے کی درخواست کی تو ان
کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔تسلسل سے بہنے والے ان آنسوؤں کو دیکھ کر میں
پریشان ہوگیا کہ شاید میں نے ان کی دکھی ہوئی کسی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے
پھر میں خود کو کوسنے لگا ۔ ا س لمحے میرے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں تھا
کہ وہ اپنے آپ پر قابو پالیں تو بات کا آگے بڑھاؤں ۔ کچھ دیرکے بعد انہوں
نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا ۔ لودھی صاحب
۔آپ نے تحریر و تحقیق کے لیے بہت اچھاموضوع تلاش کیا ہے کیونکہ انسانی
زندگی میں ماں ایک ایسی عظیم شفیق ہستی ہے جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو
زندگی کی آخری سانس بھلایا نہیں جاسکتا ۔پھر ایک دن مجھے اپنے دفتر بلا کر
کاغذ پر لکھی ہوئی ایک تحریر دی جو اپنی ماں کے حوالے سے انہوں نے اپنے قلم
سے میری فرمائش پر لکھی تھی ۔ آج جبکہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن
ا ن کی یہ تحریر پوری انسانیت کے لیے ایک درس اور پیغام کا درجہ رکھتی ہے
اور معاشرے کے ان بد بختوں کے لیے کھلا پیغام ہے جو لوگ اپنی ماں اور باپ
کا احترام نہیں کرتے جو لوگ چند پیسوں کے لالچ میں آکر ماں جیسی عظیم ہستی
کو قتل تک کردیتے ہیں دنیا میں ان سے بڑا بد بخت اور قابل نفرت انسان اور
کوئی نہیں ہوسکتا ۔آئیے نذیر حق مرحوم کی اس تحریر کو پڑھیں -
جناب نذیر حق اپنی والدہ کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں -:
ماں یاد آتی ہے.......’’کاش وہ آج زندہ ہوتیں‘‘ نذیر حق
یہ 1930ء کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ میری عمر کوئی چار پانچ برس ہو گی
(میری پیدائش اپریل 1933ء کی ہے مگر یہ بھی اندازہ ہے کہ سکول میں داخلہ کے
وقت یہی عمر لکھائی گئی تھی) کہ مجھے میرے نانا مولوی محمد عبداﷲ جو چک
نمبر 6-92 آر ضلع ساہیوال (اس دور میں منٹگمری) میں خطیب تھے‘ میرے آبائی
گاؤں (موضع اعوان لکھا سنگھ تحصیل‘ اجنالہ ضلع (امرتسر) سے اپنے ساتھ لے
گئے۔ ان کی اولاد میں 4 بیٹیاں ہی تھیں۔ میری والدہ کا اپنی بہنوں میں
تیسرا نمبر تھا۔ اب سبھی اپنے آخری مقام کو سدھار چکی ہیں۔ نانا جی مجھے
اپنے بیٹے کے طور پر پالنا اور پڑھانا لکھانا چاہتے تھے۔ میرے آبائی گاؤں
میں‘ اس دور میں تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ قریب ترین مڈل سکول موضع
بھیلوال میں تھا جو میرے گاؤں سے کوئی تین ساڑھے تین میل دور تھا۔ چنانچہ
میرے والد میاں فیروز دین اور والدہ محترمہ نے مجھے نانا جی کے ساتھ بھیج
دیا۔
نانا جی نے مجھے گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا جہاں سب بچے بڑ کے
ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ بیٹھنے کیلئے بوری کے ٹکڑے
(ٹاٹ) ہر بچہ گھر سے لے کر آتااور چھٹی کے وقت ساتھ ہی گھر لے جاتا تھا۔
موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران نانا جی مجھے والدین سے ملوانے کیلئے ساتھ لے
کر ساہیوال سے اعوان لکھا سنگھ لے کر جاتے تھے ان دنوں دوسری جنگ عظیم ہو
رہی تھی اور لوگ اسے ’’وار‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔
اس وقت میں دوسری یا تیسری جماعت میں تھا کہ ہم لوگ اعوان لکھا سنگھ گئے
نانی بھی ساتھ تھیں۔ میرا ایک بھائی (محمد لطیف) اور اس سے چھوٹی دو بہنیں
مجیدہ بی بی اور رشیدہ بی بی تھیں۔ لطیف پاکستان بننے کے فوراً بعد اﷲ کو
پیارا ہو گیا۔ اسے تپدق کی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ وہ خون تھوکتا تھوکتا
آخرکار چل بسا۔ ہمارے گھر کے حالات اچھے نہ تھے‘ اس لئے علاج نہ کرا سکے۔
گھر میں تو کھانے کو بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹری علاج کہاں سے ہوتا وہ بھی تپدق
کا! بہن البتہ بقیدحیات ہے۔ رشیدہ والدہ کی وفات سے قبل چل بسی تھیں۔
ہم اعوان لکھا سنگھ میں ہی تھے کہ میری تیسری بہن (جمیلہ بی بی) اس دنیا
میں آئی۔ والدہ کو شدید بخار ہو گیا۔ میری نانی اور دادی (جو میرے نانا کی
حقیقی بہن تھیں) کہا کرتی تھیں: یہ سوتک کا (دوران پیدائش ہونے والا) بخار
ہے۔ نہ جانے کیا ہو؟ اﷲ آمنہ بی بی (میری والدہ) کو زندگی دے! مگر کوئی دعا
قبول نہ ہوئی اور آمنہ بی بی اﷲ کے پاس چلی گئیں۔ مجھے اپنی والدہ مرحومہ
کا چہرہ بھی یاد نہیں‘ صرف اتنا یاد ہے کہ وہ ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی
تھیں اور ان کے اوپر سفید رنگ کی چار ڈالی گئی تھی‘ گھر کی عورتیں‘ میری
دادی‘ نانی وغیرہ رو رہی تھیں اور میرے والد (مرحوم) دادا (مرحوم) اور
دوسرے لوگ ان کی چارپائی اٹھا کر گھر سے باہر ذرا دور قبرستان میں لے گئے
تھے۔ میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا۔ مجھے احساس نہ تھا کہ
میری دنیا مجھ سے چھن چکی ہے اور اب میں ماں کو کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ چند
روز بعد میری ’’نئی بہن کو بھی لوگ قبرستان چھوڑ آئے۔
دوسرے دن میں نے اپنی نانی سے پوچھا: ’’بہن کدھر گئی اے (بہن کہاں گئی
ہے؟۔۔۔۔ میری والدہ گھر میں گاؤں کے بچوں کو‘ خصوصاً بچیوں کو قرآن پاک
پڑھایا کرتی تھیں اور سب لوگ انہیں ’’بہن جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے‘ اس لئے
میں بھی انہیں اپنی ’’بہن‘‘ کہا کرتا تھا) وہ اﷲ کے پاس چلی گئی ہیں اور اب
واپس نہیں آئیں گی؟ نانی نے جواب دیا اور رونے لگیں۔
ماں کی کوئی باتیں مجھے یاد نہیں مگر ان کی یاد ہر وقت میرے دل میں بسی
رہتی ہے۔ میں کبھی کبھار اپنے گاؤں 6-92 آر اپنے گاؤں جاتا ہوں‘ بعض اوقات
تو کئی کئی سال گزر جاتے ہیں۔1958ء میں بی اے کا امتحان دینے کے بعد وہاں
گیا۔ نانا جی کے چھوٹے بھائی عبدالواحد ایک قریبی گاؤں‘‘ سیٹھ والا‘‘ میں
مقیم تھے۔ (اب ان کی اولاد بھی بکھر چکی ہے کبھی شادی یا دکھ پر ہی ملاقات
ہوتی ہے) وہاں ایک رات گزار کر دوسرے روز صبح ہی 6-92 آر چلا گیا۔ کچھ
پرانے کلاس فیلوز سے ملاقات ہوئی۔ خاص طور پر چک کے نمبردار ملک محمد
بنیامین (جو پاکستان ٹی بی ایسوسی ایشن کے چیئرمین رہے ہیں اور ایک ترقی
پسند کاشتکار ہیں) ان کے گھر گیا۔ سبھی مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ ملک
بنیامین کی بڑی بہن صدیقہ میری والدہ کی سہیلی تھیں( ان دنوں وہ سخت علیل
تھی اور کسی کو پہچانتی نہیں تھیں) انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ ماموں
ملک بنیامین نے اپنی بہن کو بتایا۔ نذیر نے بی اے کر لیا ہے۔ اخباروں میں
اس کے مضمون چھپتے ہیں‘ ہفت روزہ قندیل (یہ نوائے وقت پبلی کیشنز کا ہفت
روزہ تھا) میں جو ملک بنیامین باقاعدگی سے منگواتے تھے‘ اس کی بچوں کیلئے
کہانیاں چھپتی ہیں۔ اب یہ کسی اخبار میں نوکری ڈھونڈ رہا ہے تو خالہ صدیقہ
رونے لگیں۔ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں ہو گئے‘ میں حیرت سے ان کی طرف
دیکھنے لگا اور سوچا: خالہ کو کس بات کا صدمہ ہوا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ
نہیں آرہا تھا۔ پھر خود خالہ صدیقہ نے میری حیرانی دور کر دی۔ تیری ماں کا
صرف ایک چاؤ (دلی خواہش) تھی کہ تم اسے اپنے ہاتھ سے خط لکھو۔ وہ تمہارا
لکھا ہوا خط پڑھنا چاہتی تھی‘ کاش وہ آج زندہ ہوتی اور اخباروں میں تمہارے
لکھے ہوئے مضمون پڑھتی۔ یہ کہہ کر خالہ صدیقہ پھر رونے لگیں۔ جب مجھے احساس
ہوا تو میری بھی آنکھیں بھر آئیں۔
خالہ کی یہ بات سن کر مجھے اچانک یاد آیا۔ نانا جی کے پاس چک 6-92 آر (اب
مرشد آباد‘ (یہ اس چک کا پرانا نام تھا جسے ملک بنیامین کی کوششوں سے بحال
کیا گیا ہے) جانے کے بعد میں تین بار اعوان لکھاسنگھ گیا تھا۔ تیسری بار تو
ماں شدید علیل تھیں‘ دعا پیار کے سوا کوئی بات نہ کر سکیں لیکن اس سے پہلے
سال جب ہم گئے تھے تو ماں نے نانا جی (اپنے والد محترم) سے پوچھا: نذیر
پڑھائی میں کیسا ہے؟ انہوں نے کہا‘ بہت اچھا ہے‘ اردو پڑھ لیتا ہے‘ تو ماں
نے میری طرف متوجہ ہو کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا: تم مجھے اپنے
ہاتھ سے خط کب لکھو گے؟ نانا جی نے کہا اب یہ گاؤں کے لوگوں کے خط لکھا
کرتا ہے۔ تمہیں بھی واپس جا کر خط لکھے گا۔ مگر خط لکھنے کا موقع ہی نہ آیا
اور ماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہمیشہ کیلئے اور کبھی واپس نہ آنے کیلئے۔
اس کے بعد شاید ہی کوئی وقت ایسا گزرا ہو جب ماں کا خیال میرے دل سے محو
ہوا ہو۔ مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ میری ماں میرے ہی ساتھ ہے۔ میرے لئے
دعائیں کرتی ہے‘ میں نے لاتعداد مضامین لکھے‘ طویل اور مختصر کہانیاں
لکھیں‘ ایک درجن کے قریب کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں‘ اب بھی ہر ہفتہ میرے کم
از کم چار سیاسی تجزیئے‘ کالم اور ترجمے اخبار کی زینت بنتے ہیں۔ میں جب
بھی کوئی مضمون‘ تجزیہ یا کالم لکھنے کا آغاز کرتا ہوں‘ ماں یاد آتی ہے‘
میں وضو کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہوں‘ چنانچہ ماں کی روح کو ایصال ثواب
کیلئے بسم اﷲ شریف‘ چند آیات قرآنی اور آخر میں درودپاک پڑھتا ہوں پھر جو
لکھنا شروع کرتا ہوں تو فکروخیال میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ شاید ہی
کبھی الفاظ کاٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں
کوئی کمال کا لکھنے والا ہوں بس جو کچھ لکھتا ہہوں روانی سے ذہن میں اور
پھر قلم کی نوک پر آتا اور صفحہ قرطاس پر بکھرتا چلا جاتا ہے۔
میں نے دنیا کے متعدد ممالک (جن میں چین بھی شامل ہے) کا دورہ کیا ہے۔ دو
بار اﷲ کے گھر حاضری ہوئی۔ جب بھی کسی دوسرے ملک کی ایئرپورٹ پر طیارہ سے
اترا‘ پہلا خیال یہی آیا کہ کاش آج ماں زندہ ہوتی۔ میں یہاں سے فون کر کے
اسے بتاتا کہ میں کہاں ہوں‘ یہ جان کر وہ کتنی خوش ہوتی! بسا اوقات ماں کو
یاد کرتے ہوئے میری آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔
کبھی کبھار میرے دفتر کا کوئی ساتھی بھی مجھے اس حال میں دیکھ کر حیران
بلکہ پریشان ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے: ’’خیریت ہے ناں؟‘‘ میں مسکرا کر
جواب دیتا ہوں: ’’سب خیریت ہے‘ ماں یاد آرہی ہے!‘‘ کعبۃ اﷲ کی حاضری اور
حضور نبی کریم رؤف الرحیم اکی مسجد میں داخل ہوتے ہی آنکھوں سے جھڑی لگ
جاتی۔ اسی طرح حضور کے روضہ اقدس پر حاضری دیتا‘ ماں کیلئے خاص طور پر دعا
کرتا‘ طواف کرتا‘ عمرے کرتا‘ آج بھی نماز کے بعد دو نوافل ماں اور باپ کے
ایصالِ ثواب کیلئے ادا کرتا ہوں!
حکیم الامت علامہ اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اکثر پڑھتا
ہوں‘ اس سے دل کو سکون ملتا ہے!
تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی
شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂِ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!
...............
نذیر حق مرحوم کا شمار ملک کے نامور ادیبوں اور سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے
انہوں نے اپنے قلم سے نہ صرف بے پناہ کہانیاں‘ فیچر اداریئے اور کالم لکھے
بلکہ زندگی کے اہم ترین موضوعات پر بارہ کتابیں لکھ کر خود کو ایک نامور
قلمکار کی حیثیت سے بھی منوایا ہے ۔ نذیر حق کے قلم نکلی ہوئی یہ پرتاثیر
داستان اتنی پرکشش اور سبق آموز ہے کہ ہر انسان کے لیے اس داستان میں بے
پناہ سبق پنہاں ہیں ۔
نذیر حق 80 سال کی عمر پا کر 15 مئی 2014ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے
۔انہوں نے 60 سال کے لگ بھگ صحافتی خدمات انجام دیں ان کا صحافتی سفر
روزنامہ "کوہستان" سے شروع ہوا اس کے بعد وہ 1963ء میں روزنامہ مشرق کے
اجرا کے ساتھ ہی اس وابستہ ہوگئے پھر جب روزنامہ مشرق بند ہوا تو چیف نیوز
ایڈیٹر کی حیثیت سے فارغ ہوئے ۔ 1998ء میں جناب مجیب الرحمان شامی صاحب کی
ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ پاکستان کے ادارتی عملے میں سنیئر ڈپٹی
ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل ہوئے ۔یہاں اس وقت تک آپ اداریے ٗ کالم اور تراجم
کرتے رہے جب تک بینائی نے آپ کا ساتھ دیا ۔آپ نہایت شفیق اور ہمدرد انسان
تھے اپنے دکھوں اور بیماریوں کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھتے لیکن دوسروں کے
لیے وہ ایک ایسا سایہ دار درخت تھے جن کی ٹھنڈی چھاؤں میں مجھ جیسے بے پناہ
لوگوں نے مدت دراز سے پناہ لیے رکھی ۔وہ نہ صرف پنجگانہ نماز کے پابند تھے
بلکہ تہجد گزار بھی تھے ۔ذکرالہی میں دوام اور ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش
کرتے ۔
نذیر حق صاحب نہ صرف کالم نویسی میں مہارت رکھتے تھے بلکہ انہوں نے متعد د
انگریزی کتب کے تراجم بھی کیے یہ تراجم اس قدر معیار ی اور گرائمر کے
اصولوں کو مدنظر رکھ کر لکھے گئے تھے کہ آجکل کے تعلیم یافتہ لوگ بھی ویسے
تراجم نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے اپنے 60 سالہ صحافتی دور میں اپنا دامن
الائشوں اور سازشوں سے بچائے رکھا ۔وہ زرد صحافت سے بہت دور رہنے والے ایک
بااصول صحافی تھے انہوں نے اپنی زندگی میں اخبار نویسی کو ہی اوڑھنا بچھونا
بنائے رکھا ۔صحافتی میدان میں ان کے شاگردوں کی تعداد کا اندازہ تو نہیں
کیا جاسکتا لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ ان کے ساتھ وابستہ لوگوں
کے کردار اور گفتار سے روشنی کے جو سرچشمے پھوٹیں گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ
یہ کارنامہ ان کے استاد اور رہنما جناب نذیر حق مرحوم کا ہے جن کی شخصیت بے
پناہ لوگوں کے لیے سرچشمہ فیض کی حیثیت رکھتی تھی اس لمحے جبکہ میں نذیر حق
مرحوم کو ان کی بے پناہ صحافتی خدمات پر دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش
کرنا چاہتاہوں وہاں میں زندگی کے ہر شعبے میں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے
افراد کو یہ بھی کہنا چاہتا ہوں ۔زندگی کا ہر لمحہ انمول ہے آج اگر نذیر حق
اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو کل ہمیں بھی جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
عہدے اور مال و دولت انسان کے ساتھ نہیں جاتی ۔اس لیے ہر انسان کو یہی کوشش
کرنی چاہیئے کہ وہ اپنے عمل کردار اور عہدے کو خدا کی امانت تصور کرکے اپنے
سے کمتر اور بے وقعت لوگوں کی سرپرستی کرے ۔ایک حدیث مبارکہ ہے کہ کسی شخص
سے خلق خدا کا رزق وابستہ ہوا اس شخص پر خدا کی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ہم
میں سے کتنے لوگ اپنے ماتحتوں اور کمتر لوگوں پر رحم کرتے ہیں ہم میں سے ہر
شخص کو اپنے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیئے کہیں ایسا نہ ہوکہ
عہدوں اور دولت کا غرور ہمیں گھیسٹ کر جہنم میں نہ لے جائے ۔
بے شک نذیر حق جیسے لوگوں کو بھلایا نہیں جاسکتا جنہوں نے اپنی زندگی کا
ایک ایک لمحہ روشنی کے ایسے مینارکی حیثیت رکھتا ہے جس نے ہزار وں دلوں کو
اپنی پاکیزہ کردار کی روشنی سے منور کیا ۔
بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں۔
|