تضاد

“تضاد“ یعنی ضد اور اختلاف قدرت کی تخلیق کردہ اس کائنات میں جو کہ لامحدود ہے اس میں انسانوں کے لئے بےشمار مظاہر قدرت عیاں بھی ہیں اور نہاں بھی ظاہر بھی ہیں پوشیدہ بھی پوشیدہ مظاہر قدرت تک رسائی بہت مشکل امر ہے بلکہ بہت سے انسانوں کے لئے ناممکن بھی ہاں لیکن وہ انسان جو چاہتے ہیں اور اس کے لئے سخت جدوجہد بھی کرتے ہیں تو وہ رضائے الٰہی سے مظاہر کائنات کو مسخر کرنے کی صلاحیت و قوت پا لیتے ہیں ان پر کائنات کے ظاہری اسرار کے ساتھ ساتھ پوشیدہ راز ہائے کائنات کے پردے بھی واشگاف ہو جایا کرتے ہیں

وہ اپنے علم سے اپنی عقل سے اپنی محنت و کوشش سے علم کی وہ معراج حاصل کر لیتے ہیں جس تک رسائی عام انسان کے لئے ممکن نہیں یوں تو اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کو ایک جیسا ہی پیدا کیا ہے کوئی عام یا خاص نہیں بلکہ سب خاص ہیں لیکن ہم میں سے بعض انسان دنیا میں آ کر اپنی خاصیت میں اضافہ کر لیتے ہیں جبکہ بعض اپنی خاصیت کو ختم کر دیتے ہیں اور وہ خاصیت ہے انسانیت اور یہ انسانیت کیا ہے انسانوں کی بھلائی انسانوں کی خیر انسانوں کی خدمت انسانوں کی مدد انسانیت میں ہر وہ خوبی اور ہر وہ صفت شامل ہے جو کسی بھی حوالے سے انسان کی بہتری میں ہو، انسان کے حق میں ہو

بات ہو رہی تھی تضاد کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ہر شے میں دوسری کا تضاد ہر چیز کی ایک ضد رکھی ہے یعنی ہر ایک چیز کے مقابلے میں کوئی دوسری ایسی چیز پیدا کی ہے جو اس کی ضد ہے جو اس سے متضاد ہے جو اس کی مخالف ہے جو اس کے مقابلے میں آتی ہے یا جو اس سے اختلاف رکھتی ہے یعنی ایک چیز اس کے مقابلے کی دوسری چیز تاثیر و خاصیت اور نتائج کے لحاظ سے یکسر مختلف ہوتی ہے

جیسے دن رات، زمین آسمان، پستی بلندی، روشنی تاریکی، پاکیزگی غلا ظت، نیکی اور بدی، انسان اور شیطان، زندگی موت، امن اور جنگ اسی طرح اگر شمار کرنے لگیں تو لاتعداد اشیاء کے در دریچہ ذہن میں وا ہوتے چلے جاتے ہیں چیزوں کے نام تخیل میں تصویر بناتے چلے جاتے ہیں

جب بھی کسی ایک شے کا ذکر کیا جائے تو دوسری کا ذکر خود بخود اس چیز کے ذکر میں آتا ہے جو کسی شے کی ضد ہے یعنی اگر نیکی کا ذکر ہے تو بدی کا بھی ذکر آئے گا بلکہ اگر برائی نہ ہوتی تو کیسے پتہ چلتا نیکی کیا ہے، گناہ نہ ہوتا تو کسے خبر ہوتی ثواب یا طلب ثواب کیا ہے جزا کیا ہے سزا کیا ہے، غلاظت کیا ہے پاکیزگی کیا ہے پسند کیا ہے نا پسند کیا ہے

اللہ رب العزت نے اس کائنات میں جہاں ایسی چیزیں ایسے مظاہر یا ایسی نعمتیں پیدا کی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان کا دل خوش ہوتا ہے روح سکون پاتی ہے یا جو کسی بھی حوالے سے انسان کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو انسان کے لئے زندگی کو آسان بناتی ہیں وہیں ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے انسان تباہ و برباد ہو سکتا ہے یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے۔۔؟

رب نے یہ کائنات انسانوں کے لئے پیدا کی ہے جس کی ہر شے رب کے وجود کی شاہد ہے کہ یہ کائنات خودبخود پیدا نہیں ہو گئی بلکہ اسے تخلیق کرنے والی وہ ذات ہے جس کا عکس کائنات کے ہر رنگ سے جھلکتا ہے

اللہ نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کی ضد بھی اسی شے کے ساتھ پیدا ہی کر دی اور یہ کیوں کیا ۔۔۔؟ اس لئے تاکہ انسان ہر شے میں تمیز کر سکے جان سکے کہ اس کے لئے کیا اچھا ہے کیا برا ہے کس راستے پر چلنا ہے کسے ترک کرنا ہے کونسا طرز عمل اختیار کرنا ہے اور کس عمل سے خود کو روکنا ہے اس سے انسان کی آزمائش بھی مقصود ہے بلکہ انسان کی تکمیل ہی ان ہر دو متضاد صفات کے حامل عناصر کی موجودگی میں ہی ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن پر انسان کا دل مائل ہوتا ہے اور ان کی سمت کشش محسوس کرتا ہے لیکن وہی چیز اسے تباہی کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے جبکہ انسان جانتا بھی ہے لیکن خود کو تباہی کے راستے پر جانے سے روکتا نہیں اور وقتی یا مختصر خوشی کے لئے ہمیشہ کی ذلت کا سزاوار ٹھہرتا ہے لیکن وہ لوگ جو نفس پر قابو رکھتے ہوئے خود کو برائی سے روک لیتے ہیں عارضی فائدے پر ابدی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں اصل میں وہی کامیاب لوگ ہیں وہی آزمائش پر پورا اترنے والے ہیں یہی انسانیت کا بھرم رکھتے ہیں اور ایسے ہی لوگ مظاہر کائنات کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

متضاد اشیا کا ذکر عموماً ایک ساتھ ہی کیا جاتا ہے تاکہ انسان ان میں تمیز کرتے ہوئے اپنے معمولات زندگی ترتیب دے سکے اللہ نے پسندیدہ اشیا کے ساتھ کائنات میں انسانوں کے لئے ناپسندیدہ اشیا بھی پیدا کی ہیں لیکن یہ سب بے وجہ نہیں بلکہ غور کیا جائے تو انسان ان دونوں میں تمیز کرتے ہوئے ہی انسانیت کی تکمیل کرتا ہے ایک مکمل انسان بنتا ہے

یہ بات اتنی اہم نہیں کہ اچھی شے کے ساتھ بری شے کا ذکر کیا؟ یا مختلف اور متضاد الفاظ کا ایک ہی تحریر میں کیا تعلق بات سے بات نکلتی ہے تو الفاظ سے الفاظ بھی جڑتے چلے جاتے ہیں ہر ناظر ہر قاری ہر سامع ہر مفکر کی اپنی اپنی حد نظر، وسعت تخیل اور سوچنے کا انداز ہے کہ بعض اوقات سوچ یا فکر کا تضاد بھی ایک سے اعمال میں تضاد کا باعث بن جایا کرتا ہے اسی لئے ایک بات پر ایک نظریے پر بہت سے افراد متفق نہیں ہو پاتے یہی نظریات کا تضاد ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اسے انسان ہمہ وقت اپنے اعصاب پر سوار رکھے انسان کو محض اپنی نیت اور اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہئیے اور اپنے اعمال کو اس کے تابع رکھنا چاہئیے جو اسکا خالق حقیقی ہے مالک ہے جو انسان کی نیت اور اس کے عمل ہر ایک چیز سے آگاہ ہے جو ہر چیز پہ قادر ہے

اللہ ہم سب کو وہ علم عطا فرمائے جو ہمیں انسانیت سکھائے انسان کو ہر قسم کے شر سے نجات دلانے کی تدبیر بتائے(آمین)
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456890 views Pakistani Muslim
.. View More