ٹیکساس کے علاقے ویمبرلے ( Wimberley ) میں واقع Jacob’s
Well کا شمار زمین پر موجود خطرناک ترین مقامات میں کیا جاتا ہے- لیکن پھر
بھی ایڈونچرز کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد غوطہ خوری کے لیے اسی مقام کا
انتخاب کرتی ہے-
یہ کنواں اب تک آٹھ سے زائد افراد کی جان لے چکا ہے لیکن متعدد غوطہ خور
خاص طور پر اس جگہ غوطہ خوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں-
|
|
سطح سے دیکھنے پر یہ انتہائی خوبصورت معلوم ہوتا ہے اور اندر موجود ہریالی
کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کنویں کے اندر بھی موسم بہار ہو- اور اس
خطرناک کنویں کی ہریالی دیکھ کر انسان کے ذہن میں کسی قسم کے نقصان کا خیال
بھی نہیں آتا-
اس کنویں کا منہ چار میٹر چوڑا ہے جبکہ یہ کنواں چار چیمبر میں تقسیم ہے جو
اسے متعدد فٹ گہرا بناتے ہیں-
کنویں کا سب سے پہلا چیمبر 30 فٹ گہرا اور بالکل سیدھا ہے اور پھر 55 فٹ کی
گہرائی تک اس کے زاویے میں تبدیلی آتی ہے- اس چیمبر تک سورج کی روشنی کی
رسائی ہے- اسی وجہ سے یہ روشن بھی ہے اور یہیں جنگلی حیات اور کائی کی بڑی
مقدار بھی پائی جاتی ہے-
دوسرا چمیبر 80 فٹ گہرا ہے اور یہ متعد چمنیوں کا گھر ہے اور ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ جیسے یہ کنویں سے باہر نکلنے کا راستہ ہے لیکن یہی چیز غوطہ
خوروں کو درحقیقت دھوکہ بھی دیتی ہے-
|
|
رچرڈ پیٹن جو کہ ساؤتھ ویسٹ ٹیکساس اسٹیٹ یونیورسٹی کے طالبعلم تھے٬ 1983
میں اسی چمنی میں پھنس کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے-
دوسرے چیمبر سے نکل کر تیسرے چیمبر میں پہنچنے کے لیے بھی چند مشکلات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ درحقیقت یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جو کہ غیر
مستحکم بجری سے تعمیر کردہ ہے- غوطہ خوروں کے لیے ضروری ہے وہ انتہائی
احتیاط کے ساتھ یہاں سے گزریں اور راستے کی تلاش کے لیے بجری کو ہٹانے کی
کوشش نہ کریں-
چوتھے اور آخری چیمبر کا راستہ انتہائی تنگ ہے اور بہت کم غوطہ خور آج تک
اسے دیکھ پائے ہیں- کامیاب غوطہ خوروں کے مطابق چوتھا چیمبر انتہائی بہترین
چونا پتھر سے آراستہ ہے- کنویں کا یہ سب سے گہرا ترین مقام ہے اور انتہائی
خطرناک بھی ہے- یہاں تک کہ اس مقام سے تجربہ کار غوطہ خوروں کی بھی زندہ
واپسی کو بھی انتہائی مشکل قرار دیا جاتا ہے-
اس کنویں کا آخری شکار Wayne Wood Russell تھا جو کہ کھلے پانی کا ایک ماہر
غوطہ خور سمجھا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ بھی اس قسم کی غوطہ خوری سے
بالکل ناآشنا تھا اور آخر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا-
|
|
یہ کنواں جہاں ایک غوطہ خوروں کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے وہی یہ خود کے
لیے بھی خطرناک ہے- سن 2000 میں یہ کنواں پہلی مرتبہ مکمل خشک ہوگیا تھا-
اس کنویں نے غوطہ خوروں کے ساتھ ساتھ آرٹسٹوں اور سائنسدانوں کو بھی بہت
متاثر کیا ہے- سائنسدانوں کے نزدیک یہ ایک عظیم راز ہے اور وہ اسے
mythology کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں- |