علمی و ادبی مجلہ ’سروش‘ اور پروفیسر غازی علم الدین

۱۵فروری ۲۰۱۴ء کو شام پانچ بجے پروفیسر غازی علم دین صاحب کا فون آیا کہ گاڑی کو حادثہ پیش آگیا ہے اور میں شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ راولپنڈی پڑا ہوں۔کولہے کی ہڈی دو جگہ سے فریکچر ہوچکی ہے اور سرجری ہوگی۔دعا کریں۔میری بدنصیبی کہ اس وقت میں بیوی کے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس تھا۔پورا گھر ہی بیمار پڑا تھا۔کبھی بیوی،کبھی بیٹا اور کبھی بیٹی۔راولپنڈی نہ جا سکا جس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔صرف فون پر رابطہ رہا اور احباب کو بھی فون پر ہی غازی صاحب کے حادثے کی اطلاع دی۔اسی دوران ان کی سرجری ہوئی اور معالجوں نے کمال مہارت سے ہڈی کو جوڑ دیا لیکن اب تکلیف کا ایک شدید سفر تھا جو غازی صاحب نے تنہا طے کرنا تھا کیونکہ معاملہ ہڈی کا تھا اور صحت یابی کا عمل بہت سست رو تھا۔غازی صاحب ایک مستقل مزاج شخص ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی استقامت اور صبر کے ساتھ اس آفت کو شکست دے دیں گے۔وہ اسپتال سے گھر منتقل ہوئے تو ایک کمرے اور ایک بیڈ تک محدود ہونے کے باوجود انھوں نے تحقیق و تدقیق اور روابط کے سلسلوں کو رکنے نہ دیا۔’سروش‘ کو کمال محبت سے اپنے دوست احباب اور اہل علم تک پہنچاتے رہے۔اس کام کے لیے انھوں نے گاؤں سے اپنے ایک بھانجے کو بھی بلا لیا کیونکہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔اسی دوران ان کا تبادلہ ’سیاسی یتیموں‘ نے کوٹلی کروا دیا۔ویسے بھی ان سیاسی یتیموں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کون کیا اور کتنا اہم کام کررہا ہے۔انھوں نے تو صرف اپنے آقاؤں کو خوش کرنا اور اپنی کرسی پکی کرنا ہوتی ہے۔لیکن سارے اندھے بھی نہیں ۔اس لیے بہت جلد غازی صاحب کا تبادلہ افضل پور کالج ہوگیا۔

’سروش‘ کا موجودہ شمارہ ۲۰۱۲ء کا پہلا شمارہ ہے جو انھوں نے گورنمنٹ کالج میرپور سے تبادلے کے بعد کمال محنت سے مرتب کیا ہے۔اس کے چرچے پاکستان سے باہر بھی سنے جا سکتے ہیں۔اخبارات اور رسائل میں اس پر تبصرے جاری ہیں اور ابھی کافی عرصہ رہیں گے۔اس دوران انھوں نے پندرہ کاپیاں ارسال کیں جو مظفرآباد ، مانسہرہ اور وادی نیلم کے اہل علم اور اہل قلم تک میں نے پہنچائیں۔وقت گزرتا رہا اور اسی دوران انھوں نے وہیل چیئر پر کالج جانا بھی شروع کردیا۔تین ماہ کا طویل عرصہ گزر گیا اور میں نہ تو ان کی تیمارداری کو حاضر ہوسکا اور نہ ہی ’سروش‘ پر تبصرہ ارسال کر سکا۔جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔اسی دوران ۲۱ تا ۲۳ اپریل ’قومی اردو کانفرنس‘ کے لیے ہزارہ یونی ورسٹی جانا ہوا اور وہاں تشریف لائے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر فخرالحق نوری صاحب نے ’سروش‘ میں میرے رپورتاژ’پاکستانی جامعات:ادبی تحقیق اور علم کے فرعون‘ کا تذکرہ کیا اور ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ کو نہیں لکھنا چاہیے تھا۔نوری صاحب شاعر ہونے کے باوجود میری حساسیت کو محسوس نہیں کر سکے۔وہ پی ایچ ڈی میں میرے بیرونی ممتحن بھی تھے۔میں نے یہ رپورتاژ رویوں کے خلاف لکھا تھا لیکن علم کے فرعون اپنے رویوں کودرست کرنے کے بدلے شکایات کے انبار لگاتے نظر آئے۔حالانکہ میں نے ان کو اسلامی یونی ورسٹی کے میرے ساتھ ہی نہیں بے شمار اور سکالرز کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی تفصیل سے آگاہ بھی کیا۔میں اس رپورتاژ کو شامل ’سروش‘ کرنے پر غازی صاحب کا شکر گزار ہوں ۔اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی رکے گا نہیں تاہم سب ایک جیسے نہیں ہوتے ۔اس لیے اصلاح احوال کی بھی امید ہے۔

’سروش۲۰۱۱ء: انتقاد کی کسوٹی پر‘ ۱۴۸ صفحات پر محیط ہے اور یہ تنقید و تحقیق و توصیف کا حسین امتزاج ہے۔اس میں کچھ تبصرے واقعی دلچسپ اور کمال کے ہیں جیسے پروفیسر سیف اﷲ خالد صاحب کا تبصرہ۔یہ تبصرہ تحقیق کے در بھی وا کرتا ہے اور دعوت فکر بھی دیتا ہے۔بعض تبصرہ نگاروں نے لگی لپٹی رکھے بغیر تبصرہ کیا ہے اور جائز کیا ہے۔ ان تبصروں کو علیحدہ سے کتابی شکل میں شایع کیا جانا بھی مفید ہوگا۔اساتذہ ،طلبہ اور ان سب کے لیے جن پر تنقید کی گئی ہے۔عبرت پکڑنے کے لیے یہ ایک اچھی دستاویز ہوگی ۔ایک خاموش تاریخ تصاویر کا حصہ بھی ہے۔سنا ہے کہ وقت اور الفاظ انسان کو دھیرے دھیرے مارتے ہیں۔وقت نے کیسے کیسے چہروں کو تہہ خاک سلا دیا اور اب ان کے صرف تذکرے ہیں جن کو آپ نے زندہ کیا ہے۔’مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے‘۔گورنمنٹ کالج مظفرآباد کا ایک نایاب سٹاف گروپ فوٹو بھی ان تصاویر میں شامل ہے او رواقعی نایاب بھی۔گورنمنٹ کالج مظفرآباد کی تاریخ ادھوری ہے کیونکہ اس کالج کو کوئی پروفیسر غازی صاحب جیسا میسر نہیں آیا جو اس کی تاریخ کو مرتب کرسکتا۔یہاں تو میں نے اساتذہ کو صرف تبادلوں کو روتے اور ایکٹا کی محدود سی سیاست کرتے دیکھا۔ہمارے پاس بے شمار بزرگ موجود ہیں جو مظفرآباد اور مظفرآباد کالج کی تاریخ کو مرتب کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔کچھ کام پروفیسر مشتاق صاحب نے کیا ہوا بھی ہے۔اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ظہیر الحسن جاوید صاحب نے خالد نظامی پر طویل مضمون قلم بند کیا ہے لیکن اس میں خالد نظامی کے تذکرے کم اور ان کے اپنے زیادہ ہیں۔ان کی یہ بات درست ہے کہ’ اس دور میں کے ایچ خورشید اور مقبول بٹ کشمیری نوجوانوں کے پسندیدہ رہنما تھے‘۔بدقسمتی یہ ہے کہ اب یہ دونوں قوم پرستوں کے محبوب ہو چکے۔آپ نے کشمیریوں کی شناخت کے لیے کام کیا جو قابل ستایش ہے لیکن یہ بھی بدبختی ہے کہ ہمارے کشمیری لیڈر اپنے آپ کو توازن کی حالت میں نہیں رکھ سکے اور اسی لیے ہماری سیاست میں بھی توازن نظر نہیں آتا۔’کشمیر کشمیریوں کا ہے‘ سے تعصب کی بو آتی ہے۔پہچان کا المیہ تو ہے لیکن یہ تو فرد سے شروع ہوتا ہے اور ہم سب اس المیے کا شکار ہیں۔آپ خود اپنے والد محترم کو جانے کیوں مظفرآباد کی شناخت سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔بہت کم لوگوں کو اس دور کے مظفرآباد کی حدود کا علم ہے۔جس میں بارہ مولہ کے بھی کچھ دیہات شامل تھا اور آپ کے والد کا جنم بھومی بمیار بھی مظفرآباد میں شامل تھا۔آپ کے والد جناب چراغ حسن حسرت سلطان کٹھائی کے ہاں بھی کافی عرصہ رہے۔اس دور کے بارہ میں آپ کو مزید تحقیق کرنی چاہیے اور صرف ڈاکٹر طیب منیر صاحب کے حوالے دے کر گزارا نہیں کرنا چاہیے۔آپ خود تحقیق کی ابجد سے واقف ہیں۔’رنگ تغزل‘ میں کچھ غزلوں کے اشعار بہت خوب صورت لگے جیسے انجم رومانی کے یہ دو اشعارقدیم میرپور کی یاد دلاتے ہیں۔
تم اسے شہر میں بدل دینا
میں نے بنیاد رکھ دی بستی کی
چلو اب گمشدہ چیزوں کو ڈھونڈیں
کہ اب پانی اترتا جا رہا ہے

اسی طرح پروفیسر اکرم طاہر صاحب کا یہ ایک شعرجو انانیت کی بہترین مثال ہے۔
کھلا ہوا تھا ترے گھر کا پست دروازہ
میں سر جھکا نہ سکا ، الٹے پاؤں لوٹ آیا

زید اﷲ فہیم بہت عرصہ مظفرآباد میں رہے۔ایک ان شعراء کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے خول میں بند رہتے ہیں۔یہی حال یہاں کے شعراء کا بھی ہے جن کی اپنی ایک ’انجمن ستایش باہمی‘ ہے۔بدقسمتی سے ہم نے فہیم صاحب کو بھی اسی حلقے میں دیکھا۔تاہم ان کا یہ شعر رومانوی ہے اور خوب صورت ہے اگرچہ ان کی عمر سے لگا نہیں کھاتا۔
کیا کیا فریب آرزؤے وصل نے ویے
جھوٹی تسلیوں سے بہلتا رہا یہ دل

تاہم ڈاکٹر رفیع الدین صدیقی صاحب کی غزل کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔مطلع ہی عجیب سا ہے۔نہ معنویت ، نہ فکر اور نہ ہی الفاظ کا درست چناؤ۔آپ بھی پڑھ لیں
کوئی مجھ میں بولتا ہے اور میں
میں کہاں وہ دیکھتا ہے اور میں
چند شرارے زندگی کی زندگی
انتہا ئی کون سا ہے اور میں

ظہیر الحسن جاوید صاحب کا دوسرا مضمون ’چراغ حسن حسرت اور فیض احمد فیض‘ بھی طویل ہے اور تاریخ کے کچھ گم شدہ اوراق کو سامنے لاتا ہے۔فیض بڑے شاعر تھے۔ان کی شادی ایلس سے ہوئی اور شیخ عبداﷲ نے نکاح پڑھایا۔مظفرآباد بھی تشریف لا چکے ہیں۔تاہم ان کی شاعری میں مظلوم کشمیریوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔ہم کو ان سے یہ گلہ ہے اور بجا ہے۔آخر وہ سیالکوٹ سے تھے اور علامہ اقبال سے کچھ اثر تو لیتے۔ثابت ہوا کہ ترقی پسند ترقی پسند ہی ہوتا ہے۔ان کو تو پاکستان بننے میں بھی ’داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر‘ ہی نظر آئی۔’اردو کا ملی تشخص اور کردار‘ ایک فکر انگیز اور توجہ طلب تحقیقی مضمون ہے اور اس سے اخذ کردہ نتائج بھی درست ہیں کہ ’ہندوؤں نے اردو زبان کی ترویج واشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن مسلمانوں نے ہندوستان کی سینکڑوں زبانوں میں سے صرف اردو زبان پر قناعت کی اور اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ اسی کو بنایا‘۔اس زبان کے ملی تشخص کو خطرہ لاحق ہے۔پاکستان کی موجودہ حکومت جو پاکستان کا خالق ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ، اس کے درپے آزار ہے۔وہ اسے پاکستان کی باقی زبانوں کے مساوی قرار دینے کی سازش میں مصروف ہے۔یہ پورے ملک میں رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔اقلیتی طبقہ انگریزی کی بالادستی پر خوش ہے۔افواج پاکستان اور عدالتوں کی زبان اردو نہیں۔آپ کا کہنا بجا ہے کہ’ رسم الخط اور زبان کا تعلق روح اور قالب کا ہے‘۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ماضی سے کاٹنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔پاکستانی آہستہ آہستہ عربی ، فارسی اور اردو سے نامانوس ہو جائیں گے کیونکہ رسم الخط بہت تیزی سے اثر دکھا رہا ہے۔آپ کا اخذ کردہ یہ نتیجہ بھی درست ہے کہ’ اردو زبان ، اس کا رسم الخط اور املا عقیدے کا مسئلہ ہے‘ ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کس کے عقیدے کا؟تو جواب یہ ہے کہ لوئر مڈل کلاس کااور غرباء کا اور منبر و محراب کے وارثوں کا۔اردو اب مڈل کلاس ، اپر مڈل کلاس اور اپر کلاس کا مسئلہ نہیں کیونکہ مذہب اور زبان ان کے مسائل ہیں ہی نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کی بقا اس زبان ہی میں ہے ورنہ مزید بنگلہ دیش بننے سے کسی کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

خواجا محمد عارف صاحب کا مضمون ’اردو رسم الخط اور املا‘ دلچسپ اور پراثر ہے۔جدید مواصلات کے بارہ میں ان کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ ’اس انفارمیشن کی ترسیل اور پھیلاؤ نے انسان کو تن آسان بنا دیا ہے اور اب انسان محنت سے جی چرانے لگا ہے۔اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ معلومات کو چھان پھٹک کر خود کوئی تجزیہ کرے۔معلومات کا دریا اس قدر طغیانیوں پر ہے کہ اب اس میں سے صاف پانی یعنی کسی ٹھوس علمی حقیقی کا پیالہ بھر حصول مشکل ہوگیا ہے‘۔اور یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا جامعات کی سطح کی تحقیق میں ہوتا ہے۔ہر سال پاکستانی جامعات سے سینکڑوں طلبہ و طالبات فارغ ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف کچھ ہی نامور ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی کچھ اس بدنصیب ملک کو چھوڑ جاتے ہیں۔اردو ادب کی بات کریں تو سوال یہ ہے کہ وہ کہاں استعمال ہوتا ہے۔تمام نجی چینل ،اسمبلی میں پڑھے لکھوں کی گپ شپ ، جامعات ، سنجیدہ محافل:سب کے ہاں انگریزی زدہ اردو سننے کو ملتی ہے۔ایک مرعوبیت ہے جو اس قوم کے اعصاب پر سوار کر دی گئی ہے۔رہی سہی کسر غیر سرکاری تنظیموں ،اداروں اور سکولوں نے پوری کر دی ہے۔آپ درست فرماتے ہیں کہ ’گلیمر اہم ہے اور گریمر غیر ضروری ہے‘۔آپ نے بجا لکھا ہے کہ’ ایک اور ستم رسم الخط کے ساتھ ہوا ہے۔موجودہ دور میں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان کو ہندی اور فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان کو اردو کہا جاتا ہے۔دونوں میں ۸۵ فی صد الفاظ مشترک ہیں۔ہندی کا تو ایک ہی رسم الخط ہے لیکن اردو کے دو ہو چکے ہیں۔یعنی فارسی رسم الخط اور رومن‘۔ہمارے پاس اردو کا تختہ مکمل نہیں۔رومن میں انگلیاں ٹھکا ٹھک بجتی ہیں۔غلط اردو اور غلط انگریز ی رومن رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔

خواجا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ’ ۲۳ جلدوں پر مشتمل ’اردو لغت‘ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔اس لیے معلوم نہیں ہو سکا کہ دوچشمی ’ھ‘ والے حروف کو ایک مستقل حرف تسلیم کیا گیا ہے یا نہیں اور اسے تہجی ترتیب نمبر بھی دیا گیا ہے یا نہیں۔لغت کے بعض مرتبین ’ھ‘ کو الگ حرف شمار نہیں کرتے‘۔خواجا صاحب یہ جلدیں ۲۲ ہیں اور ان میں دو چشمی ’ھ‘ کو الگ حرف تسلیم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے کوئی حرف شروع نہیں ہوتا۔تاہم یہ ایک مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے رشید حسن خاں صاحب نے بھی تجاویز دی تھیں اور طویل مباحث بھی کیے لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔’ہ‘ اور ’ھ‘ دونوں کو استعمال کیا جا رہا ہے جیسے ’انہیں‘ اور ’انھیں‘ دونوں استعمال ہو رہے ہیں تاہم ’دہلی‘ اور ’دھلی‘ کا مسئلہ موجود ہے۔آپ نے اس طرف درست توجہ دلائی ہے۔

ڈاکٹر صغیر خان صاحب کے مضمون ’صابر آفاقی کی اردو شاعری‘ میں درست نام ’پھل کھیلی‘ ، ’سانجھو کھلاڑو‘ ، ’ثنائے بہاء‘ ہیں۔ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’یوں تو طلوع سحر ، ثنائے بہا اور زمزمہ ء روح بھی ان کی اردو شعری تصنیفات ہیں لیکن مخصوص موضوع و مواد کی حامل یہ تخلیقات ان کے شعری مقام کے تعین کے بجائے ان کی مخصوص فکر کی عکاس و غماز ہیں‘۔ اور وہ مخصوص فکر ان کا مذہب ہے جو ان کی شاعری کے ۷۰ فی صد پر محیط ہے بلکہ اسے کھا چکا ہے۔صغیر خان صاحب نے اچھا کیا جو اسے الگ رکھ کر آفاقی کی شعری کاوش کا ایک مطالعہ پیش گیا ہے۔آفاقی امن و آشتی کو بھی اپنے مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔اور اس مقام پر وہ پروہت یا پادری محسوس ہوتے ہیں۔پروفیسر خواجا خورشید احمد صاحب نے ’تحقیق نامہ کا غالب نمبر:ایک تجزیاتی مطالعہ‘ پیش کیا ہے تاہم یہ مطالعہ بہت تاخیر سے پیش کیا گیا ہے۔کیونکہ یہ غالب نمبر ۱۹۹۴ء کا ہے یعنی دو عشرے قدیم۔پروفیسر عبدالرزاق مغل کی ہند ی زبان لیکن اردو رسم الخط میں ایک نظم کے دو اشعار بہت پسند آئے کہ ہندی زبان سے مجھے بھی شغف ہے۔
نینوں میں بسایا تھا جب سے جیون کا سہانا سا سپنا
تب ہی سے من کا چین گیا تب ہی لٹا آنند اپنا
جیون کے کشٹوں سے ہم بھی جی جی کے مرے ، مرمر کے جیے
کیا جانیے ہم پر کیا گزری اور ہم نے کیا کیا کام کیے

اور ایک آخری بات۔پروفیسر غازی علم الدین اب گورنمنٹ کالج میرپورمیں نہیں۔ایک اندیشہ ہے کہ ’سروش‘ کا اب کیا بنے گا۔یہ کہہ دینا آسان ہے کہ فرد اہم نہیں لیکن بہترین فرد کے جانے سے فرق پڑتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا ’سروش‘ غازی صاحب کی ۲۵ سالہ روایات کو جاری رکھ سکے گا۔اور کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ غازی صاحب کو ’مدیر اعلیٰ‘ کے طور پر بحال رکھتے ہوئے ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔افضل پور کالج گورنمنٹ کالج سے زیادہ دوری پر تو نہیں۔غازی صاحب کی صحت کاملہ ،عمر میں برکت اور توانائیوں میں اضافے کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51525 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More