وہ کون سی ممکن کوشش ہے جو اسلام کو صفحہء
ہستی سے مٹانے کے لیے نہیں کی گئی ،پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و سلم نے جس
بے سرو سامانی کے عالم میں اسلام کی تبلیغ کی اس نے تاریخ عالم میں ایک نئے
باب کا اضافہ کر دیا ،مکہ کے کافروں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، ہر
طرح سے اسلام کی بیخ کنی کی کوشش کی ،ہر حربہ اپنایا مگر پیغمبر اسلام صلی
اﷲ علیہ و سلم کی بلند ہمتی ،پختہ عزم ،اور حکمت عملی نے ان کے سارے حربوں
کو بیکار کر دیا اور دیکھتے دیکھتے اسلام پورے عرب میں پھیل گیا ،مگر اسلام
صرف عرب کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ پوری نسل انسانی تک خدا کا ازلی پیغام
پہنچانے کے لیے اسلام نمودار ہوا لہذا حدود عرب سے باہر اسلام کو متعارف
کرانے کے لیے صحابہ کی جماعت تیار ہوئی ، ابھی تک تو اسلام کا مقابلہ صرف
مکہ کے گنے چنے کافروں سے تھا مگر اب معاملہ اس کے بر عکس تھا اب دنیا کی
مسلح افواج اپنے جابر بادشاہوں کے تحت اسلام کو مسل ڈالنے کے لیے بے قرار
تھیں مگر خدا کی آسمانی مدد اور صحابہ کی سرفروشانہ ہمت نے اس طوفان کا ڈٹ
کر مقابلہ کیا اور آخر کار اسلام دنیا کے اکثر حصے میں اپنا پیغام پہنچانے
میں کامیاب رہا ،حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت امیر معاویہ ، حضرت خالد بن
ولید ،حضرت زبیر ، صلاح الدین ایوبی ،محمد بن قاسم ،طارق بن زیاد اور ان
جیسے ہزاروں جیالوں کی سر پرستی میں اسلام پھیلتا چلا گیا اور اس کی اخلاقی
تعلیمات سے علاقے کے علاقے اسلام میں داخل ہوتے چلے گیے ،یہ اسلام کا وہ
سنہر ی دور تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے جسے پڑھ کر ہم اپنے آپ کو
تسکین دے لیتے ہیں یہ دور شمشیر و سنان کا تھا مگر زمانہ کے ساتھ ساتھ
اسلام پر ہونے والے حملہ کی نوعیت بھی بدلتی چلی گئی اور جب دشمن نے ایک
محاذ پر شکست کھائی تو دوسرے محاذ پر اپنے آپ کو لگا دیا اب دور قلم کا تھا
، منطق و فلسفہ اور سائنسی تجربات کا تھا لہذا اسلام پر حملہ کرنے کے لیے
اب جانبازوں کے بجائے مستشرقین کی جماعت ابھر کر سامنے آئی جس نے اسلامی
افکار و تعلیمات پر چو طرفہ حملہ شروع کر دیا اور پوری دنیا میں اپنے
زہریلے لٹریچر کو پھیلا دیا ،عرب سے نکلنے والا ایک عالمی رسالہ ,,البلاغ
،، کے ۲۲ اپریل ۲۰۰۸کے شمارہ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ صہیونیوں کی
طرف سے سن۱۸۰۰سے لیکر ۱۹۵۰ تک یعنی کل دیڑھ سو سال کے اندر ۶۰۰۰۰ہزار سے
بھی زیادہ کتابیں اسلام کے خلاف لکھی گئیں جس میں اسلام کو ایک غیر مہذب
مذہب اور مسلمانوں کو وحشی قوم کی صور ت میں پیش کیا گیا تھا اور پوری دنیا
کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام کوئی آسمانی مذہب نہیں بلکہ
یہ ایک گڑھا ہو امذہب ہے جو عالمی سطح پر خطرہ کا سبب بن سکتا ہے، اس وقت
نہ پیغمبر اسلام کے معجزات تھے جسے پیش کرکے اپنی صداقتوں کو منوا لیا جائے
اور نہ ہی ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما جیسے مخلصین کی جماعت تھی جو دشمنان
اسلام کی چیرہ دستیوں کا جواب دے سکیں مگر پتہ نہیں کیوں ان تمام پرپیگنڈہ
کے باوجود اسلام کا دائرہ تنگ ہونے کے بجایے اسلام کا پیغام آفاق کی وسعتوں
میں پھیلتا چلا گیا ۔
صدیوں سے چلی آ رہی اس جنگ میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب 9/11 کا دہشت
گردانہ حملہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کیا گیا اس وقت صہیونی طاقتوں اور مستشرقین
کو اسلام کو بد نام کرنے کے لیے ایک نیا موضوع مل چکا تھا یعنی اسلام بنام
دہشت گردی اور اس واقعہ کو لیکر اسلام کے پیش کردہ نظریہ جہا د کا سرا دہشت
گردی سے جوڑ کر اسلام کو منھ بھر کا برا بلا کہا اور لکھا گیا، اور نہ صرف
دہشت گردی بلکہ اسلام کی ان تمام تعلیمات کو نشانہ بنا کراسلام سے متنفر
کرنے کی کوشش کی گئی جسے اسلام میں خاص مقام حاصل ہو ااب خواہ وہ حجاب کا
مسئلہ ہو، مردوں کی چار شادیوں کی اجازت ،طلاق ،یا پھر عورتوں کی امامت کا
ہنگامہ یعنی ہر وہ شوشہ جس سے کچھ بھی نفرت پیدا کی جا سکتی تھی اسلام
مخالف عناصر نے اسے اپنے مشن میں شامل کر لیا حیرت ہوتی کہ ایک طرف تو اس
طرح کی مخالف کوششیں کی جا رہی ہیں جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور دوسری
طرف ہر سال پورپ اور امریکہ جیسے ممالک سے سینکڑوں کتابیں مختلف زبانوں میں
شائع ہو رہی ہیں جن کے عناوین یہ ہوتے ہیںwhy I choose Islam , how they
embrace Islam ,Islam my religion ،روز نامہ انقلاب کے ۲ اکتوبر ۲۰۱۳کے
ایڈیشن میں یہ رپورٹ شائع کی گئی تھی کہ صرف بریطانیہ میں ہر سال ۵۰۰۰ سے
زیادہ لوگ اسلام قبول کرتے ہیں اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ بریطانیہ کے
لوگ فواحش سے بھری زندگی سے پریشان ہو گئے ہیں اس لیے اسلام کی دامن میں
پناہ لے رہے ہیں ،امریکہ میں 9/11 کے بعد لوگوں نے اسلام کا مطالعہ شروع
کیا اور مستشرقین کا وار الٹا ہو گیا وہاں نفرت کے بجائے اسلام سے لگاؤ
بڑھتا چلا گیا اور اس تیزی سے اسلام پھیلا کہ کلیسا میں بیٹھے مذہبی ذمہ
داروں کی پرشانی میں اضافہ ہو گیا اور وہ حد درجہ مایوسی کے شکار ہو گیے اس
لیے کہ وہ جیتی ہوئی جنگ ہار چکے تھے یہاں تک کہ اس غم میں ایک راہب نے
اپنے آپ کو آگ کے حوالہ تک کر دیا اور خود کشی کر لی مرنے سے پہلے اس نے
ایک خط لکھا تھا جس میں اس نے تحریر کیا تھا کہ میری خود کشی کا سبب یہ کہ
اسلام یورپی ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور کلیسا اسے روکنے میں
ناکام ثابت ہو رہا ہے ،اس پوری گفتگو سے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہر دور
میں اسلام کو روکنے کی بھر پور کوششیں کی گئیں اور نئے نئے ہتکنڈے اپنائے
گئے پھر بھی اسلام پھیلتا رہا اور ماضی سے زیادہ آج اسلام پھیل رہا
ہے۔۔۔مگر۔۔۔ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم ان خبروں کو پڑھ کر خوشیاں منائیں
،مسرت کا اظہار کریں ،شادمانی کے ترانے گائیں، آخر جس چیز میں ہم خود دل
چسپی نہیں لیتے اس میں خوش ہونے کا کیا مطلب ہے ؟کیا اسلام کی اشاعت میں
ہمارا کوئی حصہ ہے ؟کیا ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا ؟؟کیا اسلام کی ابدی
تعلیمات اور تہذیب پر حملہ کے وقت ہمارے دل میں کوئی قلق محسوس کیا گیا ؟؟؟ہر
سوال کا جواب نفی میں ہوگا آج سے صدیوں سال پہلے اسلام پھیلا تو اس کے
پیچھے مجاہدین کے لہو کی ہزاروں داستانیں تھیں اس لیے کے دور اسی چیز کا
تھا مگر آج اسلام پھیل رہا ہے تو اس کے پیچھے ہماری کوئی کارکردگی نہیں ،
اسلام کی تہذیب کو دنیا سے متعارف کرانے کے بجائے ہم خود اس تہذیب سے نا
آشنا ہو گئے ، اسلامی کردار میں ماحول کو ڈھالنے کی جگہ ہم خود ملحدانہ
ماحول میں ڈھلتے چلے جا رہے ہیں ،ہمار ی گفتارو کردا ر میں اسلامی رنگ کی
بو تک نہیں ہے اور نہ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی ثقافت کا اثر ہماری زندگی سے
ظاہر ہو ،اسلام مخالف عناصر پردہ پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اورہم عملی طور
پر پوری طرح ان کی ہاں میں ہاں ملاتے چلے جا رہے ہیں ،وہ تمام چیزیں جن سے
اسلام نے منع کیا تھا ہمارے معاشرہ میں کھلے عام انجام دی جارہی ہیں ،حاصل
کلام یہ کہ ہماری زندگی کے کسی پہلو سے یہ بات نہیں جھلکتی کہ ہم اسلام کو
پسند کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات کو پھیلانا چاہتے ہیں اب وہ کردار کہیں
نظر نہیں آ رہا ہے جس سے غیر ہم سے متاثر ہو جاتے تھے ، اب ہمارے اندر اپنے
نبی کے اخلاق کی وہ رمق تک باقی نہیں رہی جس نے مکہ کے بڑے بڑے کافروں کو
اسلام سے قریب ہونے اور اسے سمجھنے پر مجبور کر دیا تھا ، ہم اپنی دنیا میں
خوش ہیں اسلام پر کیا گزر رہی ہے ہمیں ا س سے کوئی مطلب نہیں ہم نے صرف
اپنے والدین سے سنے ہوئے کلمہ کو سیکھ لیا اور بس ،گھروں سے اسلام کو باہر
کر دیا اس کی تہذیب کو دیس نکالا دے دیا اب ہم اپنے بچوں کو مغربی تہذیب
میں دیکھ کر خوش ہور ہے ہیں ،ہم اسلام کے پیغام کو کیا پھیلاتے ہمارے اخلاق
کی پستی نے دوسروں کو اسلام سے بد گمان اور کر دیا ،مگر اسلام پھر بھی پھیل
رہاہے اب اس کے پیچھے خود اسلام کی کشش ، اس کی صداقت ،حسن نظام اور
الہمامی قوت کا م کر رہی ہے اسلام خود بخودغیروں کو اپنی جانب کھینچ رہا
اور لو گ دوڑے چلاے آ رہے ہیں ،اسلام پھیل رہا ہے مگر ہماری کوششوں سے نہیں
،اسلام پھیل رہا ہے مگر ہماری قربانیوں سے نہیں ،اسلام پھیل رہا ہے مگر
ہمار ے اخلاق سے نہیں ،اسلام پھیل رہا ہے مگر ہمارے کردار سے متاثر ہوکر
نہیں ،ہاں اسلام اپنی ابدی صداقتوں کی بنیاد پر پھیل رہا ہے ،اسلام اپنی لا
زوال تعلیمات کی بنیاد پر پھیل رہا ہے ،اسلام حیرت انگیز انقلابی نظام کی
بنیاد پر پھیل رہا ہے اور قیامت تک یوں ہی پھیلتا رہے گا ! |