تیما اور ریلوے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
اس کا نام تیما ہے جوکہ مغربی
جاپان کے شہر کینو کاوا کے ایک قصبے کشی کی اسٹیشن ماسٹر ہے اس کا ایک
شاندار آفس ہے اس کا ایک خوبصورت سا بیچ بنا ہوا ہے اس کو سالانہ انکریمنٹ
بھی ملتا ہے تیما کے اسٹیشن ماسٹر بننے سے علاقے میں سیاحت کو بہت فروغ ملا
ہے کیونکہ اس کے بارے میں جاننے کے بعد دور دراز سے لوگ اسے دیکھنے اور
ملنے آتے ہیں جس کی بنا پر اس علاقے میں معیشت کئی گنا مستحکم ہو گئی ہے
ایک اندازے کے مطابق ٹکٹوں اور اشیا ئے کی فروخت سے علاقائی معیشت کو
سالانہ تقریبا 11ملین ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے ۔مزید یہ کہ تیما کے اسٹیشن
ماسٹر بننے سے وہا ں سے گزر نے والی گاڑیوں میں مسافروں کی تعداد 15فیصد
زیادہ ہوگئی ہے تقریبا بیس ہزار سیاح ہر سال اس چھوٹے قصبے کا سفر کرتے ہیں
دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس اسٹیشن پر آپ کو کوئی اور ملاز م بھی نہیں ملے گا
چنانچہ کشی قصبے میں اسٹیشن ماسٹر کی ذمہ داریاں پندرہ سالہ تیما تن تنہا
نباہ رہی ہے ۔اس کی فرض شناسی کے اعتراف میں اسے 2008سینئر اسٹیشن ماسٹر کے
عہد ے پر ترقی دے دی گئی اور ایک خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔سفر یہیں
نہیں رکا بلکہ گذشتہ برس ہی اس کے نام سے ایک ٹرین بھی چلا دی گئی اور
کمپنی میں اسے نائب صدر کا عہدہ بھی دے دیا گیا ۔قارئین کرام آپ بھی متجسس
ہونگے کہ یہ تیما کون ہے تو جناب تیما ایک بلی ہے جوکہ اسٹشین ماسٹر والی
تمام خصوصیات کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس تمام نظام کو احسن طریقے سے
چلارہی ہے نہ صرف چلارہی ہے بلکہ معیشت کی بہتری میں بھی اولین کردار ادا
کررہی ہے۔
اسی طرح کسی ملک میں کتا بطور مئیر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے تو کہیں
بندر کو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں ۔حال ہی میں چائنا نے بندروں کی ایک
فوج(گروہ) تیار کی ہے جوکہ ایئر پورٹ پر تعینات کی گئی ہے جن کا کام اردگرد
کے درختوں پرموجود پرندوں کو اڑانا ہے تاکہ جہاز کسی رکاوٹ کے بغیر اڑایا
اور اترا جاسکے۔ ایک سیٹی پر بندروں کا یہ گروہ بغیر کوئی بد مزگی پھیلائے
اپنے کام میں جت جاتا ہے اس طرح سے چائنا نے اپنا ایک دیرینہ مسئلہ جو کہ
اس کے لئے درد سر بنا ہواتھا اور بہت سے مسائل پیدا کررہا تھا، حل کرلیا ہے
۔بندروں کے گروہ سے پہلے چائنا نے ہر ہر حربہ آزمایا انسانوں سے لیکر
مشینری اور ربوٹ تک استعمال کرلئے لیکن پرندے ارد گردکے درختوں سے غائب
نہیں ہوئے اور ائیرپورٹ انتظامیہ کے لئے مسائل اور مسافروں کیلئے جان کا
خطرہ بنے رہے ۔پھر کسی علقمند نے انہیں یہ مشورہ دیا انہوں نے ترجیحی
بنیادوں پر اس پرکام شروع کیا اور اب ایک ایسا تربیت یافتہ بندروں کاگروہ
تیار کرلیا ہے جو کہ ہمہ وقت چوکس رہتا ہے اور سیٹی کے بجتے ہی حرکت میں
آجاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پرندوں کا دور دور تک نشان نظر نہیں
آتا۔
اب پاکستان میں آتے ہیں کہ جہاں پرعا قل وبالغ ،مبلغ ومفسر اورفہم فراست سے
مزین حکمرانوں ،سیاستدانوں اورملازمین کی فوج ظفر موج موجود ہے لیکن کوئی
محکمہ ایسانہیں جوکہ بد نظمی اور بدعملی کا شکار نہ ہو ہمارا ریلوے جو کہ
ہمیشہ سے تنزلی کا شکار ہے کرپشن اس کے انگ انگ میں رچ بس چکی ہے ۔ خواجہ
سعد فیق اس معاملے میں بہت سنجیدہ اور مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں کہیں
انجن منگوائے جارہے ہیں تو کہیں بوگیوں کو مرمت کرایا جارہا ہے۔گرمیوں کی
آمد سے ہی انجنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ریونیو کے حوالے سے برا حال ہے۔
ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے خواجہ صاحب ریلوے کو سنوارنے کا عزم کئے ہوئے ہیں
اور پرامید بھی ہیں مگر ان کے علاوہ کسی اور کو اس محکمے میں سدھار کی امید
رتی برابر بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ٹرانسپورٹرز مافیا کبھی بھی ریلوے کو
کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتا توخواجہ سعد رفیق کو بھی چاہیے کہ وہ کسی بھی
ملک سے کوئی جانور لا کر انہیں ریلوے کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔یقین جانئیے
کہ ان کے ریلوے کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ۔معیشت بھی بہتر ہوجائیگی
۔کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔اقربا پروری کا قلع قمع ہوجائیگا لیکن اس کیلئے ایک
شرط ہے کہ جانور بھی پاکستانی نہیں ہونا چاہیے۔یا پھر ڈپٹی سپیکر کے مشورے
پر عمل پیرا ہوں اور لالوپرشاد سے مشاورت کریں تاکہ ریلوے تو کم ازکم بہتر
ہوجائے۔ |
|