’دال‘ جھال چکیاں(سردگودھا) دی

معاشرے میں بعض چیزیں خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بہت معمولی ہونے کے باوجود اہم اور معروف ہوجاتی ہیں۔ دال ہی کو لے لیں ، ہماری خوراک میں شاید سب سے سستی چیز تصور کی جاتی تھی لیکن اب نہیں، اب تو دال بھی گوشت کے برابر مہنگی ہوگئی ہے۔ کھانے پینے کے اشیاء کے حوالے سے بعض چیزوں نے غیر معمولی شہرت حاصل کی جیسے کراچی کی اسٹوڈینٹ بریانی، سرگودھا کے نذدیک گاؤں ’ جھال چکیاں’ کی مشہور و معروف دال جو ’دال جھا ل چکیاں دی‘کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح جی ٹی روڈ پر لالہ موسیٰ اور کھاریاں کے درمیان ایک ریسٹورانٹ جو کبھی ڈھابہ ہوا کرتا تھا کی ’میاں جی کی دال‘ مشہور ہے جس کا ذکر معروف کالم نگار ’عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم ’میاں جی کی دال اور سیاسی ما عتیں‘ کے عنوان سے ۵ ستمبر ۲۰۱۳ء کے کالم میں کیا۔ میاں جی کی دال کی تفصیل جو قاسمی صاحب نے یان کی ان کے کالم میں پڑھی جاسکتی ہے ۔

ذکر ہے ۲۰۱۱ء کا جب میں اپنی کالج کی ملازمت سے ریٹائر ہوکر سرگودھا یونیورسٹی سے بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پرو فیسر منسلک ہو گیا۔مجھے ایک سال بعد ہی جامعہ کو خیر باد کہنا پڑا ۔ کیونکہ مجھے کئی ماہ کے لیے سعودی عرب جانا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ جامعہ سے رخصت ہونے کے موقع پر میرے کئی کرم فرماؤں دوستوں اور شاگردوں نے مجھے الودع کرنے کے لیے دعوتوں کا اہتمام کیا ۔ مجھے مجبوراً ان فرمائشوں کو قبول بھی کرنا پڑا۔ میں کسی کے خلوص کو ٹھکرانے کا قائل بھی نہیں۔سرگودھا میں میرے ایک شاگرد کا شادی ہال تھا اس نے کسی کے ولیمہ کی دعوت میں مجھے اور چند دیگر دوستوں کو فارغ کر ڈالا۔ یہ بھی اس کا خلوص ہی تھا۔ میرے چند شاگردوں نے جامعہ سرگودھا روڈ پر ایک ہوتل میں دعوت کی، تمام شاگردوں کے نام یاد نہیں اس لیے کسی کا بھی نام نہیں لکھ رہا، دوشاگرد رحیم اور سائمہ کے نام یاد ہیں اس وجہ سے بھی کہ اب یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو چکے ہیں۔ میرا ایک شاگرد ارشد سجرا جسے میَں کلاس میں ارشد بھٹی کہا کرتا تھا حالانکہ وہ بھٹی نہیں تھا، اسی کلاس کا ایک طالب علم عرفان گوندل تھا ، یہ ارشد کا قریبی دوست تھا، اس نے ایک کارنامہ انجام دیا، پہلے سیمسٹر کا امتحان تھا، مجھے چھٹی پر کراچی جانا پڑا، اپنا پرچہ بنا کر نور مصطفی کو دیدیا ، جس دن میرے مضمون کا امتحان تھا سنا ہے کہ عرفان نے اپنی جگہ کسی دوسرے لڑکے کو امتحان دینے کے لیے بٹھا دیااور وہ پکڑا بھی گیا،ڈاکٹر فاضل خان صاحب بھلا ایسی حرکت کو کب معاف کرنے والے تھے۔ انہوں نے سخت ایکشن لیا، صرف نوبت پولس کیس تک نہیں پہنچی۔ اس کے بعد سے عرفان گوندل نے کلاس میں آنا ترک کردیا، میَں جب واپس سرگودھا آیا تو یہ قصہ معلوم ہوا،میں نے معلوم کیا یہ عرفان کون سا ، معلوم ہوا کہ وہ ارشد کے ساتھ بیٹھتا تھا اور اس کا قریبی دوست تھا اب میَں نے ارشد کو اس کے دوست کی دوستی کی بنا پر ارشد بھٹی کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ عرفان’ بھٹی ‘کے نام سے معروف تھا۔ارشد میری کلاس کا بہت ہی سیدھا سادھا طالب علم تھا، دیکھنے میں زیادہ عمر کا لگتا ، عام طور پر خاموش اور پچھلی سیٹوں پر ہی بیٹھا کرتا۔ کم گو لیکن با اخلاق اور عزت کرنے والوں میں سے تھا۔اس موقع پر ارشد نے مجھے اپنے گاؤں ’جھال چکیاں لے جانے اور وہاں کی مشہور دال ’’دال جھال چکیاں دی‘‘ کھلانے کی دعوت دی، اس کا گاؤں سرگودھا شہر سے کوئی بارہ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ،میں نے یہ پیش کش قبول کرلی، مقررہ وقت ارشدموٹر بائیک پر مجھے جھال چکیاں لے گیا، راستے میں بارش بھی ہوئی لیکن یہ مجھے موٹر بائیک پر سر پٹ دوڑاتا ہوا اس مشہور ہوٹل لے گیا جہاں کی یہ دال سرگودھا ہی میں نہیں بلکہ پورے پنجاب میں مشہور ہے، اس سڑک سے گزرنے والے مسافر اس دال کو ضرور کھاتے ہیں ، بلکہ یہاں لوگ دور دراز سے یہ دال کھانے آتے ہیں۔ اس تو اس ہوٹل کی کئی برانچین بھی کھل گئیں ہیں۔یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کراچی میں اسٹوڈنٹ بریانی،ملتان میں حافظ کا سوہن حلوہ، خوشاب کے ڈوڈے، حیدر آباد میں حاجی کی ربڑی ،لاہور میں پھجے کے سری پائے ،چکوال کے پہلوان کی ریوڑیاں،کراچی میں کبھی عبدالخالق کے رس گلے بہت مشہور ہوا کرتے تھے، فریسکو کی میٹھا ئی بہت مشہور تھی ،کراچی میں ڈھاکہ یا بھاشانی کی میٹھائیاں پسند کی جاتی ہیں،محمود کی میٹھائی بہت مشہور ہے، بدائیوں کے پیڑے، برنس روڈ کی نہا ری بہت پسند کی جاتی ہے،آجکل جاوید کی نہاری کی دھوم ہے، کراچی ہی میں مشہور حلیم یا کراچی حلیم بہت کھایا جاتا ہے۔ پی آئی ڈی سی ہاؤس پر موجود پان کی دکانوں کے پان خوب خوب کھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بے شمار کھانے پینے کی اشیاء مختلف شہروں میں ہوں گی جو پسند کی جاتی ہیں۔اب تو فوڈ اسٹریٹ کا رواج عام ہوتا جارہا ہے بڑے شہروں میں فوڈ اسٹریٹ قائم ہو چکی ہیں جہاں پر ہر طرح کی کھانے کی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں جاتے ہیں۔

ہوٹل بڑا تھا، لوگ جوق درجوق چلے آرہے تھے، صفائی کا فقدان تھا، دلچسپ اور خاص بات یہاں کی یہ تھی کہ ہوٹل میں دال روٹی کا ریٹ فکس تھا یعنی ڈیڑ سو روپے میں ایک شخص جس قدر دال اور جس قدر روٹیاں کھا سکتا ہے کھا لے، خوش خوراکو ں کے تو وارے نیارے اور ہم جیسوں کے لیے ایک وقت کی دال روٹی ڈیڑھ سو روپے میں، لیکن یہ عام دال نہیں بلکہ سرگودھا کی مشہور و معروف دال ہے،دال گرینڈ کی ہوئی تھی، کچھ کچھ کراچی کے حلیم کا مزاہ تھا لیکن یہ دال ہی تھی، ۔بارش ہورہی تھی لیکن لوگ جوق در جوق دال روٹی کھانے آرہے تھے۔ ہوٹل ایک اور قابل ذکر بات یہ تھی کہ ویٹر حضرات کی نظریں کھانے والوں کی دال کی پلیٹ پر رہتیں جوں پلیٹ میں دال ختم ہوئی وہ اسے بغیر کہے دوبارہ بھر دیا کرتے۔ وہ ایسا اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب آپ ان سے نہ کہیں کہ قبلہ بس کافی ہوگیا۔ہم نے خوب دال اڑائی ، واقعی مزیدار تھی۔ کھانے کے بعد ارشد مجھے اپنے گھر بھی لے گیا۔ دیہاتوں نے شہروں کی صورت اختیار کرلی ہے ۔ اس کے گھرکے باہر مہمانوں کے لیے اوطاق بنی ہوئی ہے اسی میں ہم بیٹھے اور چائے پی۔ اس وقت تک ارشد کی شادی نہیں ہوئی تھی لیکن اب وہ ایک بیٹی کا باپ بن چکا ہے۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی اور اس نے مجھے جامعہ کے ٹیچر ہاسٹل میں چھو ڑا۔ دال تو اپنی جگہ اچھی تھی لیکن ارشد کے خلوص اور محبت کو بھلایا نہیں جاسکتا۔

سر گودھا کو خیر باد کہے تین سال ہونے کو ہیں ارشدنے مجھ سے ناتا جوڑا ہوا ہے، اکثر فون کر لیتا ہے۔کینوؤں کا موسم آتاہے تو یہ کینوؤ ں کی کم از کم دو پیٹیوں کا تحفہ بھیج کر مجھے مطلع کردیتا ہے کہتا ہے’سر جی فلاں گاڑی سے پیٹیاں روانہ کردی ہیں وصول کر لیجئے گا۔کلینر کا نام، بس کا نمبر اور فون نمبر ایس ایم ایس کر رہا ہوں‘۔ کئی سال سے ارشد شاگرد ہونے کا حق ادا کررہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے۔اب تو شادی بھی ہوگئی ہے کسی لائبریری میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے بڑے بزرگ کچھ کچھ سیاسی ہیں اس علاقے سے ایم پی اے اور ایم این اے کا الیکشن بھی لڑتے ہیں۔

ارشد کے علاوبھی کئی شاگرد ہیں جو سرگودھا سے مجھے اکثر یاد کرلیتے ہیں۔ میری تحریروں پر اپنے تاثرات تحریر کرتے ہیں انہیں پسند کرتے ہیں۔ ابھی چھوٹے دیہات نما شہروں میں اپنے اساتذہ سے محبت ، احترام اور عقیدت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284801 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More