عمران اورطاہر القادری کے پیٹ میں درد کیوں ہورہاہے؟

تحریر : محمد اسلم لودھی

عمران خان ڈاکٹر طاہر القادری اور ق لیگ کے ساتھ مل کر پیالی میں طوفان پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسے دیکھ کر ایک عام پاکستانی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ عمران اور ان کے حواریوں کو آخر تکلیف کیا ہے کہ وہ صرف ایک سال کے بعد ہی پاکستان کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔جب پوری دنیا کے سرمایہ کار بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان میں بجلی ٗ صنعت و تجارت ٗ مواصلات کے شعبوں میں اپنا سرمایہ لگاکر غربت ٗ بے روزگاری اور بدترین لوڈشیڈ نگ کی ستائی ہوئی پاکستانی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کی جستجو کررہے ہیں تو عمران ٗ طاہر القادری اور چودھری برادران کے پیٹ میں نہ جانے کیوں درد اٹھنے لگا ہے ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو خیبر پختوانخواہ میں حکومت بنائے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے کیا وہاں دودھ کی نہریں بہنے لگی ہیں اگر عمران خیبر پختوانخواہ میں بری طر ح ناکام دکھائی دیتے ہیں تو پنجاب سمیت باقی صوبوں میں وہ کونسی تبدیلی لے کر آئیں گے رہی بات ڈاکٹر قاردی کی ان کے ذہنی توازن خراب ہونے کی ڈگری لاہور ہائی کورٹ سے پہلے ہی جاری ہوچکی ہے ۔ ضمیر فروشی میں چودھری برادران کا کوئی ثانی نہیں ہے وہ تو دن میں بھی ڈپٹی پرائم منسٹر بننے کے خواب دیکھتے چلے آرہے ہیں اب جب عوام نے انہیں یکسر مسترد کردیاہے تو وہ مفادات حاصل کرنے کے لیے عمران کے ہم رکاب بنتے جارہے ہیں ۔یہ وقت احتجاج ٗ دھرنے اور افراتفری پھیلانے کا ہرگز نہیں ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران بھی طاہر القادری کی طرح اب ذہنی طور پر نارمل نہیں رہے اگر انہیں عوامی مسائل کا تھوڑا سا بھی ادراک ہوتا تو پارلیمنٹ میں اپنا احتجاج نوٹ کرواتے ۔لیکن خود کو جمہوریت کا چیمپئین کہنے والوں کو جمہوریت ہی راس نہیں آتی ۔ عمران شاید بھول رہے ہیں کہ وہ کرکٹ کی جس پیچ پر خطرناک طریقے سے اس وقت کھیل رہے ہیں طاقتور ریفری پورے سسٹم کو ہی معطل کرسکتے ہیں پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ نہ جانے کیوں پاکستانی سیاست دانوں کو 67 سال بعد بھی عقل نہیں آئی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حکومت کو فری ہینڈ دیئے رکھیں کیونکہ ان کے احتجاج کا ایک فائدہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی کمی کی شکل میں سامنے آچکا ہے ۔ میں عمران ٗ طاہر القادری اورچودھری برادران سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے احتجاج کو پارلیمنٹ کے ایوانوں تک محدود رکھیں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا اس وقت کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اس لمحے نواز شریف کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بے شک انہوں نے ایک سال میں بجلی کے بے شمار معاہدے کیے ہیں ایک ہزار میگاواٹ تک بجلی نیشنل گرڈ میں ان کی کوششوں سے شامل ہوچکی ہے گوادر کو کاشغر سے ملانے ٗ بلٹ ٹرین چلانے ٗ صنعتی زون بنانے اور بجلی پیدا کرنے کے میگا پراجیکٹس پر زور شور سے کام چل رہاہے یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن عوام کو لوڈشیڈنگ سے فوری نجات کے لیے سرکاری محکموں ٗ فائیو سٹار ہوٹلز اور بنکوں کی تمام برانچوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا حکم دینا ہوگا میں دعوی سے کہتا ہوں اگر ایساکرلیا گیا توصرف ایک ماہ میں عوام کے لیے بجلی فالتو ہوسکتی ہے اس حوالے سے حکمرانوں کی چشم پوشی بطور خاص پاکستانی عوام کے لیے تکلیف دہ اور مخالف سیاست دانوں کے لیے کشش کا باعث بن رہی ہے ۔شیخ رشید جیسے مفاد پرست شخص کی زبان سے کبھی کلمہ حق نہیں نکلا یہی وجہ ہے کہ مفادات کی دنیا میں بے توقیر ہوکر وہ اس قدر بہک چکے ہیں کہ انہیں اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پر بھی یقین نہیں رہتا ۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس حکومت میں تمام فرشتے شامل ہیں کیونکہ شاید ہی کوئی سیاست دان اپنے دامن کو کرپشن ٗرشوت خوری اور لوٹ مار سے بچا سکا ہو ۔لیکن نوازشریف غیر ملکی بنکوں میں جمع پاکستانیوں کے غیر قانونی 200 ار ب ڈالر واپس لانے کی جو جدوجہد کررہے ہیں اس سے پاکستان کی بقا وابستہ ہے اگر کاشغر سے گواردتک موٹر تعمیر ہوجاتا ہے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے اگر بلٹ ٹرین جیسے منصوبے اور انرجی کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو پاکستان سے ہمیشہ کے لیے بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا خاتمہ اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے لیکن گیس کی قلت کو ختم کرنے کے لیے گیس کی تلاش کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ عمران ٗ طاہرالقادری شیخ رشید جیسے شکست خوردہ چہرے مل کر پیالی میں جو طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے پاکستان ایک بار پھر مسائل کی دلدل میں جا گرے گا اور شاید عوام کے گوناگوں مسائل سے نکلنے کا یہ آخری موقعہ ہو ۔ قدرت ایسے مواقع بار بار نہیں دیا کرتی ۔لیکن پاکستانی معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے جنسی جرائم ٗ پولیس اور سیکورٹی اداروں کی مکمل ناکامی ٗ چوری ڈاکہ زنی ٗ اغوا کاری اور بھتہ خوری کی بڑھتی ہوئی وارداتیں نوازشریف حکومت کے دامن پر سیاہ دھبے کی مانند ہیں ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اہم انتظامی عہدوں پر فائز افراد کی نااہلی ٗ چشم پوشانہ پالیسی کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہوچکا ہے ۔ زنا ٗ بھتہ خوری ٗ دہشت ٗکرپشن اور بددیانتی کی سزا جب تک موت نہیں رکھی جائے اس وقت پاکستان ہرگز ترقی نہیں کرسکتا جس ملک میں دو ہزار ارب روپے ٹیکس چوری ہوجائیں جس ملک میں پانچ سو ارب کے بغیر کچھ اد ا کیے ریفنڈ کردیئے جائیں جس ملک میں 8 سو ارب NRO کرکے معاف کردیئے جائیں جس ملک میں 200 ار ب کے ترقیاتی فنڈز غیر قانونی طور پر الیکشن مہم پر خرچ کردیئے جائیں وہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کرپشن ٗ بددیانتی ٗ ٹیکس چوری اور دہشت روکنے کے لیے تمام سیاست دان مل کر ایک مثالی نظام وضع کرتے لیکن الٹا گھٹنوں کے بل رینگنے والی اس جمہوریت کا بوریا بستر بھی لپیٹنے کی تیاری ہورہی ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو جمہوریت ہضم نہیں ہوتی وہ کسی بھی آمر کے جوتے تو پالش کرسکتے ہیں لیکن کسی جمہوری حکمران کو برداشت نہ کرنے کی شاید انہوں نے قسم کھا رکھی ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.