اترا ہوا کندھا

بھولا راوی ہے اور بھولے کی روایات کی میں تو کیا خود بھولا بھی ذمہ داری نہیں لیتا۔ایک دن ایک بات کہتا ہے اور دوسرے دن بالکل اس سے الٹ ۔اس کیفیت کے ساتھ اسے یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ اس کی دانش کو تسلیم کیا جائے۔ ہم مجبور ہیں کہ بھولا ہی ہماری چڑیا بھی ہے کوا بھی۔بندر بھی ہے اور ریچھ بھی۔گیدڑ بھی ہے اور شیر بھی۔وہ اپنا وقت پیسہ اور توانائی خرچ کرتا ہے بھانت بھانت کی سنتا ہے اپنی پٹاری میں اکٹھا کرتا ہے اور رات کو یہ سارا کچرا ہماری بیٹھک میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ ہمیں چونکہ لفظ جوڑنے آتے ہیں۔ ہم اس کچرے سے نسبتا قیمتی چیزیں نکال کے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ حاصل وصول کچھ نہیں اﷲ اﷲ خیر صلا۔ ہم بھی خوش ہمارے اخبار والے بھی اور ہمارے قارئین بھی کہ انہیں ایک نیا قصہ سننے کو ملا۔قصہ گو ہر روز ایک نیا قصہ بیان کرتا ہے جس کا مواد بھولے کی سارے دن کی دربدری اکٹھا کرتی ہے اس لئے بھولے کی بھیا ماننا بھی پڑتی ہے اور سننا بھی۔

خیر آج کا قصہ سنئیے۔بھولا کہتا ہے کہ پرانے زمانے میں جب ابھی سی این جی پہ میلوں لمبی قطاریں نہیں ہوتی تھیں۔ جب لوڈ شیڈنگ کا عذاب نازل نہیں ہوا تھا۔ جب بھوک سے لوگوں نے خود کشیاں کرنا اور بچے بیچنا نہیں شروع کئے تھے۔جب کلاشنکوف پاکستانی معاشرے کا عمومی ہتھیار نہیں بنا تھا۔جب لوگ ڈنڈوں سوٹوں ہی کی کلاشنکوف کی طرح استعمال کیا کرتے تھے۔اسی زمانے کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں کے لوگوں کا دوسرے گاؤں سے جھگڑا ہو گیا۔اس زمانے میں اس طرح کے جھگڑے جھگڑے کم اور انٹرٹینمنٹ زیادہ ہوتے تھے۔وہ صبیحہ اور نیر سلطانہ اور شبنم اور زیبا بیگم کا زمانہ تھا۔ ابھی اداکاراؤں نے ٹیٹو بنوانے شروع نہیں کیے تھے۔میڈیا آزاد کیا ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ بلکہ یہ آزادی اظہار کی واحد جائز اولاد پی ٹی وی کی بھی پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔جھگڑا ہو گیا۔ سر راہ بھولے کے گاؤں کے کچھ منچلوں نے ساتھ والے گاؤں کے چند نوجوانوں کو بری طرح پیٹا اور راستے میں پھینک کے گھر چلے آئے۔ان میں سے ایک کو ہوش آیا تو اس نے جا کے اپنے گاؤں خبر دی۔گاؤں اکٹھا ہو گیا۔جو ڈنڈہ سوٹا جس کے ہاتھ لگالے کے ساتھ والے گاؤں پہ چڑھ دوڑا۔بھولے کے گاؤں والوں کے لئے یہ ناگہانی تھی۔جس کے جہاں سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ ایک فنکار قسم کے لڑکے کو کوئی جگہ نہ ملی تو وہ ایک قبر میں گھس گیا۔سر پہ خون سوار ہو تو صدام جیسے فنکار کو اگلے قبر سے نکال لیتے ہیں وہ تو ایک چھوٹا سا فنکار تھا۔کسی دشمن نے اسے بھی جا لیا اور قبر سے نکال کے اس کے کندھے پہ وہ زور کا وار کیا کہ غریب کا کندھا نکل گیا۔ فنکار وہیں پہ گر پڑا۔ مرد تو پہلے بھاگ گئے تھے ۔گاؤں کی عورتوں نے یہ صورت حال دیکھی تو نشیب سے آتے دشمن پہ پتھروں کی وہ بارش کی کہ دشمن کو پسپا ہوتے ہی بنی۔اس کے بعد مردوں کی تلاش شروع ہوئی تو سب مل گئے لیکن وہ فنکار نما مرد غائب پایا گیا۔

اس زمانے میں قصہ زمین بر سر زمین نپٹانے کا رواج تھا۔لوگوں کو ابھی اہل ایماں نے اغواء کر کے بھتہ وصولی اور تاوان کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا۔اندھیرے میں تلاش شروع ہوئی تو موصوف ایک قبر کے کنارے کندھا پکڑے کراہتے پائے گئے۔ اٹھا کے لوگ گھر لائے تو پتہ چلا کہ کوئی چوٹ نہیں آئی بس کندھا اتر گیا ہے۔ اس زمانے میں ابھی بال اور مریض کی کھال اتارنے والے ڈاکٹر بھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ گاؤں ہی کے ایک سیانے نے ہلکا سا جھٹکا مارا اور کندھا کھڑک کر کے اپنی جگہ پہ آ گیا۔کندھا ٹھیک ہو گیا تو مطلب یہ کہ ایک اور سپاہی جنگ کے لئے مہیا ہو گیا۔ فنکاروں کا لیکن جنگ میں کیا کام۔جب کبھی بھی جنگ کا نقارہ پٹتا۔فنکار بھائی جنگ سے پہلے ہی تھوڑا سا زور لگاتے۔کندھا اپنی جگہ چھوڑتا اور بھائی صاحب کہتے کہ میرا تو کندھا اترا ہوا ہے۔اس طرح انہیں استثناء مل جاتا۔پہلے پہل تو اس کام میں انہیں تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرنا پڑتی لیکن بار بار اسے اتارنے سے یہ ہوا کہ موصوف ذرا زور سے چھینک لیتے تو کندھا صاحب اپنی جگہ سے نکل کے نیچے لٹک جاتے۔ یہ بات خاندان کے لئے بدنامی کا باعث بننے لگی تو فنکار دوست کا بڑا بھائی اسے نئے زمانے کے ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور کسی طرح اس کے کندھے میں لوہے کی کوئی پلیٹ فٹ کرا دی۔فنکار نے اس کے بعد بھی بڑی کوشش کی کہ کندھا اتر جائے لیکن اب تو اس میں لوہا فٹ ہے۔اب وہ کیسے اتر سکتا ہے۔

بھولے کی یہ بکواس میں نے چائے کے پانچ پیالوں اور ڈھائی گھنٹے کی مشقت سے سنی ہے۔اس کے بعد کی بات سن کے البتہ پیسے پورے ہوگئے۔ بھولا کہتا ہے کہ کیچریوال کو جب لگا کہ وہ دلی کی حکومت نہیں چلا پائے گا تو اس نے دلی کی حکومت چھوڑ دی۔اس کی اس حرکت پہ بھارت کے لوگوں نے سوچا کہ جو ایک صوبے کی حکومت نہیں چلا سکتا وہ ملک کیا چلائے گا۔ انہوں نے اس حرکت کی وجہ سے کیچریوال کے ساتھیوں پہ ان کا انتخابی نشان یعنی جھاڑو پھیر دیا۔ ہمارے حکمران کیچریوال سے زیادہ سیانے ہیں ان سے بھی جب ملک نہیں چلتا تو یہ بھی بموں کو لاتیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ ان کے مقابل اترا ہوا کندھا ہے جسے ہلکی سی ہوا بھی لگی تواتر جائے گا۔یہ اس بار کی دیہاڑ لگاسرور پیلس چلے جائیں گے۔ کندھے والا کچھ عرصہ پھر پاکستان کو ہٹا کٹا کرے گا۔یہ باری لینے ایک بار پھر آ جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

بھولا کہتا ہے کہ انہیں بتا دو کہ اب اس کندھے میں سریا فٹ ہو چکا۔ تمہاری شہدی حرکتوں اور اشاروں سے اب یہ کندھا نہیں اترنے والا۔اب کی بار اپنا گند تمہیں خود ہی صاف کرنا پڑے گا یا پھر عوام ہی تمہارے اوپر کیچریوال کا انتخابی نشان پھیریں گے۔خدا لگتی یہ ہے کہ حکومت کی حرکتیں دیکھ کے بھولے کی بات میں وزن تو لگتا ہے۔ویسے کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ حکومت بی بی آجکل ہے کدھر؟جو اسلام آباد اور راولپنڈی کو فوج کے حوالے کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔یعنی اس دفعہ پاؤں پڑ کے کندھا نکلوانے کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ نہ پتر نہ ہن شیر بن ۔شریف شریفوں کو اور لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ اب کی بار تمہارے مقابل تم سے بھی بڑے شریف ہیں۔بڑا بھائی ان کے کندھے میں سریا فٹ کروا گیا ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268686 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More