سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے شیطان اور نفس میں کیا فرق
ہے۔ اکثر لوگ اس میں تردد کا شکار ہیں، شیطان کا کام انسان کے دل میں صرف
وسوسے ڈالنا ہے لیکن اگر ایک گناہ پر بار بار دل میں کچھ وسوسے آ رہے ہوں
تووہ نفس ہے، مثلاً شیطان صرف دل میں وسوسہ ڈال دیتا ہےکہ فلاں کام کرو
لیکن جب انسان زیادہ دھیان نہیں دیتا تو وہ فوراً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر
دل میں بار بار ہی وسوسہ ہو رہا ہو تو وہ نفس ہے۔ یعنی شیطان صرف راستہ
بتاتا ہے اس راستے پر لے جانے والا نفس ہوتا ہے۔ انسانی وجود کے تین حصے
ہیں جسم ، روح اور نفس، ، نفس مختلف کرداروں میں ہمارے پورے وجود پر حاوی
ہو جاتاہے، اور ہمارے جسمانی وجود کوان کرداروں کے ذریعے استعمال کرتا ہے،
نفس کے کرداروں میں تقریباً ،حرص ، حسد ، شہوت،غیبت،جھوٹ اور کینہ نمایاں
ہیں۔ یہ نفس کے وہ کردار ہیں جو انسان کو تباہی کی دلدل میں گرا دیتے
ہیں۔قرآن پاک میں 3 طرح کے نفس کا ذکر آیا ہے۔
1)نفس الامارہ، "إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ ،بیشک نفس برائی
پر ابھارنے والا ہی ہے‘‘ یہ نفس کی وہ قسم ہے جس میں انسان گناہ کو گناہ
نہیں سمجھتا اور اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی، پہلے یہ نفس انسان کو برائی کی
دعوت دیتا ہے اور انسان اپنی مرضی اور خوشی سے یہ دعوت قبول کرتا ہے اور
نفسانی کرداروں کو اپنے اوپر خود ہی حاوی کر لیتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو
آج کل میں بہت لوگ نفس کی اس قسم کو بخوشی قبول کر تے ہیں اور نفس کی بجائے
دل کا نام دیتے ہیں۔ بقول ان کے ہر وہ کام کرنا مناسب ہے جس سے آپ کے دل کی
خواہش پوری ہو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھیں اپنے وجود کو نفس الامارہ کی
نگرامی دے دیا ہے۔
(2)نفس کی دوسری قسم نفس الا لوامہ ہے۔ "وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ
اللَّوَّامَةِ ’’وہ نفس جو ملامت کرنے والا ہو" نفس کی یہ قسم انسان کو بار
بار ملامت کرتی ہے، پہلے یہ نفس کوگناہ کرنے پر راضی کرتا ہے لیکن گناہ
کرنے کے بعد احساسِ جرم کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر وہ گناہ جو اس سے سرزد ہوا
چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ہر نفس کے درمیان جنگ لڑتا ہے۔ کبھی وہ گناہ
کرتا ہے اور کبھی گناہ سے دور ہنے لگتا ہے۔
(3)نفس کی تیسری اور آخری قسم نفس الامطمئنہ ہے‘‘يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ
الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً’’اے
اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح وہ تجھ سے خوش اور راضی
ہو جائے گا۔" یہ نفس کی وہ قسم ہے جو ایک کامل مومن میں ہونی چاہیے یہاں
پرانسان اپنی ہر رضا اور مرضی اللہ کی رضا بنا لیتا ہے، یہ وہ نفس ہے جو
ریاضت و مجاہدت کرکے اپنی بری عادات اور اخلاقِ رذیلہ کو دور کرتا ہے۔
اطاعت حق اور ذکرِ اللہ اس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت بن جاتی ہے۔
’’لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف‘‘یعنی نفس کا پہلا مقام بھی اپنے رب کے پاس تھا
اور اب جب خود کو پوری طرح اللہ کے سپرد کر لیا تو اللہ نفس کو یاد دلاتا
ہے کہ اپنے پہلے مقام کی طرف لوٹ جاؤ۔
المختصر بندے کا اللہ سے پہلا وصال اپنے نفس کو چھوڑ دینا ہے اور پہلا فراق
اپنے نفس کا ہو جانا ہے۔
اللہ ہم سب کو اپنے نفس کے خلاف لڑنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین |