بنگلہ دیش جغرافیائی طور پر بڑی
آبادی اور تباہ کن غربت کے ساتھ ایسے محل وقوع پر واقع ہے جہاں تباہی ہر
وقت منہ کھولے کھڑی رہتی ہے۔ جہاں پر مختلف قسم کے مسائل، مشکلات اور
مصیبتیں ہر سال آتی ہیں جن میں سیلاب، دریائی ٹوٹ پھوٹ، گردباد (سائیکلون)
اور ٹارناڈو(سمندری طوفان) شامل ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس کو شدید نوعیت کے
زلزلوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں
تقریباً 230 چھوٹے بڑے دریا موجود ہیں۔ ان دریاؤں نے ملک کو چار حصوں میں
تقسیم کیا ہوا ہے جن میں دریائے رہما پترا ڈیلٹائی علاقہ، دریائے گنگا کا
ڈیلٹائی علاقہ، دریائے میگنا کا ڈیلٹائی علاقہ اور جنوبی مشرقی پہاڑی
سلسلوں کا علاقہ شامل ہیں۔ بنگلہ دیش کا کل رقبہ 144,000 مربع کلو میٹر ہے
جس میں سے 25000 مربع کلو میٹر علاقہ دلدلی اور جھیلوں پر مشتمل ہے جہاں پر
تھوڑی سے بارش سے بھی پانی کھڑا ہو جاتا ہے جو فصلوں، مچھلیوں اور دیگر
اثاثوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پانی کی کل مقدار میں صرف 8 فیصد پانی ملک کے
اندر سے آتا ہے جبکہ 92 فیصد پانی اوپر کی طرف سے بھارت سے آتا ہے۔ اس ملک
کے کل قدرتی پانی کا مکمل انحصار بھارت پر ہے اور اس پانی پر بھارت کا مکمل
کنٹرول ہے کیونکہ اس پانی کا سارے کا سارے منبع بھارت میں ہے۔ ’’تیستا دریا‘‘
کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اور متنازع ہے جسے حل کرپانا اگر
ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ملک مشترکہ طور پر
54دریاؤں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ ہر دریا کے معاملے میں بھارت
اپنے مفادات کے حوالے سے بددیانتی کا مظاہرہ کرتا ہے حالانکہ 1972ء میں اس
مسئلے کے حل کے لئے جوائنٹ ریور کمیشن تشکیل پایا تھا مگر 42سال کے طویل
عرصے کے دوران محض ایک 30سالہ معاہدہ تیستا پانی کے مسئلے کے حل کے لئے
پایہ تکمیل کو پہنچا۔ واضح رہے کہ ہمالیاتی ریاست سکم پر بھارت نے 1975ء
میں ناجائز قبضہ کرلیا تھا۔ سکم سے ہی دریائے تیستا شروع ہوتا ہے اور
بھارتی صوبے مغربی بنگال کے شمالی حصے سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش میں داخل ہو
جاتا ہے۔ جہاں 45کلو میٹر پر محیط رقبے کو سیراب کرنے کے بعد دریائے
’’برہما پتر‘‘ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ
دونوں ملکوں کے مابین 1983ء میں عبوری دریائی پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے
پایا تھا جس کے تحت بھارت نے 39فیصد پانی لیا جبکہ بنگلہ دیش کو محض 36فیصد
پر ٹرخا دیا گیا۔ البتہ 2011ء میں دہلی سرکار نے وعدہ کیا کہ پانی کی تقسیم
کے معاہدے پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے مابین برابر تقسیم کیا
جائیگا ۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بھارتی کٹھ پتلی جیسا کردار ادا کرنے والی حسینہ
واجد کی عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیش کے مفادات بھارت کو فروخت کر دیئے
ہیں۔ پانی کی شراکت جیسے معاملات کے ضمن میں تیستا دریا اس قابل ذکر مثال
ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش(سی پی بی)،
بنگلہ دیش سماج تانترک دل(بی ایس ڈی)اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی)
نے بنگلہ دیش کا پانی چوری کرنے پر لانگ مارچوں، ریلیوں اور بھرپور احتجاج
کے ذریعے اپناردعمل واضح کردیا ہے۔ بھارت کی طرف سے تیستا دریا کا پانی
اپنے خشک علاقے کی طرف موڑنے کا مقصد بنگلہ دیش کی زرعی زمین کو صحرا میں
تبدیل کردینا ہے۔ یہ ہے وہ زمینی حقیقت جس کے تحت ایک حقیقی دشمن بنگلہ
دیشی قوم کے ساتھ آبی جارحیت کررہا ہے جس کی حسینہ واجد کی شکل میں قیادت
دشمن کی جھولی میں بیٹھی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں ہے بھارت بنگلہ دیش سرحدی
علاقوں میں بھارتی تسلسل کے ساتھ غریب بنگلہ دیشی شہریوں کو شہید کررہے ہیں
لیکن حسینہ واجد اور اس کی عوامی لیگی حکومت ایسی ہلاکتوں پر نرم رویہ اپنا
کر محب وطن بنگلہ دیشیوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہیں۔ تیستا دریا تنازع
کی وجہ سے بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات بھڑک رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے کل رقبے میں سے ایک تہائی علاقے پر تقریباً 35 ملین لوگ براہ
راست دریائے گنگا اپنے اپنے گزر بسر کیلئے انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے پانی کا
مہیا ہونا ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ بھارت کی طرف سے دریائے
گنگا کے پانی کے بہاؤ کو موڑنا اور نتیجتاً پانی میں کمی سے بنگلہ دیش میں
ماہی گیری کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح یہ پانی اپنے ساتھ بہت زیادہ
نمکیات لے کر آتا ہے جو کہ زراعت پر بُرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور دریا کی
ہائیڈراک خصوصیات کو بدل دیتا ہے اور ڈیلٹا کے ماحولیاتی نظام میں تبدیل
پیدا کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ صحت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اور اس کے سب
سے شدید اثرات جنوری سے مئی کے دوران خشک موسم میں محسوس کئے جاتے ہیں۔
دریا میں پانی کی کمی سے ماحول پر حیران کن طور پر بدترین اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔ پانی کی کمی کی بدولت زمین میں سیم اور تھور کے اثرات آ جاتے ہیں اور
یہ اثرات 280 کلو میٹر کے رقبے پر پھیل جاتے ہیں۔ یہ سیم و تھور زرخیز مین
کو بنجر بنا دیتے ہیں۔ فصلوں اور پودوں کی پیداوار میں رکاوٹ بنتے ہیں اور
اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود درختوں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا کے بڑے
جنگلات سندر بن اور منگروو کے جنگلات میں سالانہ 20 ملین ڈالر کی لکڑی ضائع
ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ آبپاشی متاثر ہوتی ہے جبکہ ماہی گیری بنگلہ دیش کا
اہم پیشہ ہے۔ پانی کی کمی ماہی گیری کو تباہ کر دیتی ہے۔
پانی کی کمی سے بنگلہ دیش کی معیشت پر بھی نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش جائنٹ ریور کمیشن کے مطابق 1976ء سے 1993ء کے دوران پانی کی کمی
کی بدولت زراعت اور ماہی گیری کے شعبے کو 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان تمام ماحولیاتی اور معاشی اثرات کا بنگلہ دیشی عوام کی زندگیوں پر براہ
راست اثر پڑا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں پر جن کی زندگیوں کا انحصار دریائے گنگا
کے پانی پر ہے۔ 1970ء سے اب تک تقریباً 20 لاکھ بنگلہ دیشی باشندے بھارت کے
علاقے آسام اور مغربی بنگال میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں
لوگوں کی نقل مکانی سے نسلی تعصب جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ 1980ء میں
آسام میں تقریباً4 ہزار افراد کو محض اسی بناء پر قتل کردیا گیا اور یہ
کشیدگی آج تک بدستور جاری ہے۔ |