موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تو عینِ ذات می نگری و تبسمی
سن 7نبویؐ میں قریش قبائل نے متفقہ طور پر ایک تحریری معاہدہ کیا جس کی ایک
کاپی اندرونِ کعبہ بھی آویزاں کر دی گئی۔ یہ معاہدہ سوشل بائیکاٹ تھا کہ نہ
کوئی شخص بنو ہاشم سے میل جول رکھے گا، نہ نکاح اور رشتہ داری کے تعلقات
رکھے گا۔یہاں تک کہ بنو ہاشم رسول ؐ اللہ کو (نعوذباللہ) قتل کے لیے ان کے
حوالے کر دیں۔ اس معاہدے کے نتیجہ میں حضرت محمد ﷺ، بنو ہاشم اور مظلوم
مسلمان مسلسل تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ بھوک اور پیاس کی وجہ
سے معصوم بچے بلبلاتے رہے۔ اور سنگ دل کفار بچوں کے بلبلانے کی آوازیں سن
کر خوش ہوتے رہے۔ سخت امتحان کے ان تین سالوں میں مسلمانوں نے استقامت کا
بھر پور مظاہرہ کیا، درختوں کے پتے کھا کر زندگی بسر کی۔ تین سال بعد سن
10نبویؐ میں آپ ؐ اور مظلوم مسلمان اس حصار سے باہر نکلے۔ ابھی چند روز ہی
گزرے تھے کہ آپؐ کے شفیق چچا حضرت ابو طالب کا انتقال ہو گیا اور پھر تین
یا پانچ روز بعد آپؐ ہمدم و جا نثار بیوی حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔
اسلامی تاریخ میں اس سال کو ’’عام الحزن ‘‘ یعنی ’’غم کا سال‘‘ کہا جاتا ہے۔
شفیق چچا اور غمگسار بیوی کو کھونے کے بعد آخر آپ ؐ نے قریش سے تنگ آ کر
شوال سن 10 نبویؐ میں طائف کا قصد فرمایا کہ شاید یہاں کے باشندے اسلام
قبول کر کے اللہ کی ہدایت قبول کریں اور دین کے حامی ہوں۔ لیکن طائف کی
وادی میں بھی ظلم و الم کی ایک سیاح تاریخ لکھی گئی۔ طائف کی وادی میں رسول
ؐ سے جو گستاخانہ سلوک کیا گیا، اس کا ذکر کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ان سخت ترین آزمائشوں اور امتحانات کے مراحل کے بعد اللہ رب العزت نے رحمت
العالمین حضرت محمد ﷺ کو عظمت و رفعت کی وہ معراج نصیب فرمائی جس کے حقدار
صرف آپ ؐہی تھے۔ جو روزِ ازل سے آپؐ ہی کا اعزاز اور مقدر تھی۔پیر محمد کرم
شاہ الازہری لکھتے ہیں، ’’اللہ جل مجدہ کے عبدِ منیب اور حبیبِ لبیب حضرت
محمد ﷺ کے جو آنسو طائف کی زمین پر ٹپکے، خون کے جو معطر قطرے گلشنِ اسلام
کی آبیاری کے لیے جسم اطہر سے بہے، شان، کریمی نے انہیں موتی سمجھ کر چن
لیا اور دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کیا اُٹھے کہ قدرت کی بندہ نوازیوں نے
روشن مستقبل کی قلید اُن مبارک ہاتھوں میں تھما دی، آخر وہ مبارک رات (شبِ
معراج ) آئی جبکہ دستِ قدرت نے اپنے مادی، معنوی اور روحانی خزانوں کے منہ
کھول دئیے، نورذات پر صفات کے جو پردے پڑے تھے، ایک ایک کر کے اُٹھنے لگے،
بیکراں مسافتیں سمٹتی گئیں اور عبد کاملؐ حریم قدس میں ’’دنافتدلی‘‘ کی
منزلیں طے کرتا ہوا قرب و حضوری کے اس مقام رفیع پر فائز کر دیا گیا جس کی
تعبیر فرمانِ قدرت نے ’’فکان قاب قوسین اوادنی‘‘کے کلمات سے ادا فرمائی۔ اس
سے مزید قرب کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اس قرب خاص کے بیان کے لیے اس سے
دل نشین کوئی اسلوب بیان اختیار نہیں کیا جاسکتا‘‘۔(ضیاء النبیؐ 479/2)
سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے (حضرت محمد ﷺ)کو رات کے ایک
قلیل حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک۔ بابرکت بنا دیا ہے ہم نے اس کے
گردو نواح کو تاکہ ہم دکھائیں ان کو اپنی قدرت کی نشانیاں۔ بے شک وہی ہے،
سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا‘‘۔ محدثین و سیرت نگاروں کی اصطلاح
میں مسجدِ حرام سے مسجدِاقصیٰ تک کی سیر کو ’’اسراء‘‘ اور مسجدِ اقصیٰ سے
سدرۃ المنتہیٰ تک کی سیر کو ’’معراج‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتاہے۔
’’معراج‘‘ کے معنی’’ سیڑھی ‘‘ کے ہیں کیونکہ مسجدِ اقصیٰ سے آگے کے سفر کے
لیے امام الانبیاء ﷺ کے لیے جنت سے سیڑھی لائی گئی جس کے ذریعے رسولؐ اللہ
آسمان پر چڑھے۔’’اسرا‘‘ کے معنی ’’رات کو چلانے یا لے جانے‘‘ کے ہیں ،
چونکہ نبی پاک ﷺ کا فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک یہ معجزاتی سفر رات کو ہوا
تھا اس لیے اسے اسراء سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآنِ مجید میں بھی اسی لفظ سے
تعبیر کیا گیا ہے اور ’’معراج ‘‘ کو ’’عروج‘‘ سے، جس کے معنی اوپر چڑھنے کے
ہیں۔ چونکہ احادیث میں رسولؐ اللہ سے ’’عروج بی‘‘ مجھے اور چڑھایا گیا،
مروی ہے، اس لیے اسے معراج سے تعبیر کیا جاتاہے۔
یہ سفر مبارک کب پیش آیا اس بارے میں سید سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرت النبی
ﷺ (235/3)میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ سفر مبارک کس ماہ کی کس تاریخ کو پیش آیا،
اس بارے میں محدثین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں تاہم ابنِ قتیبہ
دینوری اور علامہ ابن عبد البر نے ماہ رجب کی تعیین کی ہے، متاخرین میں
امام رافعی اور امام نووی نے اس کو زاجح قرار دیا ہے، جبکہ محدث عبد الغنی
مقدسی نے رجب کی27ویں شب کی تصریح کی ہے۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں کہ لوگوں
کا اسی پر عمل ہے، جبکہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہی قوی ترین روایت
ہے۔معراج بیداری کی حالت میں ہوئی یا کوئی خواب تھا؟ اس بارے میں قاضی
عیاض’’ الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ‘‘ میں بیان فرماتے ہیں، ’’سلف صالحین
اور امت مسلمہ کی غالب اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ معجزاتی سفر جسم مبارک
کے ساتھ حالت بے داری میں ہوا اور یہی قول حق ہے۔ ‘‘
مفسرین (ابنِ جریر طبری سے امام رازی تک نے)درج ذیل دلائل پیش کیے ہیں:۔
۔۔۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے، ’’پاک ہے وہ ذات جو (شب معراج میں) لے
گیا اپنے بندے کو‘‘۔بندہ یا عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعہ پر
ہوتا ہے، تنہا روح کو عبد اور بندہ نہیں کہتے۔
۔۔۔ واقعات معراج میں بیان کیا گیا ہے کہ آپؐ براق پر سوار ہوئے، دودھ کا
پیالہ نوش فرمایا، سواری پر سوار ہونا، پینا یہ تمام جسم کے خواص ہیں لہذہ
ثابت ہوتا ہے کہ یہ معراج جسمانی تھی۔
۔۔۔ اگر واقع معراج خواب کا معاملہ ہوتا تو کفار اس کی تکذیب کیوں کرتے؟
انسان تو نجانے خواب میں کیا کیا دیکھتا ہے، محال سے محال شے بھی اسے عالم
خواب میں واقعہ بن کر نظر آتی ہے۔
۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ہم نے اس
مشاہدہ معراج کو لوگوں کے لیے معیار آزمائش بنایاہے‘‘۔اگر یہ عام خواب ہوتا
تو یہ آزمائش ایمان کیا چیز تھی اور اس پر ایمان لانا کیا مشکل تھا؟
مزید یہ کہ ایلیا(بیت المقدس)کے سب سے بڑے عیسائی عالم اور پادری ہرقل شاہ
روم کے دربار میں اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس رات کے
واقعے سے واقف ہوں، میں بیت المقدس کے دروازے بند کرنے پر مامور تھا۔ ایک
دروازہ کوشش بسیار کے باوجود بند نہ ہو سکا۔ اسے شاید اللہ تعالیٰ نے اس
لیے بند ہونے سے روکا رکھا کہ کوئی نبی یہاں آنے والے تھے اور پھر بیان کیا
کہ اس شب رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری چٹان کے پاس مخصوص مقام پر باندھی اور
یہاں نماز ادا فرمائی، اس کے بعد دیگر تفصیلات بیان کیں۔
روایت کے مطابق ایک شب نبی اکرم ﷺ حضرت ام بانیؓ کے مکان میں بستر استراحت
پر آرام فرما تھے، نیم خوابی کی حالت تھی کہ جبرائیل امین ؑ حاضر ہوئے، ان
کے ہمراہ اور بھی فرشتے تھے، حضرت جبرائیل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کو جگایا اور
مسجد حرام کی جانب لے گئے، وہاں جا کر حطیم میں آپ ؐ لیٹ گئے، جبرائیل امین
ؑ اور میکائیل ؑ نے آ کر آپ ؐ کو جگایا اور آپؐ کو چاہ زم زم پر لے گئے،
انہوں نے آپ ؐ کا سینہ انور چاک کیا، قلب اطہر کو نکال کر آب زم زم سے
دھویا، ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا، اسے آپ
ؐ کے قلب اطہر میں رکھ کر سینے کو ٹھیک کر دیا گیا، آپ ؐ کے دونوں شانوں کے
درمیان مہرِ نبوت لگائی گئی۔ بعد ازاں براق لایا گیا، جبرائیل ؑ اور
میکائیل ؑ آپؐ کے ہم رکاب تھے۔ اس شان کے ساتھ امام الانبیاء حضرت محمدﷺ
سفر معراج پر روانہ ہوئے۔ براق کی سبک رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں نگاہ
پڑتی تھی، وہاں یہ قدم رکھتا تھا۔ حضوراکرم ﷺ اس پر سوار ہو کر بیت المقدس
آئے، یہاں انبیائے سابقین ؑ آپ ﷺ کے استقبال کے لیے چشم براہ تھے۔ تمام
انبیاء اکرام نے آپ ؐ کی امامت و سیادت، عظمت و رفعت اور ختم نبوت کا ایک
واضح اشارہ تھا۔ نیز اس طرح جو ارواح انبیاء سے عہد لیا گیا تھا کہ ’’تم
میرے محبوب پر ضرور ایمان لانااور ضرور ان کی مدد کرنا‘‘ کی تکمیل ہوئی۔
’’اسراء و معراج‘‘ کے اس معجزاتی سفر نے جہاں سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ کی
عظمت و رفعت پر مہر تصدیق ثبت کی، وہیں اس عظیم واقعے نے تسخیر کائنات کے
مقفل دروازے کو کھولنے کی ابتداء کی۔ بعد ازاں انسان نے تحقیق و جستجو کے
بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کو تلاش سفر کیا۔ معراج
کے اس تاریخ ساز سفر کی حقیقت یہ ہے کہ انتہائی قلیل اور مختصر وقفے میں
خالق کائنات، فخرِ دو عالم، سرکار دو جہاں، امام الانبیاء، خاتم النبیین،
سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کو مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور جملہ سماوی
کائنات کی بے شمار وسعتوں کے اس پار ’’قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ کے مقامات بلند
تک لے گیا اور فرش زمیں سے عرش بریں تک کے سفر معراج سے آپ ﷺ کائنات ارضی
پر جلوہ افروز ہوگئے۔
سدرۃ المنتہی پر تین چیزیں نبی پاک ﷺ کو تحفہ میں دی گئیں۔
۔۔۔ پانچ نمازیں۔
۔۔۔ سورۃ بقرہ کی آخری آیات۔
۔۔۔ آپؐ کی اُمت میں سے ہر اس شخص کے کبیرہ گناہ بھی معاف کر دئیے گئے جس
نے اللہ کے ساتھ کسی نوع کا شرک نہ کیا ہو۔
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ﷺسے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
عشق کی ایک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں |