کراچی کے ایک اخبار میں شاہراہ
فیصل پر نصب ہونے والے خفیہ کیمروں کی تصویر شائع کی ہے۔ جس کے بعد یہ
کیمرے اب خفیہ کیمرے نہیں رہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے لاہور حملوں کے بعد
ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے میڈیا کے رول کی تعریف کی اور کہا کہ
میڈیا نے جی ایچ کیو پر حملے کے بعد جو مثبت رول ادا کیا ہے وہ قابل تعریف
ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی شمولیت پر زور دیا۔ ان کا
کہنا تھا کہ عوام ایس ایم ایس، فون، تصویر، ویڈیو کے ذریعے ایس اطلاعات دیں۔
جو کسی بھی طرح غیر معمولی ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ صرف ایک ایسی اطلاع پر
جس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے یہاں تندور سے ایک گھر میں ۰۶ ، ۰۷ روٹیاں
جاتی ہیں۔ لیکن وہاں بندہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ہم نے ایک بڑے دہشت گرد گروپ
کا سراغ لگا لیا۔ رحمان ملک کے اس انکشاف کے بعد تندور والوں کا کیا حشر
ہوگا۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا پر جو
کچھ کہا جارہا ہے یا دکھایا جارہا ہے وہ صحیح ہے۔ کیا خون آلودہ لاشیں، جلے
ہوئے ہاتھ پاﺅں، دہشت گرد کی کٹی پھٹی لاشیں، یا انسانی جسموں کے چیتھڑے،
میڈیا پر دکھانا ضروری ہیں۔ کیا میڈیا پر ہونی والی نان ایشوز کی بحثیں،
چیختی ہوئی اینکر پرسن، اور اپنے مؤقف کے الفاظ دوسروں کے منہ میں ڈالنے سے
قوم کی کوئی خدمت ہو رہی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ضروری ہے۔ آخر میڈیا کی کیا ذمہ
داری ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ اور لڑائی میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن
پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ
اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ایک نجی ٹی وی
چینل کے مذاکرے میں اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی، خاتون وزیر کی گفتگو کے
دوران جو زبان استعمال کی گئی۔ وہ گھروں میں ٹی وی دیکھنے والی خواتین کے
لئے ایک صدمے سے کم نہیں تھا۔ بیڈ روم اور ہیرا منڈی کے تذکرے اب گھروں پر
بچوں پر کیا اثرات مرتب کریں گے۔
حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا
ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی
اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جما کر
اسے کچھ سمجھا رہی ہیں۔ اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند
کرنے کی درخواست اور جواباً انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود
ہے۔
ممبئی حملوں کے بعد ہمارے میڈیا نے بھارت کے کام کو آسان کردیا۔ انوسٹیگیشن
کے نام پر جو کچھ میڈیا نے دکھایا اس نے پاکستانوں کے سر شرم سے جھکا دئیے
بھارت کشمیر میں جو کچھ کررہا ہے۔ اس پر بھارتی میڈیا مجرمانہ طور پر خاموش
ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنے ہی گھر کو بدنام کئے جارہے ہیں۔ کہنے والے کہتے
ہیں کہ آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ
کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکر کسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتے ہیں
کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔
میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔ صدرمملکت، چیف جسٹس آف پاکستان
سے لیکر نتھو قصائی تک کوئی بھی آپ کی “اعلیٰ پرفارمنس“ کا نشانہ بن سکتا
ہے۔ آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے
بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔ روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمان
شامی اس صورتحال کو ایک طوفان بدتمیزی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہو رہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔ جو چاہے
جس کو مرضی گالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیا ہے۔ عارف نظامی
کہتے ہیں جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب
تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائے تو یقیناً معیار نیچے آئے گا۔ پاکستان
میں پہلے پرائم ٹائم میں ڈرامے اور کامیڈی شو دیکھے جاتے تھے۔ اب لوگ
انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹاک شو دیکھتے ہیں ۔
صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات اکثر زور وشور سے کی جاتی ہے۔ لیکن
اس مسئلے پر کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اکثر میڈیا سے
شاکی نظر آتی ہے۔ بجلی کے مسئلے پر ایک وزیر نے پارلیمنٹ میں ایک اینکر
پرشن کو شٹ اپ کہا۔ کل وزیر داخلہ دہائی دے رہے تھے کہ ان کے متعلق جھوٹ
اڑائی ہے کہ وہ حملے کے بعد جی ایچ کیو نہیں گئے۔ پاکستان میں آج تک ہتک
عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس
پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف
پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہوا تھا جس میں اخبار کو
کروڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق
میں فیصلہ ہوگیا تھا۔ اب امریکہ میں امریکی سفیر حسین حقانی نے انگریزی
روزنامے دی نیشن پر ایک ارب روپے کے ہرجانے کا دعوی کیا ہے۔ ترقی یافتہ
معاشروں میں ہتک عزت کا قانون اور سول سوسائٹی ہی میڈیا اور صحافت کا کردار
بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا بڑی مشکل میں ہے وہ کیا کرے؟ |