دنیا میں دھماکے کرنے کا سہرا
اگر کسی کے سر ہے تو وہ الفریڈ نوبل ہیں۔ جو نوبل انعام کے بانی کہلاتے ہیں۔
الفریڈ سویڈن میں پیدا ہوئے ۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روس
میں گزارا۔ ڈائنامائٹ الفریڈ نوبل ہی نے ایجاد کیا تھا۔ جس کے طفیل ساری
دنیا میں دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ رواں سال 5 خواتین نے نوبل انعام جیت کر
نیا ریکارڈ قائم کر دیا جبکہ امریکا کی ایلینر اوسٹروم اقتصادیات کا نوبل
انعام جیت کر یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ اب تک ایک سال میں
تین خواتین کی جانب سے نوبل انعام جیتنے کا ریکارڈ 2004ء میں قائم ہوا تھا
جو رواں سال 5 خواتین کی جانب سے نوبل انعام جیتنے سے ٹوٹ گیا۔ گزشتہ ہفتے
نوبل انعام کمیٹی نے جرمن مصنف ہوٹا مویلر کو ادب، اسرائیل کی ادایوناتھ کو
کیمسٹری، آسٹریلوی امریکن ایلزبتھ بلیک برن اور امریکا کی کیرول گریڈر کو
مشترکہ طور پر طب کا نوبل انعام دیا۔ اس بار نوبل انعام کی خاص بات یہ ہے
کہ امریکی صدر براک اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے جس پر دنیا بھر
میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، عالمی رہنماؤں نے امید ظاہر کی ہے
کہ اوباما دنیا میں امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ایران نے اس
فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوبل انعام دینے کا فیصلہ وقت سے پہلے
اور جلد بازی میں کیا گیا۔ انعام دینے کا بہترین وقت وہ ہوتا جب عراق اور
افغانستان سے غیرملکی فوجیں نکل جاتیں اور امریکا فلسطینیوں کے حقوق کی
حمایت کرتا۔ کیوبا کا کہنا ہے کہ اوباما کو صرف وعدوں کی بنیاد پر انعام سے
نوازا گیا۔ دنیا کو درپیش مسائل وعدوں سے نہیں سنجیدہ عملی اقدامات سے حل
ہوں گے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ جب تک امریکا کی پالیساں
تبدیل نہ ہوں، یہ انعام فلسطینیوں کو آگے یا پیچھے نہیں لے جاسکتا۔ امریکی
صدر جن کے نامہ اعمال میں ابھی تک کوئی کریڈٹ نہیں ہیں۔ شاید خود بھی حیران
ہیں کہ انھیں یہ انعام کس بات پر دیا گیا ہے۔ ساری دنیا اس فیصلے پر دو
حصوں میں بٹ گئی ہے۔ روس، ایران، پاکستان، عراق، فلسطین اور لبنان میں عوام
نے فیصلے پر تنقید جبکہ اسرائیل، برطانیہ، جرمنی، فرانس، بھارت اور دیگر
ممالک میں فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ الفریڈ نوبل نے ڈائنا مائیٹ کے
علاوہ متعدد دوسری ایجادات بھی کی تھیں۔ اپنی زمینوں اور ڈائنامائٹ سے
کمائی گئی دولت کے باعث 1896ءمیں اپنے انتقال کے وقت نوبل کے اکاؤنٹ میں 90
لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔
الفریڈ نوبل نے موت سے قبل اس نے اپنی وصیت میں لکھ دیا تھا کہ اس کی یہ
دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے جنہوں نے
گزشتہ سال کے دوران میں طبیعات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں
کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔ پس اس وصیت کے تحت فوراً ایک فنڈ قائم کر دیا
گیا جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم کیا جانے
لگا۔ 1968ء سے نوبل انعام کے شعبوں میں معاشیات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
نوبل فنڈ کے بورڈ کے 6 ڈائریکٹر ہیں جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں
اور ان کا تعلق سویڈن یا ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔ نوبل
فنڈ میں ہر سال منافع میں اضافے کے ساتھ ساتھ انعام کی رقم بھی بڑھ رہی ہے۔
1948ء میں انعام یافتگان کو فی کس 32 ہزار ڈالر ملے تھے، جب کہ 1997 میں
یہی رقم بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔ نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ
کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 دسمبر 1901ء کو منعقد ہوئی تھی۔ تب سے یہ
تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے۔
طبیعات کا نوبل انعام "رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز" کی جانب سے اس شخص کو
دیا جاتا ہے جس نے طبیعات کے شعبے میں اہم ترین دریافت یا ایجاد کی ہو ۔
کیمیا کا نوبل انعام "رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز" کی جانب سے اس شخص کو
دیا جاتا ہے جس نے طبیعات کے شعبے میں اہم ترین دریافت یا بہتری کی ہو ۔
نوبل انعام برائے طب "کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ" کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا
ہے جس نے طب کے شعبے میں اہم ترین دریافت کی ہو ۔ ادب کا نوبل انعام "سوئیڈش
اکیڈمی " کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے ادب کے شعبے میں نمایاں
کام کیا ہو ۔ امن کا نوبل انعام "نارویجیئن نوبل کمیٹی" کی جانب سے اس شخص
کو دیا جاتا ہے جس نے اقوام کے درمیان دوستی، افواج کے خاتمے یا کمی اور
امن عمل تشکیل دینے یا اس میں اضافہ کرنے کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام
دی ہوں۔ اقتصادیات کا نوبل انعام اسے باضابطہ طور پر الفریڈ نوبل یادگاری
The Sveriges Riksbank Prize کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی سفارش نوبل نے نہیں
کی تھی۔ یہ انعام "رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز" دیتی ہے
اس بار امریکا کی ایلینور اوسٹروم اور اولیور ولیم سن نے معیشت کا نوبل
انعام مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ اس طرح ایلینور معیشت کے شعبہ میں نوبل
انعام جیتنے والی پہلی جبکہ رواں سال نوبل انعام حاصل کرنے والی پانچویں
خاتون ہیں۔ چھہتر سالہ ایلی نور اور ستتر سالہ ولیم سن کو معاشی بحران کے
خاتمے کیلئے خدمات پر نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ انعام کی چودہ ملین
ڈالرز کی رقم دونوں ماہرین معیشت میں مساوی طور پر تقسیم کی جائے گی۔
ایلینور انڈیانا یونیورسٹی کی پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں جبکہ وہ ایریزونا
یونیورسٹی کی بانی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ولیم سن کا تعلق کیلی فورنیا
یونیورسٹی سے ہے اقتصادیات کا نوبل پرائز دو امریکی ماہرین ایلینور اوسٹرم
اور اولیور ولیئمسن کو دیا گیا ہے۔ انیس سو اسی کے بعد سے اس انعام کو
امریکی چوبیس مرتبہ جیت چکے ہیں اور انیس سو اڑسٹھ میں اقتصادیات کے لیے
نوبل انعام شروع ہونے کے بعد سے محترمہ اوسٹرم یہ اعزاز حاصل کرنے والی
پہلی خاتون ہیں۔ محترمہ اوسٹرم نے کہا کہ “ہم اب نئے دور میں داخل ہو چکے
ہیں اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین عظیم سائنسی کارنامے کرنے
کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اقتصادیات کا نوبل انعام جیتنے والی پہلی خاتون ہونا
یقیناً اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز حاصل کرنے والی آخری عورت نہیں ہونگی“۔ رائل
سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے انہیں یہ ایوارڈ اس تحقیق کے لیے دیا ہے کہ کس
طرح جنگلات، دریاؤں اور گھاس کے میدانوں جیسے قدرتی وسائل کا استعمال کرنے
والے ان کی دیکھ بھال حکومت اور اور نجی کمپنیوں سے بہتر طریقے سے کر سکتے
ہیں۔ مسٹر ولیئمسن نے یہ تفتیش کی ہے کہ خام مال کی سپلائی اور تیاری جیسی
مارکٹ سرگرمیاں کیوں زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں اگر وہ ایک واحد فرم کے تحت
کی جائیں۔
ادب کے شعبے میں جرمن مصنفہ ہرٹا ملر نے سنہ 2009 کے لیے ادب کا نوبل انعام
حاصل کیا ہے۔ جرمن مصنفہ کو متاثر کن شاعری اور ناولز لکھنے پر نوبل انعام
کا حق دار قرار دیا گیا۔ ہرٹا مولر رومانیہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں اپنی
ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے مختصر کہانیوں کا مجموعہ۔ لو
لینڈ۔ لکھا جس پر رومانیہ میں پابندی لگا دی گئی تاہم اسے جرمنی میں بے
انتہا پسند کیا گیا۔ 1953 میں رومانیہ میں پیدا ہونے والی ہرٹا ملر رومانیہ
کے ڈکٹیٹر نکولائی چاؤشسکو کے دورِ اقتدار کے مشکل حالات کو پیش کرنے کے
لیے جانی جاتی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی نے ملر کے لیے نوبل انعام کا اعلان کرتے
ہوئے ان کی نثر کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی بھی تعریف کی ہے۔ ملر رومانیہ
کی جرمن اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں اور دوسری
جنگِ عظیم کے بعد ان کی والدہ کو سویت یونین میں ایک مزدور کیمپ میں بھیج
دیا گیا۔ ہرٹا ملر کو ستّر کی دہائی میں رومانیہ کی خفیہ پولیس سے تعاون نہ
کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور اس کے بعد سنہ 1987 میں
جرمنی منتقل ہوگئیں۔ جرمنی منتقل ہونے سے قبل سنہ 1982 میں جرمن زبان میں
لکھے گئے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جسے رومانیہ میں سنسر شپ
کا سامنا کرنا پڑا۔ ملر کی ابتدائی تحریریں تو ان کے ملک سے چوری چھپے باہر
لے جائی گئیں تاہم بعد میں آنے والے سالوں میں انہیں متعدد ادبی انعام ملے
جن میں سنہ 1998 میں ڈبلن میں دیا جانے والا امپیک ایوارڈ بھی شامل ہے۔
اس برس کیمسٹری میں نوبل اعزاز بھارتی نژاد امریکی سائنسداں وینکٹ رامن
رامکرشنن اور دیگر دو سائنسدانوں کو ملا ہے۔ ڈاکٹر راماکرشنن کی سربراہی
میں کام کرانے والی سائنسدانوں کی اس ٹیم کو رائبوسومز کے مطالعے پر یہ
انعام دیا گیا۔ رائبوسومز انسان کے جسم میں پروٹین بناتا ہے۔ امریکی شہری
ڈاکٹر راماکرشنن کو اسرائیلی خاتون سائنسدان ادا یونوتھ، اور امریکہ کے
تھومس سٹیز کے ساتھ اس اعزاز کے لیے متنخب کیا گیا ہے۔ بھارت میں پیدا ہوئے
راماکرشنن اس وقت برطانیہ کی کمیبریج یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ستاون سالہ
راما کرشنن کیمبریج یونیورسٹی کے ایم آر سی لیباریٹریز آف مالیکولر
بائیولوجی کے سٹرکچرل سٹیڈیز سیکشن کے چیف سائنسدان ہیں۔ تینوں سائنسدانوں
نے تھری ڈائمینشنل تصاویر کے ذریعے پوری دنیا کو سمجھایا کہ کس طرح
رائبوسومز الگ الگ کیمیکل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ نوبل اعزاز کمیٹی کا کہنا
ہے کہ ’ان سائنسدانوں نے سائنس کی دنیا میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ان
کے اس کام کی وجہ سے بہت ساری بیماریوں کا علاج اینٹی بائیٹک دوائیوں کے
ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ ادا یونوتھ اسرائیل کے وزمین انسٹیٹیوٹ میں سٹرکچرل
بائیولوجی کی پروفیسر ہیں اور کیمیائی سائنس کے شعبے میں نوبل پانے والی
چوتھی خاتون ہیں۔ تیسری سائنسدان تھومس سٹیز کا تعلق امریکہ کی ییل
یونیورسٹی سے ہے
امریکی صدر براک اوباما نے اس سال جنوری میں اقتدار سنبھالا تو پوری دنیا
کو ان سے بہت امیدیں وابتہ تھیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے دنیا کو تباہی
سے دوچار کیا تھا۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا
بحران ہو جس کا حل تلاش کرنے کا عزم براک اوباما نے نہ کیا ہو۔ لیکن اب تک
اوباما کے کارناموں میں سے کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر
انھیں دنیا میں امن کا سب سے بڑا اعزاز دیا جاتا۔ اب اگر انھیں یہ اعزاز دے
ہی دیا گیا ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی لاج رکھیں اور اپنے آپ
کو بجا طور پر اس اعزاز کا مستحق ثابت کردیں۔ امن کا یہ انعام شائد انھیں
اسی لئے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے سے باز رہیں۔ |