اسلام کا قانون مہر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مہرکاقانون اسلامی شریعت کے قانون نکاح کی ایک ذیلی دفعہ ہے۔قرآن مجید نے’’ مہر‘‘کالفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کی جگہ ’’اجور‘‘اور صدقات‘‘کے مترادفات استعمال کیے۔سورۃ نساء میں اﷲ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ’’۔۔۔ان کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کردیاگیاہے ،بشرطیکہ حصارنکاح میں ان کو محفوظ کرو،نہ یہ کہ آزادشہوت رانی کرنے لگو،پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤاس کے بدلے ان کے مہر بطور فرض اداکرو البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اﷲ تعالی علیم و دانا ہے۔‘‘(سورۃ نساء آیت24)۔اسی سورۃ میں ایک اور مقام پر فرمایا کہ ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض سمجھتے ہوئے)اداکرو،البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اسے تم مزے سے کھاسکتے ہو‘‘۔(سورۃ نساء آیت4)۔آگے چل کر پھر اسی سورۃ میں حکم دیا کہ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیرسامال ہی کیوں نہ دے دیاہو اس میں سے کچھ نہ واپس لینا،کیاتم اسے بہتا ن لگاکر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے ؟؟اور آخر تم اسے کس طرح لے لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔‘‘(سورۃ نساء آیات20.21)۔

ایک حدیث میں محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ ’’مہر وہ مال ہے جس کے عوض مرد کو عورت کے حقوق زوجیت حاصل ہوتے ہیں‘‘۔فقہا کے نزدیک مہر سے مراد وہ مال یا مالیت رکھنے والی چیز جو عقد نکاح کے بعد بیوی سے متمتع ہونے کے عوض بیوی کا حق ہو جاتا ہے اور اس حق کی ادائگی خاوند پر واجب ہوتی ہے۔مہر زوجہ کا حق شریعت ہے اورمنکوحہ کویہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ شوہر کو اپنے قریب آنے سے پہلے اپنے حق مہر کا تقاضا کرے اوراگر شوہر مہر ادانہیں کرتاتو عورت اسے اپنے پاس آنے سے روک سکتی ہے۔مہر کا تعین بوقت نکاح ضروری ہے لیکن اگر کسی وجہ سے مہر کا تعین نہیں کیاجا سکا تو بھی یہ ساقط نہیں ہو گا یعنی معاف نہیں ہوگااور مہر کا تعین نہ ہونے کی صورت میں عورت کی ددھیالی رشتہ دار خواتین مثلاََ دادی،چچی اور پھوپھی وغیرہ کے مقررکردہ مہر کی رقوم کی اوسط کے برابر اس کا حق مہر مقرر کیاجائے گا،ایسے مہر کو اصطلاح میں مہرمثل کہاجاتاہے۔مہر مثل ہر اس صورت میں دیا جائے گا جب مہر مقرر نہ کیاگیاہو یا مقرر کرنے سے انکار کیاگیاہویاکوئی حرام چیزبطور مہر مقرر کی گئی ہو یا کوئی بے قیمت چیز کو مہر مقرر کر دیا گیاہووغیرہ۔اگر کسی عورت کا حق مہر مقرر ہوااور رخصتی سے پہلے ہی جدائی ہو گئی اور زن و شو کو تخلیہ میسرنہ آسکاتو اس صورت میں بھی مہر معاف نہیں ہو گا اور مہر کی نصف کے برابر رقم اداکرنی ہو گی۔اور اگر مہر مقرر نہ کیاجاسکااور نکاح ہو گیااورپھر تخلیہ سے پہلے جدائی ہو گئی اور طلاق واقع ہو گئی تو بھی قرآن مجید کا حکم ہے کہ اس عورت کو کچھ نہ کچھ دیاجانا چاہیے ،اس کچھ نہ کچھ کو’’مہر متعہ‘‘کہتے ہیں۔قرآن مجید کا حکم ہے کہ’’تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو،اس صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ دینا ضروری ہے خوش حال آدمی اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ بھلے طریقے سے اس عورت کو پیش کرے یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے قبل طلاق دے دی ہو اورمہر مقرر ہو چکا ہو تو تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہو گا ،یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے(اور مہر نہ لے)یا وہ مرد جس کے ہاتھ میں نکاح کے معاملات ہوں وہ نرمی سے کام لے (اور پورامہردے دے)اور تم (مردحضرات)نرمی سے کام لو تو یہ تقوی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے ،آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو،تمہارے اعمال کو اﷲ تعالی دیکھ رہاہے‘‘۔(سورۃ بقرہ236,237)

مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدارمقررکرنے کے لیے امیرالمومنین حضرت عمر ؓ نے پابندی لگانا چاہی کیونکہ ان کے عہد میں ایک آدمی نے اپنی زوجہ کو بہت زیادہ مہر دے دیاتھا۔حضرت عمرؓنے جمعہ کے خطبہ میں حکم دیا کہ چارسو درہم سے زیادہ رقم کوئی بھی شخص بطور مہر اپنی زوجہ کو نہیں دے سکتا۔پچھلی صفوں میں ایک عورت کھڑی ہو گئی اور کہا کہ اے امیرالمومنین جب قرآن نے فرمایا ہے کہ تم جتنا مہر چاہو اپنی بیویوں کو دو تو آپ کیوں پابندی لگارہے ہیں؟؟حضرت عمر نے اگلی صفوں نے بیٹھے بزرگ اصحاب رسول ﷺسے پوچھا کہ میرا موقف درست ہے یا اس عورت کی بات صحیح ہے؟؟سب بزرگوں نے عورت کی بات تائید کی جس پر حضرت عمر نے اسی وقت ممبر پر کھڑے ہواپنا حکم واپس لے لیااور زیادہ سے زیادہ مہر کی رقم کی پابندی اٹھا لی۔پس زیادہ سے زیادہ مہر پر کوئی پابندی نہیں۔کم سے کم کی مقدار فقہا نے مقرر کی ہے بعض کے نزدیک دس درہم اور بعض کے نزدیک تین درہم یا کوئی ایسی چیز جس کی قیمت اس کے برابر ہووہ کم سے کم مقدار ہے جو بطور مہر مقرر کی جا سکتی ہے۔ ایسی چیزجس کی کوئی قیمت نہ ہو اس کو مہر مقرر نہیں کیا جا سکتا جیسے گندم کے ایک دانہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔مہراگرچہ عورت کی حیثیت کے مطابق دیا جاتا ہے لیکن ہماری رائے ہے کہ فی زمانہ کسی عورت کامہر ایک لاکھ روپے سے کم نہیں ہونا چاہیے تاہم خاندانی وجاہت،عمر،تعلیم اورمعاشرتی حیثیت کے مطابق اس سے کہیں زیادہ ضرور ہو سکتاہے۔

مہر کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے مہر مثل کی تفصیل بیان ہو چکی،مہر متعہ اس صورت میں دیاجاتاہے جب مہر مقررکیے بغیرنکاح ہو جائے اور پھر تخلیہ سے پہلے طلاق ہوجائے تب مہر متعہ دیاجائے گا جو کم سے کم تین کپڑوں پر مشتمل عورت کا درمیانے درجے کا پہناواہے اگر مرد صاحب استطاعت ہے تو مہر متعہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتاہے۔مہر مسمی اس مہر کو کہتے ہیں جو بوقت نکاح مقررہوجائے چنانچہ اگر نکاح کی تکمیل ہو گئی ہے اور زن و شوکوتخلیہ میسر آگیاہے تو مہر مسمی کی مکمل ادائگی کرنا ہو گی اور اگر تخلیہ سے پہلے جدائی واقع ہو گئی ہے تو نصف مہر مسمی کی ادائگی واجب ہو جائے گی۔مہر موجل اور مہر معجل دو اور قسمیں ہیں جو ادائیگی کی مدت سے تعلق رکھتی ہیں ،اگر ادائگی فوراََ کرنا طے ہو گیا ہو تویہ مہر معجل کہلائے گا اور ہم نے ایسے نکاح بھی دیکھے ہیں خطبہ نکاح اور دعا کے فوراََ بعد مہرکی رقم دلہن کے والد کے حوالے کر دی گئی۔اور اگر مہرکی ادائگی میں تاخیر طے ہو گئی اور کچھ مدت مل گئی تو یہ مہر مہر موجل کہلائے گا۔مہر مطلق وہ مہر ہے جس میں مدت کا کوئی تعین نہ کیا گیاہواور زوجہ چاہے تو اپنے قریب آنے سے پہلے ہی اس کا تقاضا کر سکتی ہے اور چاہے تو باہمی رضا مندی سے زوجین جب تک چاہیں اس معاملے کو طول دے سکتے ہیں۔اور اگر مہر کی رقم زیادہ ہو اور شوہر اس رقم کو ایک بارگی اداکرنے سے قاصر ہو تواسے شریعت نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ اقساط میں تھوڑا تھوڑا کر کے اس رقم کو اداکرے اس طرح کا مہر جو قسطوں میں اداکیاجائے ’’مہرمنجم‘‘کہلاتاہے۔

مہر کی بہت بڑی مقدار مقررکر لینے کے بعد یہ خیال کرنا ادائگی کبھی نہیں کریں گے غلط ہے۔اگر مہر ادانہ کیاگیاہواور شوہر فوت ہوجائے توترکے میں سے پہلے ایک یا ایک سے زائد بیویوں کا مہر اداکیا جائے گااور پھر باقی تر کہ ورثا میں تقسیم کیاجائے گا جس میں آٹھواں حصہ ایک زوجہ میں یا ایک سے زیادہ ہیں تو ان سب میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کر دیاجائے گا۔ہمارے ہاں دو غلط تصورات ہیں ایک توبتیس روپے آٹھ آنے مہر کی رقم جس کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ قانون نکاح کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے ،دوسرے یہ تصور عام ہے کہ مہر کی رقم طلاق کے وقت اداکی جانی چاہیے جو کہ غلط ہے۔شریعت اسلامیہ میں مہر معاف کروانے کی کوئی گنجائش نہیں ہاں زوجہ اپنی مرضی سے معاف کر دے یا وصول کر کے شوہر کو واپس کر دے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔طلاق یا خلع کی صورت میں یہ کوشش کرنا کہ دیا ہوا مال واپس مل جائے خواہ زبردستی ہی سہی بہت برا خیال اور گناہ کا ارادہ ہے۔شادی کے بعد پہلی رات زوجہ کوجو تحفہ دیا جاتاہے وہ مہر کے ضمن میں نہیں آتااس کے علاوہ بھی ساری عمر زوجہ اپنے شوہر کے مال میں جو کچھ بھی لیتی ہے ،کھاتی پیتی ہے ،پہنتی ہے یا شوہر سے لے کر کسی اور کو تحفہ یا ہدیہ دیتی ہے وہ بھی حق مہر کے ضمن میں نہیں آتا۔حق مہر کے لیے ضروری ہے کہ الگ سے وہ رقم زوجہ کے ہاتھ پر رکھی جائے خواہ اس پر کسی کو گواہ بھی بنالیاجائے اور پھر اس رقم پر شوہر کا کوئی حق تصرف باقی نہیں رہتا،وہ اپنی بیوی سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتا کہ حق مہر کی رقم کہاں خرچ کی ہے؟؟اور نہ ہی اسے حکم دینے کا اختیار رکھتا ہے کہ مہر کی رقم وہاں خرچ کرو ۔عورت اپنے حق مہر کی خود مالکن ہے جہاں چاہے خرچ کرے یا سنبھال کر رکھے اور جس مصرف میں چاہے اسے استعمال کرے اس ضمن میں وہ صرف خداکے ہاں جوابدہ ہے۔

حق مہر کے قانون سے بیوی کے شرف اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے،بعض معاملات میں عورت کو اپنا حق مہر خود بھی طے کرنے کی اجازت ہے ۔اس قانون سے عورت کی نسل اور اس کی عزت و احترام محفوظ ہو جاتے ہیں اور اسکی کفالتی ذمہ داریاں اسکے شوہر کو منتقل ہو جاتی ہیں ۔اسلامی شریعت نے حق مہر کے ذریعے عورت کا مستقبل محفوظ بنادیاہے اوراگر عورت چاہے تو حق مہر مکمل یا اسکا کچھ حصہ معاف کر کے شوہر کے دل میں اپنی جگہ بناسکتی ہے جس سے زوجین میں پیارو محبت میں اور اضافہ ہو جائے گااور مرد چاہے تو اسکے حق مہر سے کہیں بڑھ کر اس کو ادائگی کر دے جس سے بھی محبت اور پیار بڑھ جائیں گے ۔دنیاکے کسی دوسرے مذہب اور تہذیب نے عورت کی اتنی قدرومنزلت نہیں کی جتنی اسلام نے کی ہے بلکہ مغربی سیکولرتہذیب نے تو عورت کو گھرسے باہر نکال کر اور اسے معاشی ،سیاسی اورانتظامی میدانوں میں گھسیٹ کر عورت کو اسکے بنیادی جوہرنسوانیت سے بھی محروم کر دیاہے اور اسے آزادی کے نام پر محض لذت نفس کے حصول کی مشین بناکر رکھ چھوڑا ہے،جس کے باعث خاندانی نظام تباہی کے دہانے پرآن پڑاہے۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Islam ka Qanoon e Meher - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Islam ka Qanoon e Meher and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Islam ka Qanoon e Meher.