سلام: ایک مسنون عمل، اسلام کا بنیادی شعار

یہ معاشرے میں امن و سلامتی کے فروغ کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہے

سلام کے معنی و تعریف
لفظ سلام عربی زبان کا مصدر ہے، جو مصدری معنی ہونے کے علاوہ بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے متعدد معنی ہیں’ امن و عافیت، براء ت ، مُتَارکہ (ترک جنگ) یا صلح، میانہ روی و اعتدال، پختہ قسم کی گفتگو، کمال یعنی کامل و سلم ہونا، بقا، نجات، صحت، دعا اور درود، تبریک و تَحِیۃَّ یا کورنش اور ’’بس‘‘ یا ’’ بات ختم ہوئی‘‘ کے معنی میں۔ مؤخّر الذکر معنی دراصل خط و کتابت کے انداز سے مرتب ہوئے(خط کے آخر میں لکھتے تھے ’’ والسّلام ‘‘ اسی سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ بس اب بات ختم ہوئی)۔ عربی میں سلام کرنے یا نماز کے اختتام پر سلام کو تَسلِیمَۃ’‘ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ ۳۵ آیات میں تنکیر (سَلَام’‘) اور تعریف (اَلَّسلَامُ)دونوں شکلوں میں مختلف معنی کے لیے استعمال ہوا ہے۔’’اَلَّسلَامُ‘‘ اﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے اور اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جو باعث خیر و برکت ہے ۔ اس کے معنی ہیں ’’امن و سلامتی کا سر چشمہ یا ہرعیب و نقصان سے پاک‘‘۔(اردو دائرۂ معارفِ
اسلامیہ، جلد ۱۱، ص۱۲۲)

سلام کرنے کی ابتدا
تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام قوموں اور گروہوں میں ملاقات کے شروع میں ایک دوسرے کو جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرنے اور ایک دوسرے کو مسرور کرنے کے لیے مخصوص جملے ادا کیے جاتے تھے، اظہار مسرت و شادمانی کا یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ قبل از اسلام عربوں میں ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو دیکھتے ہی خیر سگالی کے طور پر دعائیہ کلمہ ادا کرنے کا رواج تھا۔ صحابی رسول ﷺعمران بن حصینؒ سے حدیث مروی ہے جسے سنن ابی داؤد نے نقل کیا ہے کہ ’’ہم لوگ اسلام سے قبل آپس میں ملاقات کے وقت ’اَنْعَمََ اﷲبِکَ عَیْنًا‘(اﷲ آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کرے)، یا پھر ’اَنْعِم ْصَبَا حًا‘ ( آپ کی صبح خوشگوار ہو) کہا کرتے تھے، جب ہم لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے تو ان الفاظ کے ادا کرنے کی مما نعت کردی گئی، اس کے بجائے ہمیں ’’اَلسًلامُ عَلَیْکُم ْ‘‘ کی تعلیم دی گئی‘‘۔ (سنن ابی داؤد)

سلام کا رواج دیگر اقوام اور ممالک میں ان کی ثقافت،تہذیب و تمدن، رسم ورواج اور زبان کے مطابق رائج ہے۔ انگریز وں کے صبح، شام و رات کے سلام الگ الگ ہیں یعنی صبح کے وقت (Good Morning) صبح بخیر یا اچھی صبح، شام کے وقت (Good Evening) شام بخیر یا اچھی شام اور رات کے وقت (Good Night)رات بخیر یا اچھی رات کہا جاتا ہے۔ہندو تہذیب میں ’’نمستے‘‘ یا ’’ رام رام‘‘، ’’پر نام‘‘ کہا جاتا
ہے۔لکھنؤ کی تہذیب میں ’’آداب ‘‘ یا ’’آداب عرض‘‘ ، ’’ــتسلیم یا ’تسلیمات ‘‘، بھی کہا جاتا ہے۔

سلام کی ابتدا کے بارے میں صحیح بخاری میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اﷲ تعا لیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مکمل طور پر ان کی صورت میں پیدا کیا ان کی لمبائی تقریباً ساٹھ ہاتھ یعنی تیس میٹر تھی۔ جب (اﷲ تعالیٰ) انہیں (حضرت آدم علیہ السلام ) کو پیدا کرچکا تو فرمایا کہ ’جاؤ ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا یہ کیا جواب دیتے ہیں۔ کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا‘‘۔ حضرت آدم علیہ السلام نے( فرشتوں سے جاکر) کہا ! ’’السَّلَامُ عَلَیکُم ‘‘ ، فرشتوں نے جواب دیا۔ ’وعلیکم السّلام و رحمتہ اﷲ‘ انہوں نے حضرت آدم علیہ اسلام پر’ رحمتہ اﷲ‘ کا اضافہ کیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا حضرت آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ ’’السَّلَامُ عَلَیکُم ‘‘ ایک مکمل کلمہ ہے جس سے باہمی مسرت و تعلق ، اکرام و خیراندیشی کا سچا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا دعائیہ کلمہ ہے جس کا مطلب ہے’تم پر سلامتی ہو یا تم سلامت رہو‘‘ ، معارِف الحدیث میں السلام علیکم کے معنی ’’اﷲ تم کو ہر طرح کی سلامتی نصیب فرمائے‘‘ بیان کیے گئے ہیں۔

سلام کا احسن طریقہ
سلام کا احسن طریقہ وہ ہے جو ہمیں احادیث مبارکہ سے ملتا ہے۔ اس سے آسان، بہتر اور افضل کلمہ سلام کرنے کا کوئی اور نہیں۔جب ایک شخص دوسرے سے کہے ’’السَّلَامُ عَلَیکُم ‘‘ (تم پر سلامتی ہو) تو جواب میں’’ وَعَلَیکُم السَّلَام ُ وَرَحمَۃُ اﷲ‘‘ (تم پر سلامتی اور اﷲ کی رحمت ہو)۔ اگر کوئی شخص السلام علیکم کے ساتھ ’’و رحمۃُ اﷲ ‘‘ کا اضافہ کرے اور کہے’’ السَّلَامُ عَلَیکُم ُ وَرَحمَۃُ اﷲ‘‘ (تم پر سلامتی اور اﷲ کی رحمت ہو) تو جواب دینے والا شخص وعلیکم السلام کے ساتھ ’’وَبَرَکَاتُہ‘ (اور اﷲ کی بر کتیں بھی تم پر ہوں) کا اضافہ کرتے ہوئے اس طرح جواب دے ’’ وَعَلَیکُم السَّلَام ُ وَرَحمَۃُ ﷲ’وَبَرَکَاتُہ‘‘(تم پر سلامتی اور اﷲ کی رحمت اور اﷲ کی بر کتیں بھی تم پر ہوں)۔علماء نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ کلام مجید میں اﷲ تعا لیٰ نے سلام کے جواب میں بہتر کلمے سے جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔ سورۃ النساء (۴)کی آیت ۸۶میں کہا گیا ہے ترجمہ: اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو تم اس (سلام) سے اچھے الفاظ میں سلام کرو یا ویسے ہی الفاظ کہدو، بلاشبہ اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لیں گے‘ ۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے ایک صحابی نے کہا ’’السَّلَامُ عَلَیکُم ‘‘تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا ’’ وَعَلَیکُم السَّلَام ُ وَرَحمَۃُ اﷲ‘‘ اور جب ایک صحابی نے ’’ السَّلَامُ عَلَیکُم ُ وَرَحمَۃُ اﷲ‘‘کہا تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے جواب میں ’’ وَعَلَیکُم السَّلَام ُ وَرَحمَۃُ اﷲوَبَرَکَاتُہ‘‘ فرمایا؛ لیکن جب ایک شخص نے کہا ’’ السَّلَامُ عَلَیکُم ُ وَرَحمَۃُ اﷲوَبَرَکَاتُہ‘‘تو آپ اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے جواب میں صرف ’’وَعَلَیکَ‘‘ فر ما دیا۔ وہ شخص کلام مجید کی سورۃ النساء کی مذکورہ آیت پڑھنے کے بعد کہنے لگا : یا رسول اﷲ ! آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے تو مجھے ناقص جواب دیا ہے ! آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا چونکہ تم نے میرے لیے کوئی لفظ فضیلت باقی نہیں چھوڑا اس لیے میں نے ویسے ہی جواب دے دیا ہے۔تفسیر القرطبی میں القرطبی نے لکھا ہے کہ ’’بہترین جواب سلام کا) یہی الفاظ ہیں اس پر مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ یعنی لفظ ’’ برکاتہُ‘‘ آخری حد ہے اس پر اضافہ نہ ہو ۔ اور مناسب یہی ہے کہ سلام ہمیشہ ضمیر جمع کے ساتھ ہو (یعنی ’’علیک‘‘ کی بجائے ’’علیکم‘‘ کہا جائے خواہ مخاطب واحد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس کے ساتھ ملائکہ (کرَاماً کَاتِبِین) ہوتے ہیں ۔(اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ، جلد ۱۱، ص۱۲۴)

السلام علیکم کی فضیلت اور اہمیت
اسلام میں سلام کی فضیلت اور اہمیت مختلف احادیث مبارکہ سے واضح ہے۔صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد میں حضرت عبد اﷲ بن عمر و بن العاص رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آنحضو ر صلی اﷲ علیہ وسلم اسلام میں(یعنی اسلامی اعمال میں ) کون سی حالت(کو ن سا عمل) افضل ہے ، زیادہ اچھا ہے ۔آپ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’(ایک) یہ کہ تم اﷲ کے بندوں کو کھانا کھلاؤ اور(دوسرے ) یہ کہ سلام کرو اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے تم نہیں پہچانتے ‘‘ ۔

سلام کرنے کا اجر و ثواب
سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کا اجر اور ثواب احادیث مبارکہ سے واضح ہے۔ مالک دوجہاں نے اپنے نیک و صالح بندوں کے لیے ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر مقرر کیا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے یہ خصو صیت اپنی آخری امت کے لیے ہی رکھی ہے ۔سلام کرنے کے عوض نیکیوں کے بارے میں جامع تر مذی اور سنن ابی داؤد میں حضرت عمر ان بن حصین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمات میں حاضر ہوا اور اس نے کہا ’’اَلسّلَا مُ عَلَیْکم ُ ‘‘‘آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا‘ پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا ‘ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اس کو دس نیکیاں ملیں( یعنی اس بندے کے لیے سلام کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی گئیں)، پھر ایک اور شخص آیا‘ اس نے کہا ’’اَلسّلَا مُ عَلَیْکم ُ ‘ وَ رَحٓمَۃُ اﷲِ‘‘آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا‘ پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا ‘ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اس کو بیس نیکیاں ملیں( یعنی اس بندے کے لیے سلام کی وجہ سے بیس نیکیاں لکھی گئیں)، پھرتیسرا شخص آیا‘ اس نے کہا ’’اَلسّلَا مُ عَلَیْکم ُ ‘ وَ رَحٓمَۃُ اﷲِوَبَرَکَاتُہ ْ ‘‘‘آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا‘ پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا ‘ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اس کوتیس نیکیاں ملیں( یعنی اس بندے کے لیے سلام کی وجہ سے تیس نیکیاں ثابت ہوگئیں)

سلام میں سبقت
حضور اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم کے حسن اخلاق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو کوئی بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اُسے سلام کرنے میں سبقت فرماتے اور آنے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے۔ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں میں اﷲ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے‘‘۔ (مسند احمد‘جامع تر مذی‘ سنن ابی داؤد)حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے‘‘۔ ( شعب الا یمان للبیہقی)

کون کس کو سلام کرے (احکام اور ضابطے)
مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کون کس کو سلام کرے، یعنی سلام کرنے کے حسب ذیل اصول احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ چھوٹا بڑے کو سلام کیا کرے اور راستہ سے گزرنے اور چلنے والا بیٹھے ہوؤں کو سلام کیا کرے ‘ اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کی جماعت کو سلام کریں ‘‘۔ (صحیح بخاری)۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ :
٭ چھوٹے اپنے بڑوں کو سلام میں پہل کریں
٭ بڑوں پر لازم ہے کہ انہیں جب کوئی سلام کرے خوش اخلاقی سے سلام کا جواب دیں۔
٭ اگر چھوٹے سلام کرنے میں پہلا نہ کریں تو بڑوں کو چاہیے کو وہ چھوٹوں کو سلام کر نے میں آر یا جھجک محسوس نہ کریں اور انہیں سلام کریں۔
حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جب بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو انہیں سلام کیا کرتے ۔
٭ کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔
٭ کسی بھی سواری پر سوار‘ پیدل چلنے والوں کو سلام کرے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ’’ سوار آدمی کو چاہیے کہ وہ پیدل
چلنے والے کو سلام کرے‘‘۔
٭ تیز رفتار سواری والا سست رفتار سوار کو ۔
٭ راہ گیر یا گزنے والے راستے میں بیٹھے ہوئے شخص یا لوگوں کو سلام کریں۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب سے روایت ہے ’’انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان فرمایا کہ گزرنے والی جماعت میں سے اگر کوئی ایک سلام کر لے تو پوری جماعت کی طرف سے کافی ہے‘ اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک جواب دیدے تو سب کی طرف سے کافی ہے‘‘۔
٭ جب کوئی کسی محفل میں جائے یاچند لوگوں کے ہمراہ گزرے تو ان تمام لوگوں میں سے کسی ایک کا سلام کرنا کافی ہے ، ساتھ ہی محفل میں موجود لوگوں میں سے کسی ایک کا جواب دے دینا کانی ہے۔ضروری نہیں کہ تمام لوگ سلام کریں اور محفل میں موجود تمام لوگ ہی سلام کا جواب دیں۔
٭ تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔
٭ سلام میں پہل کرنازیادہ مستحسن ہے۔حضرت فتادہ (تابعی ) سے (مرسلاً) روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فر مایا ’’جب تم کسی گھر میں جاؤ توگھر والوں کو سلام کرو اور پھر جب گھر سے نکلو اور جانے لگو تو وداعی سلام کر کے نکلو‘‘۔(معارف الحدیث)
٭ جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو داخل ہونے سے قبل اہل خانہ سے اجازت لو اور گھر والوں کو سلام کرنے میں پہل کرو۔
٭ سلام کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعا لیٰ کے نزدیک سب سے بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں سبقت لے جائے۔
٭ ہم اکثر کسی کے ذریعہ اپنے کسی جاننے والے کو سلام کہلواتے ہیں۔ جب کوئی کسی کو سلام کہلائے تو سلام کہلانے والے کے سلام کے جواب میں ’’وَعَلَیْکُم ُ السّلَام‘‘ و رحمتہ اﷲکہنا چاہیے۔ ایک مر تبہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے ’’وَعَلَیْکُم ُ السّلَام‘‘و رحمتہ اﷲ‘‘ کہا تھا۔
٭ اگر کوئی شخص کسی کا سلام لائے تو سلام بھیجنے والے اور اور لانے والے دونوں کو جواب میں شامل کیا جانا چا ئیے۔ ایک شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میرے والد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سلام کہتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا ’’عَلَیکَ و
عَلیٰ اَبیِکَ السَّلام ‘‘ تجھ پر اور تیرے والد پر سلام ہو) (تفسیرالقرطبی)
٭ محرمات اور بیوی کو سلام کرنے کا حکم ہے، مگر اجنبی عورت خواہ جوان ہو یا عمر رسیدہ اسے سلام کرنے سے روکا گیا ہے(تفسیر القرطبی)
٭ قبرستان جانے والے اہل قبور کو سلام کریں۔سلام کے الفاظ یہ بیان کیے گئے ہیں۔ا لسَّلَامُ عَلَیکُم یااَ ھْل الْقُبُو ْرِ یَغْفَر ْ اﷲ لَنَا وَ لَکُم ْ وَاَنتم ْ سَلْفُنَا وَنَحنُ بِالُاثُر تر جمہ: ’’اے قبروں میں رہنے والو تمہیں ہمارا سلام پہنچے بخشے اﷲ ہم کو اور تم کو۔ اور تم آگے جانے والے ہو اور ہم تمہارے قدم پر (پیچھے آنے والے ہیں‘‘۔
٭ اگر کوئی سلام کا جواب نہ دے تو اسے دوسری بار اور پھر تیسری بار سلام کرنا چاہیے لیکن اگر وہ پھر بھی نہ سنے تو خاموش ہورے اور پھراس وقت سلام نہ کرے۔
٭ سلام کرنا اسلام کی افضل ترین حالت ہے ، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
٭ سلام کے جو الفاظ احادیث مبارکہ میں آئے اور جن کا حکم دیا گیا ان کے بجائے دوسرے الفاظ استعمال کرنے سے سلام نہیں ہوتا، مسلمان کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ ہم سلام کے لیے ان احکامات اور ضابطوں پر سختی سے عمل کریں ۔
٭ سلام کا جواب انہی الفاظ میں دینا جو احادیث مبارکہ میں آئے اور ان کے بجائے دوسرے الفاظ کا استعمال کرنے سے جواب نہیں ہوتا۔
جواب کی افضل صورت ’’وعلیکم السلام ‘‘ ، اس سے افضل صورت ’’وعلیکم اسلام و رحمتہ اﷲ‘‘ اور افضل ترین صورت ’’ وعلیکم السلام و رحمتہ اﷲ و بر کاتہ‘‘ ہے۔
٭ سلام کرنا سنت اوراس کا جواب فرض ہے، اس لیے جس طرح سنت کا تارک اتنا گناہ گار نہیں ہوتا جتنا تارک فرض؛ اسی طرح سنت ادا کرنے والا فرض کے ادا کرنے والے سے زیادہ اجر کا مستحق ہے۔

سلام کرنے یا جواب دینے کی ممانعت
حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعض احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں بعض صورتوں میں سلام نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت عبداﷲبن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پیشاب کے لیے بیٹھے تھے ۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔اسی طرح خطبہ، نماز، تلاوت ، حمام اور رفع حاجت کے وقت سلام کا جواب واجب نہیں۔( جامع ترمذی )

سلام کرنے میں احتیاط سے کام لینا
حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں بعض صورتوں میں احتیاط سے سلام کرنا چاہیے۔ یعنی ہمارے سلام سے کسی سوئے ہوئے شخص کی آنکھ نہ کھل جائے، یا کسی کو بھی کسی بھی قسم کی اذیت نہ پہنچے۔ حضرت مقداد بن الا سود رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رات کو اصحابِ صفہ کے پاس تشریف لاتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کرتے کہ سونے والے نہ جاگتے اور جاگنے والے سن لیتے۔ (معارف الحدیث۔ حصہ ششم)

غیر مسلموں کو سلام کا جواب
غیر مسلم اہل کتاب کے سلام کے جواب کے الفاظ کیا ہوں ؟ بعض علما نے قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت ۸۶ کے الفاظ ’’اَو رُدُّوھاَ‘‘ (یا کمسے کم ویسا ہی جواب (سلام کا) دے دیا کرو)کی تشریح یہ بھی کی ہے ایک یہ کہ سلام کے جواب کا درجہ کم سے کم یہ ہے کہ کہ سلام کرنے والے کے الفاظ کو ہی دوہرایا جائے ۔ بعض علما ء نے کہا ہے کہ اس ددسرے حصے سے مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم اہل کتاب سلام کرے تو اس کے جواب میں اسی کے الفاظ دھرادیے جائیں، چنانچہ یہود مدینہ کے سلام کا جواب دینے کے سلسلے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہ حکم دیا تھاکہ ان کے جواب میں صرف ’’وعلیک‘‘ کے لفظ پر اکتفا کیا جائے۔

مصافحہ ، معانقہ(لپٹنا) اورتقبیل ( چومنا)
مصافحہ کرنا، معانقہ (لپٹنایا بغل گیر ہونا) اور(تقبیل ) چومنے کے بارے میں ہمیں مختلف احادیث ملتی ہیں۔ مصافحہ کرنا ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج ہے، در اصل ملاقات کے وقت محبت و مسرت اور احترام و عقیدت کے اظہار کا ایک ذریعہ مصافحہ کرنا ہے۔عام طور پر سلام کے ساتھ ساتھ مصافحہ بھی کیا جاتا ہے۔مصافحہ در اصل تکمیل سلام ہے لیکن ضروری نہیں، سلام کے الفاظ اداکردینے سے بھی مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ ’’سلام کا تکملہ مصافحہ ہے‘‘۔

ایک اور حدیث حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جب دو مسلمانوں کی ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اﷲ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت ہوہی جائے گی‘‘۔ (سنن ابی داؤد)۔ عطا خراسانی تابعی سے مر سلاًروایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم باہم مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ کی صفائی ہوتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے باہم محبت پیدا ہوگی اور دلوں سے دشمنی دور ہوگی‘‘۔ (موطا امام مالک)

معانقہ (لپٹنا یا بغل گیر ہونا) یا تقبیل (چومنا) کی اجازت موقع محل کے اعتبار سے اور شرعی مصلحت کے خلاف نہ ہو، اس عمل کے پیچھے کسی بھی قسم کی منفی سوچ ، لالچ ، دنیا دکھاوا یاکسی مقصد کا حصول نہ ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معانقہ اور تقبیل سے منع فرمایا، لیکن اکثر علمائے اکرم کی رائے دیگر احادیث کی روشنی میں یہ ہے کہ اس عمل کا تعلق اس صورت سے ہے کہ معانقہ کرنے اور تقبیل کرنے میں کسی برائی یا اس کے شک و شبہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔بعض احادیث میں خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہاتھ ملانے اور چومنے کے واقعات مروی اور ثابت ہیں۔

سنن ابی داؤد میں ایوب بن بشیر قبیلہ بنو عنزہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے پوچھا ’’کیارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ملاقات کے وقت آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے؟آپ نے جواب دیا ’’میں جب بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمات میں حاضر ہوا‘ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیشہ مجھ سے مصافحہ فرمایا۔ اور ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے گھر سے بلوایا میں اس وقت اپنے گھر پر نہیں تھا ‘ جب میں گھر آیا اورمجھے معلوم ہوا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا تھا تو میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمات میں حاضر ہوا ‘ اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے بستر پر آرام فر ماتھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بستر سے اٹھے اور مجھ سے لپٹ گئے اور گلے لگا لیا‘اور آپ کا یہ معانقہ بہت خوب اور بہت ہی خوبصورت تھا ( بہت دلکش اور بہت ہی مبارک تھا )۔

امام شعبی (تابعی) سے مرسلاً روایت ہے کہ’’ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب کا استقبال کیا (جب وہ حبشہ سے واپس آئے ) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو لپٹ گئے (یعنی معانقہ فرمایا) اور دونوں آنکھوں کے بیچ میں (ان کی پیشانی کو) بوسہ دیا‘‘۔(سنن ابی داؤد، شعب الا یمان للبیہقی)مندرجہ بالا احادیث سے یہ ثابت ہے کہ محبت اور احترام کے جذبہ سے معانقہ اور تقبیل (یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا) جائز ‘ اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔

کون کس سے مصافحہ کرے
مصافحہ کیسے کیا جائے اور کون کس سے مصافحہ کرے ؟ اس سلسلے میں علماء اکرم نے بہت واضح الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ مرد وں کو چاہیے کہ وہ مردوں سے مصافحہ، معانقہ اور تقبیل کریں جب کہ خواتین صرف اور صرف خواتین سے ہی مصافحہ ، معانقہ اور تقبیل کریں۔ عورتوں کو مردوں سے مصافحہ، معانقہ یا تقبیل سے منع کیا گیا ہے۔مسلمان جب مسلمان بھائی سے مصافحہ کریں تو اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں دیں، بسا اوقات ہم مصافحہ کے لیے صرف ایک ہاتھ بڑھا دیتے ہیں، بعض لوگ تو محض دو انگلیاں ہی آگے بڑھاتے ہیں جو اس بات کی واضح علامت ہو تا ہے کہ ہاتھ ملانے والا نہ پسندیدگی اور بیزاری کا اظہار کررہا ہے۔ ایسا کرنے والے ثواب کے بجائے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، لہٰذا ا س عمل سے بہتر ہے کہ زبان سے سلام کرنے پر ہی اکتفا کیا جائے تاکہ ہم نے دوسرے مسلمان کو سلام کر کے جو ثواب کمایا اور سنت نبوی صلی اﷲ علیہو سلم پر عمل کیا ، بیزاری کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنے ثواب کو ضائع نہ ہونے دیں۔(روزنامہ جنگ (سنڈے میگزین) ، ۲۹ ستمبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284799 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More