کیلیفورنیا کی ایک خوبصورت مگر پراسرار وادی جسے موت کی
وادی ( Death Valley ) کے نام سے جانا جاتا ہے٬ ایک صدی سے بھی زائد عرصے
سے اپنے اندر ایک راز چھپائے ہوئے ہے- اور آج تک کوئی بھی اس راز سے پردہ
اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا-
یقیناً آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وادی میں موجود پتھر خود بخود اپنی
جگہ تبدیل کرلیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور
یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب انہیں کوئی دیکھ نہ رہا ہو-
|
|
یہ سب کچھ Racetrack Playa نامی ایک خشک جھیل کی سطح پر ہوتا ہے اور یہ
مقام اپنے “ سفر کرتے پتھروں “ کی وجہ سے مشہور ہے- اور یہ مقام تقریباً 3
میل لمبا جبکہ ایک میل سے زائد چوڑا ہے-
اگرچہ دنیا میں اور بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں اس طرح کے اثرات پائے
جاتے ہیں لیکن پھر بھی موت کی وادی سب سے زیادہ مقبول ترین مقام ہے-
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقام پر موجود تمام پتھر حرکت نہیں کرتے اور جو کرتے
بھی ہیں وہ دو سے تین سال کی مدت میں کرتے ہیں- حرکت کرنے والے تمام پتھر
نہ ایک ہی وقت میں حرکت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی سمت ایک جیسی ہوتی ہے-
ان میں سے بعض پتھر 90 ڈگری کے زاویے تک اپنا رخ موڑ لیتے ہیں اور ان کا
سفر 10 فٹ سے لے کر 100 فٹ تک ہوسکتا ہے-
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حرکت کرنے والے زیادہ تر پتھر کچھ خاص بڑے بھی نہیں
ہوتے اور ان کا قطر 6 سے 18 انچ ( 15 سے 45 سینٹی میٹر ) تک ہوتا ہے-
|
|
اس راز کے حوالے سے متعدد نظریات بھی پیش کیے جاچکے ہیں جن میں سے بعض کے
مطابق یہ سب نامعلوم مقناطیسی اثرات کے سبب ہوتا ہے-
ایک نظریہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ اس علاقے میں چلنے والی تیز ہوائیں ان
پتھروں کو حرکت دیتی ہیں جبکہ جھیل کی چکنی سطح بھی اس سلسلے میں مدد فراہم
کرتی ہے-
سب سے زیادہ جو حل پیش کیا گیا اس کے مطابق یہ راز ہوا٬ پانی اور درجہ
حرارت کے مجموعے پر مشتمل ہے-
اگرچہ یہ جھیل خشک ہے لیکن ہمیشہ خشک نہیں رہتی کیونکہ کبھی بارش ہونے کی
وجہ سے اس کی سطح پر پانی جمع ہوجاتا ہے تو کبھی قریب میں موجود چوٹیوں پر
سے برف پگھلنے کی وجہ سے یہ مقام تر ہوجاتا ہے-
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان تمام وضاحتیں صرف اندازے ہیں کیونکہ انہیں ثابت
کرنا انتہائی مشکل ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ ان پتھروں کو کبھی کسی نے
حرکت کرتے ہوئے دیکھا ہے اور نہ ہی ان کی حرکت کو ریکارڈ کیا ہے-
|
|
جبکہ نہ ہی کوئی شخص رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے دن رات کئی سال تک اس
مقام پر پتھروں کے مشاہدے کے لیے صرف کرسکتا ہے- اس کے علاوہ جدید کیمروں
کی مدد سے بھی یہ کام نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے لیے بھی دو سے تین سال
کے لیے سینکڑوں کیمرے نصب کرنے ہوں گے جو کہ انتہائی مہنگا اور مشکل عمل
ثابت ہوگا-
ایسا معلوم ہوتا ہے مذکورہ مشکلات کے باعث اگلے کئی سال تک اس راز سے شاید
پردہ نہ اٹھ سکے گا- |