تربیت بھی اہم ہے تعلیم کی طرح

 تعلیم فرض ہے ہر مسلمان مرد و عورت پر ماں کی گود سے قبر تک ۔مگر تربیت بھی تعلیم کی طرح بہت ضروری ہے بلکہ لازم ہے ۔اس اہم مدعے کو ہم نے کیوں چھوڑ دیا ہے۔

تعلیم حاصل کرو کیونکہ وہ تو ہے ہی فرض اور لازم ۔لیکن کونسی تعلیم وہ جو ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں جن میں نہ ہمارا مذہب ہے نہ ثقافت نہ رواج نہ کوئی شعور اور نہ ہی کوئی اخلاقی قدریں۔ ہمارا مذہب اسلا م تو کہتا ہے کہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلو دونوں میں میانہ روی اختیار کر واگر کسی گھر میں اسلامی تعلیمات بھی اختیار کی جائیں اور اکسفورڈ کی کتابوں سے اور الیکٹرانک میڈیا سے دنیا کی آگاہی بھی ملتی رہے تو کوئی حرج نہیں۔اصل مسلۂ یہ ہے کہ جو والدین کرتے ہیں وہی بچے سیکھتے ہیں سگریٹ پیتے باپ سے بچے یہی سیکھیں گے جب کہ ماں باپ یا گھر کے کسی بڑے کو کتب بینی کرتے دیکھیں گے تو ان میں بھی یہی شوق در آئے گا۔بات تربیت کی ہو رہی ہے اور تربیت کا ماحول تبہی قائم ہو سکتا ہے جب بچوں کو غلط اور صحیح کی پہچان کرائی جائے ہم خود اتنے سہل ہوگے ہیں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہے ہماری نسلیں اسلامی اقدار اور ثقافت کھوتی جا رہی ہیں
آج کے دور میں جہاں روپے پیسے کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے وہاں لوگ اچھے اسٹینڈرکے اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرا کے سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض ادا کر دیا ۔ہائی سوسائٹی میں تو ماں باپ اپنے سوشل ایکٹیوٹی میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کی تربیت کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہوتا اور یہ بات اس وقت سمجھ آتی ہے جب وقت ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے کے پاس اعلٰی ڈگری ہے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں یعنی ان کے ہم پلہ لوگوں سے جو ان ہی کی طرح ہائی سوسائٹی کا حصہ ہیں پوری دنیا دیکھ چکے ہیں اب اس سے اچھی تربیت اور کیا ہوگی؟لیکن اخلاقی روایات کا جنازہ تبہی نکل جاتا ہے جب چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں پیسہ ،موبائل،گاڑی،اور ٹی وی،انٹرنیٹ کی کھلی آزادی آجائے یہ سب ضرورت ہیں نئے دور کی اور اپ انہیں ان الیکٹرانک آئٹمز سے دور کر کے دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں بنا سکتے مگر ہر چیز کے منفی اور مثبت دو پہلو ہوتے ہیں اوراس کچی عمر میں جہاں ہر بری چیز اپنی جانب اٹرکٹ کرتی ہے ایسی صورت میں بچوں کی رہنمائی انتہائی ضروری ہے ورنہ حوصلہ افزائی کرنے والے وہی والدین خود سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے کیا آپ کے بچے کو نماز پڑھنی آتی ہے؟ کیا وہ اس کی پابندی کرتا ہے ؟کیا اسے دین اسلام کے بارے میں اچھی معلومات ہے؟ ہماری تہذ یب و ثقافت سے وہ کس حد تک روشناس ہے؟

اب ہم بات کرتے ہیں متوسط طبقے کے لوگوں کی جو بہت اعلیٰ درجہ کے اسکولوں میں اپنے بچوں کی تعلیم نہیں دلواسکتے یعنی ان نامی گرامی اسکولوں میں تو کم از کم نہیں لیکن ایسے اسکولوں میں ضرور پڑھاتے ہیں جہاں آکسفورڈ اسٹینڈرڈ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جس سے ان کے بچے انگریزی زبان کے رٹو طوطے بن جاتے ہیں اور کسی حد تک انگریزی زبان کو سمجھنے اور بولنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر ان کے والدین واری واری جاتے ہیں۔

کیا ان آکسفورڈ اسٹینڈرڈ سے شائع ہونے والی کتب میں ہمارا کلچر ہے ؟کیا ان میں ہمارا مذہب ہے ؟کہیں نہیں!ہماری تاریخ اور جغرافیہ ہے۔ نہیں ۔

اور رہی بات تربیت کی تو اس کے لیے ٹیلی وژن سے اچھا تو کوئی میڈیم سمجھا ہی نہیں جاتا ماں نے بچوں کے آگے ٹی وی چلا دیا اور اپنی جان چھڑالی اگر ماں گھر پر ہے تو ورنہ ماں اور باپ دونوں ہی نوکری کرتے ہیں اور بچوں کی زمہ داری آیا یاما سی کے سر رکھ کر مطمعن ہوگئے جسے دین اور دنیا کے بارے میں خود کچھ خاص آگاہی نہیں ہوتی۔بچے نے نیٹ سے اپنی پسند کے پروگرام سرچ کئے یا پھر ٹی وی دیکھ کر اپنا وقت گزا ہ لو بھئی اک دن اور گزر گیا۔

آج جب بچوں کے ہاتھ میں کھلونوں کی جگہ جو کبھی گاڑیوں اور بیٹ بال ہوا کرتے تھے کھلونے کی گن دیکھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں کہ کیسے ماں باپ ہیں جو اپنے بچے کو غلط چیز دلا کر اس کی خوشی میں خوش ہیں جن کے چھرے لگنے سے کسی کی آنکھ تک ضائع ہو سکتی ہے اور ان کھلونوں کے سائڈ افیکٹ تو کچھ سالو ں کے بعد نظر ائیں گے جب خدانخواستہ ان کے ہاتھوں میں اصل گنز نے لے لی ۔
آج ہر بچے کو انڈین فلموں کے گانے تو اسبر ہیں جب کہ کچھ سالوں پہلے تک بچوں کی زبانوں پر یہ دیس ہمارا ہے ،اور دل دل پاکستاں جیسے نغمے سجے ہوتے تھے ۔

آج گھر گھر کا بچہ جھوٹا بہیم اور بین ٹین کو جانتا ہے کبھی کسی بچے سے غلطی سے بھی ان کے بارے میں پوچھ لو تو فر فر ان کی بہادری کے قصے بیان کر نے لگتے ہیں لیکن اگر آپ ان سے رضیہ سلطانہ،محمد بن قاسم یا تحریک پاکستان میں شامل کسی شخصیت کے بارے میں پوچھ لیں سواے چند ا یک کہ جن میں قائد اعظم محمد علی جناح ،علامہ اقبال، لیاقت علی خان ،محمد علی جوہر اور سرسید احمد خان جیسے مشہور لوگ ہیں ان کے علاوہ اور کسی کے بارے میں جاننا تو کجا نام بھی نہیں جانتے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کی اسلامی تاریخ تو کیا پاکستاں کی تاریخ سے بھی نا واقف ہیں-

ہم اپنے بچو ں کو کیا تربیت دے رہے ہیں جنہیں ہم اپنے ملک کا مستقبل کہتے ہیں ان معماروں کی بنیاد یں کتنی کچی ہے یہاں تک کے اکثروبیشتر بچے اسلامی مہینوں کے نام بھی نہیں جانتے اور اگر بتابھی دیں تو بے ترتیب ۔

اپنے بچوں کو ڈاینگ ٹیبل پر بیٹھ کے چھری کانٹے سے کھانے کو ترجیح اور دسترخوان پر بیٹھ کر ہاتھ سے کھانے کو توہین محسوس کرنے والے والدین نبیؐ کی سنت کو فراموش کر کے اسٹیٹس سمبل کی دوڑ میں اگے نکلنے کی کوشش میں اپنا اصل بھولے بیٹھے ہیں۔

میں نے اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ تعلیم انسان کو اچھائی کی طرف راغب کرتی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے تعلیمیافتہ لوگوں کو بھی دیکھا جو بڑی بڑی ڈگریاں لے کر بڑے عہدوں پر فائز تو ہیں لیکں بات کرنے کی تمیزو تہزیب سے عاری ہیں غرور آنکھوں سے چھلکتا ہے اور والدین کا احترام بھی محز دکھاوا نظر آتا ہے اس کے برعکس ایسے لوگ بھی دیکھے جوبہت اعلی تعلیم نہیں رکھتے مگر اسلامی تعلیمات سے بخوبی واقفیت رکھنے اور اچھی تربیت کی بنا پہ والدین بزرگوں، بچوں اور ہر اک کو اپنے اچھے اخلاق و اتوارسے متاثر کر جاتے ہیں ۔

ہمدردی اور مدد کرنے کا جزبہ اسی اچھی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے اپنے بچوں کو نماز کی پابندی کے ساتھ حقوق ا لعبادکے بارے میں تفصیل سے بتایں جس سے والدین، بزرگوں ، پڑوسیوں ، رشتے داروں اور دیگر لوگوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں وہ جان سکیں اور اس پر عمل بھی کریں-

بیڈ ٹائم اسٹوری میں سوپر مین اور بیٹ مین کی کہانیوں کے بجائے اسلامی کہانیاں سنایں آپ اپنے بچے کو انٹرنیٹ پر اسلامی کہانیاں اورانبیاء کے واقعات سنا کر ان کی اصلاح کر سکتے ہیں جو بہت اچھے طریقے سے کارٹون کی کہانی کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں بسم ا ﷲ کی برکت ، صبر کا پھل میٹھا ،لالچ بری بلا ،سچ کی طاقت اور ایسے ہی بہت سے موضوات پر سبق اموزکہانیاں موجود ہیں۔انٹرنیٹ لگاتے ہوے اس میں ایسی وئب سائٹس پر جو بچوں کے لئے نامناسب ہوں چائلڈ لاک لگوادیں ایسے ہی کیبل ٹیوی کے چینلز کو بھی لاک کیا جاسکتا ہے-

قران پاک کوترجمعہ سے پڑھنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ قران کے اصل مقصد کو سمجھ سکے صبح اٹھنے سے رات سونے تک کی ساری چھوٹی چھوٹی صورتیں زبانی یاد کروایں ایسا نہیں ہے کہ اگر آپ انہیں دین کی معلومات دے رہے ہیں تو دنیا سے کاٹ دیں ان کی فزیکل اور سوشل ایکٹیوٹی کو بڑھایہں تاکہ ان میں اعتماد پیدا ہوکیونکہ آسانیوں اور آسائشوں کا یہ عالم ہوگیا ہے کی ہمارے بچے سست ہوگئے ہیں۔ویڑیو گیمز اور کمپیوٹر، ٹی و ی کے آگے سارا دن گزار دیتے ہیں ایسے کھلوں کی جانب توجہ کروایں جس میں جسمانی کسرت ہو ان کی زندگی میں انسان دوست کھیل اور کھلونے متعارف کروایں انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیں جیسے اپنے کمرے کی صفائی ،پودوں کو پانی ڈالنا،اپنے یونیفارم کتابوں کھلونوں وغیرہ کو جگہ پر رکھنااس طرح بچے میں گھر اور گھروالوں کی جانب رغبت پیدا ہوگی اک قسم کا ڈسپلین اور اعتماد سرائیت کرے گاکہ وہ بھی کچھ کر سکتے ہیں انہیں حکم نہ دیں بلکہ یہی کام اگر ان سے یہ کہہ کر کروایں کہ اپ ہماری اس کام میں مدد کریں تو وہ یہ کام خوشی سے کریں گے اگر بچے کے کام کو سراہیں اور اس کی تعریف کردیں تو نہ صرف اس کا اعتماد بڑھے گا بلکے اس کے رویہے میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی
بچوں کو اچھی متوازن صحتمند غذا دیں ۔سپاری چھالیہ جیسی چیزوں سے انہیں دور رکھیں

گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں یہ ان کی جسمانی اور زہنی نشونما کے لیے انتہائی اہم ہے ان سے دوستانہ رویہ اختیار کریں کہ اپنی کوئی بھی پریشانی آپ سے شییر کرتے ہوئے وہ ہچکچایں نہیں آج کل کا ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ بچے اکیلے گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے ایسے میں ان کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے-

آپ کے بچے کی زندگی بہتریں تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو اور وہ پاکستان اور اسلام کے نام کو سربلند کرتے ہوے قابل فخر شہری ثابت ہو(آمین)
samina fayyaz
About the Author: samina fayyaz Read More Articles by samina fayyaz: 12 Articles with 26720 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.