امیّ امّی! میں بڑی ہو کر ٹیچر
بنوں گی۔ننھی حرا نے ماں کی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے کہا۔ اچھا
کیا میری بیٹی ڈاکٹر نہیں بنے گی؟نہیں امّی مجھے صرف ٹیچر ہی بننا ہے۔ چلو
ٹھیک ہے۔ امّی نے مسکراتے ہوئے کہا۔مگر اب کچھ دنوں سے حرا نے یہ کہنا بند
کر دیا ۔ امّی کے پوچھنے پر حرا نے کہا نہیں ٹیچر اچھی نہیں ہوتیں کیوں؟؟؟
امّی نے حیرت سے کہا ۔ وہ بہت مارتی ہیں ۔ یہ کہہ کر حرا تو اپنے کام میں
مگن ہو گئی مگر مسز خان سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ کل تک جو اُن کی بیٹی
صرف ٹیچر بننا چاہتی تھی آج اس کی سوچ صرف اس وجہ سے بدل گئی کہ ٹیچر مارتی
ہیں ۔
شاید آپ کی سماعتوں سے بھی کبھی اسے الفاظ ٹکرائے ہوں؟جہاں والدین کا درجہ
قدرت نے بہت بڑا رکھا ہے ، کیونکہ وہ بچے کو دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں،
اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہیں اساتذہ بچے کے روحانی والدین
ہوتے ہیں ،جو ان کی روح کی بالیدگی کا سبب بنتے ہیں ۔ استاد کا درجہ اس لئے
بھی زیادہ ہے کہ وہ بچے کی انگلی پکڑ کر اُن الفاظوں سے آشنا کرتے ہیں جن
سے وہ نا واقف ہوتے ہیں ۔ مگر بد قسمتی سے آج کل جس قسم کے واقعات تواتر سے
نظر آرہے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہیں ۔کئی جگہ اخبارات اور ٹی۔ وی آپ نے پڑھا
اور دیکھا ہو گا کہ استاد نے بچے کو مار مار کر اُ س کا بازو توڑ دیا ، اُس
کی پیٹھ لہو لہان کر دی یا اُس کا سر پھاڑ دیا۔ جس کے باعث وہ ننھی کونپلیں
جو کہ ابھی پوری طرح کھلی بھی نہیں ہوتیں کہ مُرجھا کر رہ جاتی ہیں ۔آج ہم
۲۱ ویں صدی میں داخل ہیں کیا ہم ان فرسودہ روایات اور مولا بخش کے بغیر
اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کر سکتے؟ کیاتعلیم دینے کا یہ
ہی ایک انداز ہے؟ کہ بچوں کو مارا جائے اور اس کے دل میں اسکول اور استاد
کی نفرت کو ابھارا جائے؟ یقیناً نہیں ! ہمارے آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ
بھی معلم بنا کر بھیجے گئے ۔قربان جاؤں میں اپنے آقا پر کہ جس نے علاقوں کو
فتح کرنے اور طاقت رکھنے کے باوجود اسلام پھیلانے کے لئے کسی پر زور
زبردستی نہیں کی ، جس نے معلم ہو کر اسلام صرف پیار، محبت اور شیریں زبان
سے پھیلایا۔اسی وجہ سے تاقیامت آپ کے نام لیوا اس دنیا میں موجود رہیں گے ۔
ہم اُس سرکار کے اُمتّی ہیں پھر ہم کیسے اساتذہ ہیں ؟ کہ بچے کے دل میں علم
کی جوت جگانے کے بجائے اُسے خوف کی اُس دلدل میں دھکیل رہے ہیں جہاں سے وہ
کبھی اُبھر ہی نہ پائے۔یہ مانا کہ شاید والدین کے بے جا لاڈ پیار کے باعث
بچہ استاد سے بد تمیزی کر بیٹھتا ہے ، اکثر اُن کی بات نہیں سنتا یا کام کے
سلسلے میں استاد کو بچے سے شکایت ہوتی ہے مگر سمجھانے کے اور بھی طریقے ہیں
ماسوائے اس کہ، کہ ڈنڈا لیا جائے اور بچے کو دھنک دیا جائے۔ایک استاد کو یہ
زیب نہیں دیتا۔
اس ضمن میں والدین سے بھی میری یہ گُزارش ہے کہ استاد ، والدین اور بچہ ایک
تکون کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس تکون میں سے ایک کو بھی اگر نکال دیا جائے
تو کام بہتری کے بجائے خرابی کی طرف چل پڑتا ہے ۔ والدین کو بھی چاہیئے کہ
اساتذہ کے ساتھ تعاون کریں اپنے بچے کے سامنے استاد کی بے عزتی نہ کریں ،کیونکہ
جب بچہ اپنے والدین کو ایسا کرتے دیکھتا ہے تو اُس کی نظروں میں بھی استاد
کی عزت دو کوڑی کی ہو جاتی ہے اُستاد آپ کے بچے کی بہتری کے خواہاں ہیں ۔
اور استاد پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ والدین اپنے لختِ جگر
آپ کے حوالے کرتے ہیں تاکہ آپ انھیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرکے ایک قابلِ
فخر شہری بنا سکیں ۔ عملی زندگی میں آتے ہی ہر بچہ کو اپنا بچپن اور اسکول
کی زندگی یاد رہتی ہے اس میں وہ اساتذہ اُسے ہمیشہ یاد رہتے ہیں ،جو اُسے
پیار ، محبت اور دِل جمعی سے پڑھاتے، اُسے ڈانٹتے ضرور تھے مگر روئی کی طرح
دھنکتے نہیں تھے اور ایسے اساتذہ کو شاید وہ بچے اچھے الفاظوں میں یاد نہ
کرتے ہوں جو مار مار کر اُ ن کی کھال ہی جسم سے الگ کر دیتے ،بے شک وہ کتنے
ہی قابل کیوں نہ ہوں سوچئیے !کیا ہم ایسے استاد بننا چاہتے ہیں کہ جن کو
دیکھ کر بچے ہم جیسا بننا چاہیں؟؟ یا پھر ایسے، کہ بچے استاد ہی نہ بننا
چاہیں ؟؟؟ ذرا سوچئیے۔۔۔۔۔۔۔ ! فیصلہ آپ کے ہاتھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ |