شعبان المعظم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الأَوْلَى فِي ذَلِكَ مَا أَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَصَحَّحَهُ اِبْن خُزَيْمَةَ عَنْ أُسَامَة بْن زَيْدٍ قَالَ : ( قُلْت : يَا رَسُول اللَّه ، لَمْ أَرَك تَصُومُ مِنْ شَهْر مِنْ الشُّهُور مَا تَصُوم مِنْ شَعْبَان , قَالَ : ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاس عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَان , وَهُوَ شَهْر تُرْفَعُ فِيهِ الأَعْمَال إِلَى رَبّ الْعَالَمِينَ ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ) اهـ حسنه الألباني في صحيح النسائي (2221) ..
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں جو رجب اور رمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھاۓ جاتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھاۓ جائیں.
حوالہ: سنن نسائ، سنن ابوداؤد. علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن نسائ رقم الحدیث: 2221 میں اسےحسن قرار دیا ہے

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ - رضى الله عنها - عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ ‏.‏ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ ‏.‏ وَلَمْ أَرَهُ صَائِمًا مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلاَّ قَلِيلاً

امہ سلمہ، عائیشہ رضی اللہ عنھما سے بیان کرتیں ہیں،مفہوم: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب نہیں رکھیں گے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے مہینہ سے زیادہ کسی اور مہینہ میں زیادہ روزے رکھتے ہوۓ نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے.

حوالہ: صحیح مسلم حدیث نمبر: .1156

رواه مسلم (746) عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : وَلا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ ، وَلا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ ، وَلا صَامَ شَهْرًا كَامِلا غَيْرَ رَمَضَانَ .

عائیشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ: میرے علم میں نہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن ختم کیا ہو، اور صبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں، اور رمضان کے علاوہ کسی اور مکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں. حوالہ: صحیح مسلم حدیث نمبر 746

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُومُوا ‏"‏ ‏.

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: جب نصف شعبان ہو جاۓ تو روزہ نہ رکھو. حوالہ: ابوداؤد، ابن ماجہ، سنن ترمذی حدیث نمبر 738. علامہ البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا-

ان مختلف روایات کی تطبیق سے ثابت ہوا کہ نصف الشعبان کے بعد بھی وہ شخص روزہ رکھ سکتا ہے جس کو پیر اور جمعرات یا ہر دوسرے تیسرے دن روزہ رکھنے کی عادت ہو،اگر اس کو عادت نہ ہو تو اسکو چاہیے کہ نصف الشعبان کے بعد روزہ نہ رکھے،اسکے لیے دلیل دیکھیں صحیح مسلم حدیث نمبر 1161،واللہ اعلم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، - رضى الله عنه - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لاَ تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ إِلاَّ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ ‏"

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: رمضان المبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو ، لیکن وہ شخص جو پہلے روزہ رکھتا رہا ہے اسے روزہ رکھ لینا چاہیے. حوالہ: صحیح بخاری حدیث نمبر 1914، مسلم 1082

نتیجہ اس کاحاصل
ان تمام احادیث صحیحہ کی روشنی میں یہ سمجھ آتا ہے کہ شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے صحیح مسلم1156، مگر15شعبان کے بعد روزے نہیں رکھیں سنن ترمذی حدیث 738، مگرشخص روزہ رکھ سکتا ہے جس کو پیر اور جمعرات یا ہر دوسرے تیسرے دن روزہ رکھنے کی عادت ہو صحیح بخاری 1914،اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کی ریاض الصالحین صفحہ412 اورابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مجموع فتاوی ابن تیمیہ میں مزید پڑھا جاسکتا ہے،واللہ اعلم

15 شعبان:اکثر اہل علم کے ہاں نصف الشعبان کو نماز وغیرہ ادا کر کے جشن منانا اور اس دن کے روزہ کی تخصیص کرنا منکر قسم کی بدعت ہے،ان روایات کے باطل ہونے کا حکم حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الموضوعات جلد 2 صفحہ 440 تا 445،حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المنار المنیف حدیث 174 تا 177،حافظ العراقی رحمہ اللہ نے تخریج احیاء العلوم الدین حدیث 582،اور حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی جلد 28 صفحہ 138 میں نقل کیا ہے،واللہ اعلم
Abdullah
About the Author: Abdullah Read More Articles by Abdullah: 291 Articles with 448773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.