✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Society & Culture Articles
موبائل فون ضرورت یا مجبوری؟
(Shahzad Ahmad, Swabi)
بحث یہ ہے کہ کس عمر کے بچوں کو موبائل فون استعمال کرنے کی سہولت ملنی چاہیے، بیشتر والدین کا کہنا یہ ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کے پاس موبائل فون کا ہونا ضروری ہے اس طرح اُنہیں اِس بات کی خبر رہتی ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ لیکن اِس کے برعکس اسکول انتظامیہ کا موقف یکسر مختلف ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ بچوں کے پاس موبائل فون ہونے سے نہ صرف ان کی توجہ بٹی رہتی ہے،بلکہ اس سے کلاس روم کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کارآمد ایجاد کو جتنا انسانوں کیلئے رحمت ہونا چاہیے تھا اتنا ہی اکثر صورتوں میں ایک عذاب بھی بن چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب ماں باپ ،اساتذہ اور بزرگوں کا وہ مقام ،وہ کردار نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ اور یہاں یہ بھی سوال اُٹھنا چاہیے کہ آخر موبائل کے استعمال سے بزرگوں کا وہ مقام کیوں نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ میں اس کیلئے نئی نسل کو مورد الزام نہیں ٹھرائو گا کیونکہ یہ مرتبہ والدین اور بزرگوں نے خود گنوایا ہے او ر وہ بھی صرف اس شوق کے لیے کہ لوگوں کو پتا چلے کہ ہم اپنی اولاد کو کتنی سہولتیں دے سکتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ صبح ہی صبح گھر سے باہر گیٹ کے سامنے کھڑا تھا،دیکھتا ہوں کہ ایک کم عمر لڑکا اپنی گاڑی خود چلا کر آ رہا تھا ،میں اس بچے کو گاڑی چلاتے دیکھ کر بہت حیران ہوا،گاڑی جیسے ہی میرے سامنے سے گزری دیکھتا ہوں کہ بڑی سی گاڑی میں (جِس کے کلچ اور بریک تک جانے کیلئے بچے کو تقریبا کھڑا ہونا پڑرہا تھا) بچے کی ماں اس کے ساتھ سامنے کی سیٹ پر موجود تھی ا ور بیٹے کے اس کارنامے پر خوشی سے بے حال تھی اور مجھے باہر کھڑے ویری گڈ بیٹا ویری گڈ کی آوازیں سنائی دئے رہی تھیں۔بجائے خوشی کے افسوس ہوا کہ یہ کیسی ذہنیت ہےاوروالدین اِس طرح کی حرکتوں سےاپنے بچوں کو کیا سبق دینا چاہ رہے ہیں۔ یہ واقعہ تو بس اپنا موقف سمجھانے کے لیے بیان کیا ہے کیونکہ کچھ یہی حال موبائل فون کے ساتھ بھی ہے۔ پہلےاسٹیٹس صرف اِس بات کو سمجھا جاتا کہ بچے کے ہاتھ میں موبائل ہو لیکن حالات اب تبدیل ہوگئے ہیں اور معیار اِس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ کس کے پاس کتنا مہنگا موبائل ہے ۔ بس والدین کے اِس رویے اور سوچ کی تبدیلی کے بعد بیچارہ استاد کس کھیت کی مُولی ہے وہ کس طرح بچوں پرسختی کرسکتا ہے۔و رنہ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ جو بچہ بھی کلاس میں موبائل فون استعمال کرئے اور احکامات کے بعد سوئچ آف نہ کرئے اس کا موبائل ضبط کر لیا جائے۔تاکہ آئندہ کوئی بھی کلاس میں موبائل استعمال کرتے ہوئے دس بار سوچے۔ باقی رہی استعمال کی عمر تو وہ ہم نے اب تین سال کے بچوں کو بھی اس کا عادی بنا دیا ہے۔ یہ معاملہ اب صرف موبائل تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی آٹھ نو سال کے بچے مزئے سے لاگ اِن ہوجاتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کمپیوٹر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کم عمر بچوں سے استعمال سے روکے لیکن والدین تو یہ کام کرسکتے ہیں نہ مگر وہ بھی جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ موبائل فون کی فروانی سے کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا۔جس میں خاص طور پر اغوا برائے تاوان،رہزنی کی وارداتیں جبکہ خود موبائل چھینے جانے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ جن کی تعداد گنتی میں نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی جانا ہوا ،ویگن کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑا تھا پاس میں کچھ اور مسافر بھی موجود تھے جن میں ایک نوجوان لڑکی بھی شامل تھی۔ اچانک دو لڑکے آئے جو موٹرسائیکل پر سوار تھے ،کھڑے ہوتے ہی ایک نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے لڑکی کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا،اس کے ہاتھ سے موبائل فون چھینا اور نصیحت کرتے ہوئے روانہ ہوگیا۔ مجھ سمیت وہاں کھڑا ہر شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ لڑکے اُس لڑکی کے بھائی ہونگے لیکن اُس وقت ہم سب حیران ہوگئے جب لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ اُن لڑکوں کو جانتی تک نہیں اور وہ بہانے سے اُسکا موبائل لے گئے۔
اِس پوری بات کا کرنے کا صرف ایک مقصد ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کے بجائے اِسے احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا کہ ان کے بچوں کو واقعی موبائل فون کی ضرورت ہے،موبائل فون دینے کے بعد ان کے پاس اس چیز کا ریکارڈ بھی موجود رہے گا کہ ان کے بچےکس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟آیا ان کے موبائل پر انہیں کوئی پریشان تو نہیں کر رہا۔بعض اوقات ایسی کالز بھی موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ کم عمر یا حساس طبیعت رکھنے والا آپ کا عزیز ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔
< PREVIOUS
ایک ناقابل فراموش شخصیت "اشرف قدسی"
NEXT >
تبادلہ خیال
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
31 May, 2014
Views: 642
About the Author:
Shahzad Ahmad
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Step By Step
Recent
Society & Culture
Articles
ارتقاءِ انسانی کی تیسری سیڑھی(حصہ سوم)
نوجوانوں کو فنی مہارتیں سکھائیں
چین انٹرنیٹ کی سب سے بڑی عالمی مارکیٹ
ارتقاءِ انسانی کی تیسری سیڑھی(حصہ دوم)
View all Society & Culture Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
عورت آخر معاف کیوں کرے؟
کیا واقعی عورت ہی عورت کی دشمن ہے؟
پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کا کیا کرنا چاہئے؟
چین میں بچوں کی پیدائش کی سازگار پالیسیاں متعارف
The role of media in today's world
CHILD LABOR IN PAKISTAN
Present problems of Pakistan
Short history of pakistan independence (1900-1947)