بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کتابیں اپنے آباء کی
ابن تیمیہ الحرانی ( م۲۰- ذیقعدہ ۷۲۸ ھ)وہ پہلے عالم ہیں جنہوں نے کعبۂ
محبت، قبلۂ عشق ، مقصودِ تخلیق ِ کونین ﷺ کی قبر انور کی زیارت کے لیے سفر
کو(معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ ) غیر مشروع ، بدعت اور گناہ قرار دیا ،توسل،
استغاثہ اور اس سے متعلقہ امور کوناجائز ٹھہرایا اور ان کے متبعین نے یہ
دعوی کیا کہ زیارت ِ نبوی کے سلسلہ میں کوئی ایک صحیح حدیث بھی موجود نہیں،
آج تک یہ لوگ اسی فتوے پر قائم ہیں -
بہت سے اکابر امت کے ساتھ ساتھ علامہ تقی الدین السبکی الشافعی رحمہ اللّٰہ
(م۷۵۶-ھ) میدان میں آئے اور شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام ﷺ کے نام سے
مبسوط کتاب قلم بند فرمائی، ابن تیمیہ کے دعووں کو دلائل سے رد کیا اور اس
موضوع پر احادیث ِصحیحہ کا ذخیرہ جمع کر کے علم اور محبت دونوں کے تقاضے
پورے کر دیے -عاشقان ِ مصطفی ﷺ کے لیے یہ کتاب ایک ایسا گلدستہ ہے جس کے ہر
پھول کی مہک مشام ِ جاں کو معطر کرنے والی ہے ،علامہ سبکی کہتے ہیں کہ یہ
دعوی اس لائق نہیں کہ کوئی عالم اس کی تردید میں کتاب لکھے میرا مقصد
مستقلا زیارت نبوی کے عنوان پر کتاب لکھنا ہے( اگرچہ اس میں اس فریق مخالف
کے دلائل کا رد بھی ہے ) پہلے آپ نے کتاب کا نام شن الغارۃ علی من أنکر سفر
الزیارۃ رکھا ،لیکن جب استخارہ کیا تو مذکورہ بالانام یعنی شفاء السقام فی
زیارۃ خیرالانام ﷺزیادہ موزوں محسوس ہوا ، آئیے ایک نظر کتاب کے مشمولات پر
ڈالتے ہیں:
پہلے باب میں وہ احادیث ذکر کی گئی ہیں جن میں منصوص طور پر زیارت ِ نبوی
کی ترغیب ملتی ہے :
(۱) من زار قبری وجبت لہ شفاعتی (عن نافع عن ابن عمر،دار قطنی،بیہقی)
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی ‘‘
مصنف نے اس کی دس سے زائد اسناد ذکر کی ہیں اور ایک راوی عبید اﷲ پر جرح کا
مفصل جواب بھی دیا ہے -اسی پر بحث کرتے ہوے لکھتے ہیں :
’’ ہم نے زیارت ِ نبوی کے حوالے سے جو احادیث جمع کی ہیں وہ بیس کے لگ بھگ
ہیں ،جن میں زیارت کا لفظ موجود ہے ،اس کے علاوہ کچھ اور احادیث بھی ہیں جو
ان کی تائید کرتی ہیں ،اور بعض احادیث کا بعض کی تائید کرنا ان کی قوت میں
اضافہ کر دیتا ہے یہاں تک کہ حدیث ِ حسن، حدیث ِ صحیح کے درجہ کو پہنچ جاتی
ہے - ضعیف دو طرح کی ہوتی ہے ،ایک وہ جو میں ضعف راوی کے متہم بالکذب ہونے
کی وجہ سے پایا گیاہو ، اس طرح کی حدیث میں اسناد کا زیادہ ہونا اس کی قوت
میں اضافہ نہیں کرتا اور دوسری وہ جس میں ضعف راوی کے ضعف حفظ کی وجہ سے
آیا ہو اور اس کا صادق اور اہل دیانت ہونا معلوم ہو ،اس صورت میں جب اس کی
روایت کردہ حدیث کو اور لوگ بھی روایت کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اس
نے حدیث کو یاد رکھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ،اس طرح کی احادیث میں سندوں
کی کثرت قوت میں اضافہ کر دیتی ہے اور وہ حدیث حسن اور صحیح کے درجہ کو
پہنچ جاتی ہے‘‘
(۲) من زار قبری حلت لہ شفاعتی (عن ابن عمر،البزار،)
یہ حدیث پہلی حدیث کے لیے مؤید ہے -
(۳) من جاء نی زائرا لا یعلمہ حاجۃ الا زیارتی کان حقا علی ان اکون لہ
شفیعا یوم القیامۃ (طبرانی کبیر،دار قطنی)
’’ جو میر ی زیارت کے لیے آیا اور اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہیں
تھا میرا حق ہے کہ میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں ‘‘
اس حدیث کو امام ابو علی سعید بن عثمان ابن السکن البغدادی نے اپنی کتاب
السنن الصحاح الماثورۃ عن رسول اللّٰہ ﷺ میں روایت کیا ہے اور انہوں نے
مقدمہ میں تصریح کی ہے کہ میں نے صرف صحیح احادیث کو لیا ہے ،لہذا یہ حدیث
بھی صحیح ہے -
(۴) من حج فزار قبری بعد وفاتی فکانما زارنی فی حیاتی
(دار قطنی،ابن عدی فی الکامل،البیہقی )اس کی متعدد سندیں ذکر کی ہیں - ’’
جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری
زندگی میں میری زیارت کی ‘‘
(۵) من حج البیت ولم یزرنی فقد جفانی
(ابن عدی فی الکامل)
’’جس نے حج بیت اﷲ کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے میرے ساتھ جفا کی ‘‘
یہاں پر امام سبکی نے یہ تنبیہ کی ہے کہ محدثین کا ایک حدیث کی صحت سے
انکار مطلق صحت سے انکار نہیں ہوتا بلکہ اُس خاص سند کے اعتبار سے انکار
ہوتا ہے)
(۶) من زار قبری او من زارنی کنت لہ شفیعا او شہیدا
(ابوداود الطیالسی،البیہقی،ابن عساکر)
(۷) من زارنی متعمدا کان فی جواری یوم القیامۃ
(العقیلی)
’’جس نے ارادہ کر کے میری زیارت کی وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہوگا ‘‘
(۸) من زارنی بعد موتی فکانما زارنی فی حیاتی
(دار قطنی)
(۹) من حج حجۃ الاسلام وزار قبری وغزا غزوۃوصلی علی فی بیت المقدس لم یسالہ
اﷲ عز وجل فیما افترض علیہ (الحافظ الازدی )
(۱۰) من زارنی بعد موتی فکانما زارنی وانا حی (الیعقوبی)
’’ جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں مجھے
دیکھا ‘‘
(۱۱) من زارنی بالمدینۃ محتسبا کنت لہ شفیعا وشہیدا
(۱۲) مامن احد من امتی لہ سعۃ ثم لم یزرنی فلیس لہ عذر
(ابن النجار)
’’ میرے جس امتی کے پاس طاقت تھی اور پھر اس نے میری زیارت نہیں اس کے لیے
کوئی عذر قابل قبول نہیں ‘‘
(۱۳) من زارنی حتی ینتہی الی قبری کنت لہ یوم القیامۃ شہیدا
(العقیلی فی الضعفاء ،ابن عساکر)
(۱۴) من لم یزر قبری فقد جفانی
(اخبار المدینۃ لجعفر الحسنی ،ابن عساکر عن علی )
(۱۵) من اتی ہالمدینہ زائرا لی وجبت لہ شفاعتی یوم القیامۃ ومن مات فی احد
الحرمین بعث آمنا (اخبار المدینۃ لیحی الحسینی )
دوسرے باب میں ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں زیارت کا لفظ تو وارد
نہیں تاہم ان سے زیارت ِ نبوی کے لیے سفر کرنے کی ترغیب ثابت ہوتی ہے :
(۱) مامن أحد یسلم علی الا رد اللّٰہ علی روحی حتی أرد علیہ السلام
(سنن أبی داؤود )
’’ میرا جو بھی امتی مجھ پر درود پڑھتا ہے اﷲ تعالی میری روح مجھے واپس
لوٹاتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ‘‘
امام سبکی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ائمہ نے زیارت ِ نبوی کی مشروعیت پر
استدلال کیا ہے اور ان میں امام ابو بکر البیہقی بھی شامل ہیں اور یہ
استدلال بالکل درست ہے کیونکہ نبیٔ کریم ﷺ کی طرف سے جواب عطا کیا جا نا
واقعی اتنی بڑی سعادت ہے کہ مومن کو اس کی حرص رکھنی چاہیے اور اس کے حصول
کا متمنی ہونا چاہیے -
علامہ سبکی نے یہاں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس حدیث میں سلام سے مراد مواجہ
اقدس میں کھڑے ہوکر سلام پیش کرنا بھی ہے جیسا کہ ملنے والا دوسرے کو سلام
دیتا ہے اوراس سے مراد نبیٔ کریم ﷺ پر درود و سلام پڑھنا بھی ہے جیسا کہ
امتی دور سے بھی پڑھتے ہیں ،دونوں اس حدیث کے تحت داخل ہیں -
اسی باب میں ایک مستقل فصل میں یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچائی گئی ہے کہ
نبیٔ کریم ﷺ زائر کو جانتے ہیں اور اس کے سلام سے بھی آگاہ ہوتے ہیں -
(۲) ما من عبد یسلم علی عند قبری الا وکل بہا ملک لیبلغنی وکفی امر آخرتہ
ودنیاہ وکنت لہ شفعیا وشہیدا یوم القیامۃ
’’ جو بھی مسلمان میری قبر کے پاس مجھے سلام کہتا ہے قبرپر موکل فرشتہ مجھے
وہ پہنچا دیتا ہے، اس کے دنیا و آخرت کے کام بن جاتے ہیں اور میں قیامت کے
دن اس کا شفیع اور گوا ہ بنو ں گا ‘‘
تیسرے با ب میں زیارت ِ نبوی کے متعلق وہ دلائل جمع کیے گئے ہیں جن سے
صراحتا اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ،مثلا حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کا شام سے
مدینۂ منورہ زیارت ِ نبوی کے لیے آنا ،(رواہ ابن عساکر و المقدسی) نبیٔ
کریم ﷺ کا حضرت بلال کے خواب میں آنا اور کہنا کہ بلال یہ کیا بے وفائی ہے
؟ تو ہمیں ملنے نہیں آتا، حضرت بلال کا قبر انور پر منہ رکھنا اور مَلنا -
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اﷲ عنہ کا زائر ِ مدینہ کو بوقت ِروا نگی یہ
حکم دینا کہ قبر انور کے سامنے کھڑے ہو کر میرا سلام پیش کرنا -جتنے فقہاء
نے بھی مناسک ِحج پر کتابیں لکھیں سب نے مناسک ِ حج کی تکمیل کے بعد زیارت
ِ نبوی کو مستحب یا واجب لکھا اور اس کے آداب وفضائل بیان کیے -قاضی عیاض
علیہ الرحمہ نے مشہور فقیہ اسحاق بن ابراہیم کے حوالے سے لکھا ہے کہ قرون
اولی سے امت مسلمہ کا تعامل رہا ہے کہ وہ جب حج کے لیے جاتے ہیں تو مدینۂ
منور ہ حاضر ہوتے ہیں تاکہ مسجد شریف میں نماز پڑھیں ،آپ کے روضۂ انور
،منبر مبارک، قبر اطہر اور ان مقدس جگہوں کی زیارت سے برکت حاصل کریں جہاں
آپ کے مبارک ہاتھ لگے یا آپ کے قدموں نے جن جگہوں کو مشرف فرمایا، جہاں
جبریل وحی لے کر اترتے رہے -
چوتھے باب میں زیارت ِ نبوی کی مشروعیت اور اس کے استحباب کے متعلق علماء
کی تصریحات ذکر کی گئی ہیں -ان میں قاضی عیاض ،قاضی ابو الطیب، امام حلیمی
،ماوردی ،صاحب المہذب ،ابن الجوزی ،ابن قدامہ الحنبلی،اورمذاہب ِ اربعہ کے
اکابر شیوخ کی تصریحات ذکر کی گئی ہیں -
پانچویں باب میں ادلۂ اربعہ (قرآن ،سنت ،اجماع اور قیاس ) کے ذریعے اس بات
کومقامِ ثبوت تک پہنچایا گیا ہے کہ زیارتِ نبوی عبادات میں سے ایک عبادت ہے
-اس میں ضمنی طور پر زیارت ِ قبور کی بحث بھی آئی ہے، علامہ سبکی فرماتے
ہیں کہ:
’’غیر نبی کی قبر کی زیارت کے متعلق اگر جواز اور عدم جواز میں اختلاف ہو
بھی تو پھر بھی اس سے زیارت ِ قبر اطہر کے متعلق اختلاف پیدا نہیں ہو سکتا
،کیونکہ زیارت ِ نبوی آ پﷺ کی تعظیم ہے اور آپ ﷺ کی تعظیم واجب ہے ‘‘
مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ عام طور پر زیارت ِ قبور کا فائدہ مدفون کو ہوتا
ہے لیکن زیارت ِ قبر نبوی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ زائر کو برکتیں ملیں، اور
استغفار ِ نبوی کا حق دار بن جائے - حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سفر
پر گئے ہوئے تھے ،اسی دوران بھائی فوت ہو گیا ،واپس آئے تو بھائی کی قبر پر
گئے اور وہاں جاکر دعا و استغفار کی -نبیٔ کریم ﷺ شہدائے احد کے مزارات پر
تشریف لے گئے -نیک مقصد اور حسن نیت کے ساتھ غیرنبی کی قبر بھی کار ِ ثواب
ہے تو پھر نبیٔ کریم ﷺ کی قبر اطہر کی حاضری یقینا بڑے ثواب کی موجب ہے -
چھٹے باب میں زیارت ، نبوی کے لیے سفر کو عبادت ثابت کیا گیا ہے -
ساتواں باب مخالفین کے دلائل کے رد کے لیے مخصوص ہے اور اس میں ان کی مشہور
دلیل حدیث شدّ رحال کو موضوع ِ سخن بنایا گیا ہے -حق یہ ہے کہ امام سبکی نے
اس حدیث سے استدلال کی دھجیاں اڑا دی ہیں اور ابن ِتیمیہ اور اس کے متبعین
کو ناکوں چنے چبوائے ہیں -
مصنف کہتے ہیں :
’’ اس حدیث میں موجود استثناء چونکہ مستثنی مفرغ ہے اس لیے اس کے مستثنی
منہ میں دو احتمال ہیں یا تو مستثنی منہ ،مستثنی کی جنس سے ہوگااور عبارت
یوں ہو گی
لا تشد الرحال الی مسجد الا الی المساجد الثلاثہ
’’کسی مسجد کی طرف سفر کا اہتمام نہ کیا جائے سوائے تین مساجد کے ‘‘
یا مستثنی منہ عام ہوگا ،اس صورت میں مفہو م حدیث یوں ہو گا
لا تشد الرحال الی مکان الا الی المساجد الثلاثہ
’’ کسی بھی جگہ کی طرف سفر کا اہتمام نہ کیا جائے سوائے تین مساجد کے ‘‘
پہلی صورت میں اس حدیث سے استدلال کا کوئی معنی نہیں کیونکہ نفی کسی اور
مسجد کی طرف سفر کی ہے نہ کہ مطلق سفر کی -
دوسری صورت میں طلب ِ علم کا سفر، میدان ِ عرفات کی طرف مناسک ِ حج کی
ادائیگی کے لیے سفر ،جہاد کے لیے سفر، دار الکفرسے دار الاسلام کی طرف سفر
ہجرت وغیرہ اسفار کے متعلق متبعیین ِ ابن تیمیہ الحرانی کیا فرمائیں گے
؟کیا یہ سارے سفر بھی ناجائز، غیر مشروع ،بدعت اور معصیت ہیں ؟
ابن یتمیہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین میں کسی نے زیارت ِ قبر
اطہر کے لیے سفر نہیں کیا -سبکی فرماتے ہیں کہ حضرت بلال کا شام سے زیارت
نبوی کے لیے آنا ہم تفصیل سے بیان کر چکے، حضرت عبد اﷲ ابن عمر بعد از وصال
ِسیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہما ،زیارت ِ نبوی کے لیے حاضر ہوتے اور تینوں
مزارات ِ مقدسہ کے ساکنین کو سلام پیش کرتے ،اس کے بعد یہ کیسے کہا جا سکتا
ہے کہ یہ عمل بدعت ہے اور یہ صحابہ نے نہیں کیا -
یہاں پر علامہ سبکی نے ابن تیمیہ کے اس فتوی کا پورا متن خود ابن تیمیہ کے
ہاتھ کی تحریر سے نقل کیا ہے جس میں اس نے اس سفر کو سفر معصیت قرار دیتے
ہوے اس میں نماز میں قصر کو ناجائز قرار دیا ہے اور بہت سے دعوے کیے ہیں ،
علامہ سبکی نے اس فتوی کو نقل کر کے اس کے ایک ایک پہلو پر علمی نقد کیا ہے
اور اس کے باطل ہونے کو واضح کر دیا ہے -مثلا
سفر زیارت کا معصیت ہونا
صحابہ میں کسی کا زیارت نبوی کے لیے سفر نہ کرنا
اس معاملے میں کسی حدیث کا موجود نہ ہونا
زیارت والی تمام احادیث کا موضوع ہونا
ان سب دعاوی پر تفصیلی جرح فرمائی ہے -
آٹھویں باب میں توسل ،استغاثہ اور نبیٔ کریمﷺ سے شفاعت طلب کرنے کی بحث ہے
-سبکی فرماتے ہیں :
’’نبیٔ کریم ﷺ کو وسیلہ بنانا ہر حال میں جائز ہے ، آپ کی ولادت سے پہلے
بھی ،آپ کی ظاہری زندگی میں بھی ،عالم ِ برزخ میں بھی اور قیامت کے میدان
میں بھی اور جنت میں بھی ‘‘
اس سلسلے میں امام سبکی کی ذکر کردہ چند احادیث ملاحظہ ہوں :
(۱) حضرت آدم علیہ السلام کا آپ کو وسیلہ بنانا امام حاکم نے ذکر فرمایا ہے
اور دلائل النبوۃ میں بھی مذکور ہے -
(۲) حضرت عبد اﷲ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ـ:
’’اﷲ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ محمد ﷺ پر ایمان لاؤ
اور اپنی امت کو ان پر ایمان لانے کا حکم دو اس لیے کہ اگر محمد نہ ہوتے تو
میں آدم کو پیدا نہ کرتا ،وہ نہ ہوتے تو میں جنت و جہنم نہ بناتا ‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے حسن ، صحیح قرار دے کر مستدرک میں ذکر کیا ہے جبکہ
ابن تیمیہ اسے موضوع کہتا ہے -
(۳) حضرت نوح ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آپ ﷺ سے توسل بھی مفسرین نے
ذکر فرمایا ہے -
(۴) حضرت عثمان بن حنیف کی روایت کردہ حدیث جس میں آپ ﷺ نے خود نابینا شخص
کو توسل کی تعلیم دی ،امام ترمذی نے اسے حسن ، صحیح قرار دیا ہے ،امام
نسائی نے بھی اس کو روایت کیا ہے -
(۵) اسی تعلیم فرمودہ توسل کے طریقہ کو صحابہ نے وصال ِ نبوی کے بعد بھی
استعمال کیا ،اور یہ بعد از وصال توسل کی دلیل ہے -
نویں باب میں حیات ِ انبیاء علیہم السلام کی بحث ہے ،اس میں حیات ِ شہداء،
سماع ِ موتی ،ادراکِ موتی اور رو ح کا ابدان میں واپس آنا ثابت کیا گیا ہے
، امام الحرمین نے الشامل میں فرمایا ہے کہ ان سب باتوں پر امت مسلمہ کا
اجماع ہے -ابو بکر ابن العربی کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اہل سنت کے درمیان
کسی قسم کا اختلاف نہیں -
دسواں باب شفاعت کے متعلق ہے ،اس میں شفاعت کی اقسام ،شفاعت کے متعلق
احادیث اور اہوال ِ قیامت میں لوگوں کا دامن ِ مصطفی ﷺکو تھامنا ، مقام ِ
محمود اور اس سے متعلقہ امور کا ذکر ہے - کتاب کے اختتام پر علامہ سبکی نے
درود و سلام کے مختلف محبت بھرے صیغے ذکر کیے ہیں اور اس درود و سلام کے اس
مجموعے کو خاتمۃ الکتاب قرار دیا ہے -
پاکستان میں شفاء السقام کا متن ترجمہ کے ساتھ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز
لاہور کی طرف سے شائع ہوا ہے ، ترجمہ نگار علامہ محمد ظہور اﷲ الازہری ہیں
- |