بھارت میں الیکشن ہوئے اور بی جے
پی کے نریندرمودی جیت گئے۔ یوں تو بھارت میں کسی کی بھی حکومت ہو وہاں
اقلیتیں عام طور پر اور مسلمان خاص طور پر غیر محفوظ رہتے ہیں ۔خود کو
دسیکولر کہلانے والی کانگریس جو بھارت کی بانی جماعت بھی ہے اور اکثر اوقات
بر سر اقتدار بھی رہتی ہے کے دور میں بھی مسلمان کبھی محفوظ نہیں رہے۔ ابھی
چند ماہ پہلے ہی مظفر نگر میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ جانوروں کے
ساتھ بھی کیا جائے تو تحفظ حیوانات کی تنظیمیں چیخ اٹھتی ہیں ،لیکن وہ
بھارت کے مسلمان تھے اس لیے زیادہ ہلچل نہیں ہوئی اس کے علاوہ بھی کئی
واقعات ان کے نامہ اعمال میں شامل ہیں ۔ پاکستان دشمنی بھی بھارت کی ہر
حکومت کا طرۂ امتیاز ہے اور پاکستان کا توڑنا بھی کانگریس کا ہی کارنامہ ہے۔
کانگریس یہ سب کچھ کرتی ہے لیکن کہلاتی خود کو سیکیولر ہے جبکہ دوسری طرف
بی جے پی جو آج نہیں بلکہ کئی بار حکومت میں آچکی ہے اور اسی مسلم دشمنی
اور پاکستان دشمنی ہی کے نعرے کی بنیاد پر اب کی بار بھی اسی ذہنیت نے فتح
حاصل کی ہے اور پاکستان اور اسلام کے خلاف کھلم کھلا بولنے والے نریندر
مودی نے آخر کار وزارتِ عظمیٰ حاصل کر ہی لی ۔ یہ وہ ہی مودی ہے جس نے
گجرات میں انسٹھ ہندؤں کے بدلے دو ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ 27
فروری 2002 کو ایک ٹرین پر جب حملہ ہوا اور اس میں انسٹھ ہندو مارے گئے تو
اس کا الزام بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں پر دھر دیا گیا اور وزیر اعلیٰ
گجرات نریندر مودی نے اپنی ریاستی پولیس کو استعمال کرتے ہوئے دو ہزار
مسلمانوں کا قتل عام کیا اور اب بھی اس کا ذکر فخر سے کرتا ہے۔ساری دنیا
جانتی ہے کہ وہ ان دوہزار مسلمانوں کا قاتل ہے، ان فسادات میں کم از کم
ڈیڑھ لاکھ افراد بے گھر ہوئے، عورتوں کی بے عصمتی کی گئی، لوگوں کو ہراساں
کیا گیا ،ان کی جائیداد کی تفصیلات بذریعہ پولیس بلوائیوں کو دی گئیں اور
انہیں چھینا گیا یا جلا دیا گیا۔ یہ سارے کار نا مے مودی کے کریڈٹ پر ہیں
جن کو وہ مانتا ہے اور اکثر بیان کرتا ہے۔
وہ بھارت کی سر زمین پر کسی غیر ہندو باشندے کا حق تسلیم نہیں کرتا بلکہ
اسے بھارت چھوڑنے یا پھر مرنے ہی کی اجازت دیتا ہے۔ بابری مسجد کو مسمار
کرنے میں اس کا شرم ناک کردار تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسے
بھارت میں پزیرا ئی ملتی ہے اور وہ ایک ایسی واضح اکثریت حاصل کرتا ہے کہ
اسے حکومت بنانے کے لیے کسی پارٹی، کسی آزاد امیدوار کو اپنے ساتھ ملانے کی
ضرورت نہیں اور ایسا 1984 کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ کسی جماعت کی لوک سبھا
میں اتنی سیٹیں ہوں کہ وہ خود ہی حکومت بنا سکے۔543 میں سے 336 سیٹیں بی جے
پی نے حاصل کیں اور انتہا پسند ہندو جماعت کا انتہا پسند ترین لیڈر مودی
بھارت کا پندرھواں وزیراعظم بن گیا۔ تو کیا اس پس منظر و پیش منظر کے بعد
بھی دنیا بھارت کو سیکولر ملک سمجھے گی اور وہاں کے مسلمانوں کو محفوظ، اور
کیا اب بھی بھارت میں ہر دہشت گردی کے واقعے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالا
جائے گا۔ ابھی نو مئی کو بھی اخبار انڈین ایکسپریس نے الزام لگایا کہ تامل
ناڈو پولیس نے آئی ایس آئی کے ایک ایجنٹ کو گرفتار کیا اور کولمبو سری لنکا
میں پاکستان ہائی کمیشن کے ویزا کاؤنسلر عامر زبیر صدیقی کو بھی اس کا
ساتھی قرار دیا لیکن سری لنکا نے بر وقت اس الزام کی تردید کردی اور یوں یہ
معاملہ بڑھنے سے رُک گیا ورنہ اسے بھی ممبئی حملوں کی طرح ہر صورت پاکستان
کے کھاتے میں ہی ڈالا جاتا۔آئی ایس آئی اور پاکستان سے بھارت کا خوف کھانا
کچھ بے جا نہیں کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی اس سے ٹکر لے
سکتا ہے تو وہ پاکستان ، اس کی فوج اور آئی ایس آئی ہے لیکن یوں انہیں ہر
معاملے میں گھسیٹ لینا بھی کافی خطرناک ہے کیوں کہ ظاہر ہے بھارت اور خاص
کر اس کے میڈیا کے اس رویے کے خلاف پاکستان میں بھی رد عمل آئے گا اور بات
سلجھنے کی بجائے الجھتی جائے گی اور بھارت میں مسلمان بھی چونکہ کروڑوں کی
تعدادمیں ہیں لہٰذا خود بھارت کے اندر بھی دونوں بڑے مذاہب کے درمیان حالات
قابو سے باہر ہو سکتے ہیں جو نئی حکومت کے لیے مشکل ہونگے۔
وزیر اعظم پاکستان نے اگرچہ اکثریت کی رائے کے خلاف مودی کی حلف برداری کی
تقریب میں شرکت کی لیکن اس موقع پر بھی کسی خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کی
بجائے انہیں پاکستان کے خلاف چارج شیٹ ہی پکڑائی گئی ۔ یہ اور بات ہے کہ
ہمارے وزیراعظم بھارتی اداکاروں، اداکاراؤں اور تاجروں سے ہی ملاقات کر کے
اتنے خوش تھے کہ انہیں اپنے ملک کے نقطۂ نظر اور مسائل پر بات نہ کرسکنے کا
کو ئی افسوس نہیں ہوا۔ ہاں بھارت کی نئی حکومت نے اپنی نیت اور ذہنیت دونوں
کا اظہار کر دیا ، لیکن اگراب بھی سرحد کے اُس پار سے احتیاط بر تی جائے تو
بہتر ہوگا ورنہ ہر عمل کا ایک رد عمل ضرور آتا ہے جو بھارت کے مسلمانوں اور
پاکستان دونوں طرف سے ہو سکتا ہے۔ نر یندر مودی اگر اپنا ماضی بھول کر اور
اس پر فخر کرنا چھوڑ دیں تو اگرچہ مسلمان اس ماضی کو اپنے ذہنوں سے نکال تو
نہ سکیں گے تاہم وقت کسی نہ کسی طرح سمجھوتے کے ساتھ گزر جائے گا ورنہ
بصورت دیگر حالات کو سنبھالنا مشکل رہے گا اور بھارت حسب معمول ہر مشکل کا
الزام پاکستان کے سر دھرتا رہے گااور یوں حالات کبھی بھی قابو میں نہ آسکیں
گے۔ اس لیے بھارت کی نئی حکومت اگر پاکستان اور مسلمانوں پر نظر رکھنے پر
زیادہ وقت ضائع نہ کرے اور خود کو قابو میں رکھے ،اپنی انتہا پسندی کولگام
دے تو یوں اس کے لیے بھی آسانی رہے گی اور اس کے پڑوسی بھی اس کی الزام
تراشیوں اور ریشہ روانیوں سے محفوظ رہیں گے۔ |