خراج تحسین (Tribute ) ۔۔۔۔

آج ٣١ دسمبر سلمان تاثیر کا جنم دن تھا اسکی اولاد ( بیٹی ) اور اسکی نظریاتی اولاد نے آج اسکا ناصرف جنم دن منایا بلکہ کالم لکھ کر اسے خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔ اور ٹیوٹر پر آج محترمہ ماروی سرمد صاحبہ جو کہ صحافی اور ہیومن رائٹس کی چئمپئین بھی ہیں نے ایک ٹویٹ کیا اور سلمان تاثیر کو شیر پنچاب کہا، تہذیب کے دائرہ میں رہ کر میں نے جواب دیا، مگر محترمہ کو ناگوار گذرا اور صحافتی اقدار اور ہیومن رائٹس کو بھول گئیں اور گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جو سب سے مہذب گالی دی وہ محترمہ نے جہالت کا طعنہ دیا۔ باقی جو محترمہ نے کہا وہ نقل نہیں کرسکتا۔ خیر محترمہ سے میں نے کہا کہ میں نے سلمان تاثیر کے بارے میں ایک جملہ کہا اور آپ جذبات میں آگئیں، اسی طرح جب آپ کے تاثیر نے ناموس رسالت کے قانون کے خلاف بکواس کی تو جذبات ہمارے بھی مجروح ہوے تھے، لاکھوں تاثیر میرے آقا کے نعلین کے ساتھ لگی مٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سلمان تاثیر کے حمایتی آج اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں تو میرے دل نے مجھ سے کہا کہ تو آج غازی ممتاز حسین قادری کو خراج تحسین پیش کرو۔ لہذا آج کا مضمون عاشقان مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے نام۔ ضلع ننکانہ کی پانچ بچوں کی 45 سالہ ماں آسیہ نے(جس پر توہین رسالت کا الزام تھا) " مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعتراف جرم کیا " اور پھر اسے " ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب نوید اقبال نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے 8 نومبر 2010ء کو آسیہ بی بی کیلئے سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا اعلان کیا۔" اور "اس سزا کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور ساتھ ہی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کو بھی ظالمانہ قرار دے دیا۔ کچھ دنوں بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر شیخوپورہ جیل پہنچ گئے۔ انہوں نے بھی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوادیں گے۔ سلمان تاثیر نے بھی 295 سی پر تنقید کی جس کے بعد آسیہ بی بی پس منظر میں چلی گئی اور 295 سی پر بحث شروع ہو گئی جو آج تک جاری ہے۔ سلمان تاثیر نے پاکستانی عدالت کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لیا اور ایک گستاخ عورت آسیہ کی پشت پناہی کی۔ جب سلمان تاثیر کو اس عمل پر تنبیہ کی گئی تو اس نے ایک چوری اوپر سے سینہ زوری کرتے ہوئے 2009 سے لے کر 2011 کے آغاز تک پاکستان میں ناموس رسالت، قانون توہین رسالت کی شدید مخالفت کی اور سماء ٹی وی پر مہر بخاری کے ساتھ ایک انٹرویو میں اسے کالا قانون قرار دیا۔ اس وقت کی حکومت نے سلمان تاثیر سے بازپرس نہ کرکے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ سلمان تاثیر پر اکتوبر 2009 میں مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی گئی لیکن گورنر پنجاب کا استثنیٰ آڑے آگیا۔ 4 جنوری 2011کی سہہ پہرگورنر پنجاب سلمان تاثیر کے حفاظتی دستے میں سے ایک چھبیس سالہ عاشق رسول غازی ممتاز حسین قادری نے اسے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ ممتاز قادری اسلام اور مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ ہم انہیں سلیوٹ پیش کرتے ہیں۔ اللہ کرے جلد از جلد غازی کو رہائی نصیب ہو۔ عصر حاضر کے علم دین تجھے سلام!

غازی ممتاز قادری نے مجھے اڈیالہ جیل سے کوئی رقم نہیں بھجی جسکی وجہ سے نصف شب بیٹھ کر اس پر مضمون لکھ رہا ہوں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ میں غاذی صاحب کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں، وجہ صرف ایک ہے ۔ ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست ، بحر بر در گوشہ دامان اوست ، اور اقبال نے کہا ، کی محمد صلی الله علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں، یہ جہاں ہے چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔ حضور بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ والہانہ عشق کے تقاضے کے حوالے سے وہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلے میں انتہائی جذباتی نظر آتے ہیں،اورآخر کیوں نہ ہوں کہ ایک پکا اورسچا مسلمان اِس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرہی نہیں سکتا،ایک مسلمان اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے نام و ناموس پر مرمٹنے اور اُس کی خاطر دنیا کی ہرچیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا ہے،ہماری اِس بات پر تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی ایسی شہادتیں موجود ہیں جو ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہیں،تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں کو اقتدار حاصل رہا،وہاں کی عدالتیں شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سزائے موت کا فیصلہ سناتی رہیں،لیکن اِس کے بر عکس جب کبھی یا جہاں کہیں اُن کے پاس حکومت نہیں رہی،وہاں جانثاران ِتحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم حکومت کے رائج قوانین کی پرواہ کیے بغیر گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیفر کردار تک پہنچایا اور خود ہنستے ہوئے تختہ دار پر چڑھ گئے۔ پاکستانی مسلمان بہت کچھ برداشت کرسکتے ہیں،لیکن شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے حمایتوں کو کسی طور بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔

بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہےدین پر مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ آج کے مضمون میں کچھ ذکر غاذی علم دین شہید کا بھی کرنا چاہتا تھا مگر طوالت کے پیش نظر اختتام کررہا ہوں انشاءالله آئندہ ضرور لکھوں گا۔ ۔۔ دل میں عشق محمد نہیں ہے اگر کلمہ سننے سنانے سے کیا فائدہ ، قلب میں شوق طیبہ نہیں ہے اگر مکہ میں آنے جانے سے کیا فائدہ ، خشک سجدے کیے خوب ماتھا گھسا اور پیشانی پہ داغ سجدہ بنا ، قلب داغ محبت سے خالی رہا یونہی ماتھا گھسانے سے کیا فائدہ ۔۔۔
یہ روز محشر کو ہوگا فیصلہ کہ جیتا کون اور ہارا کون ۔۔۔۔ ؟؟؟
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172186 views System analyst, writer. .. View More