کراچی آنا منع ہے

شمالی وزیر ستان میں پاکستانی افواج کی جانب سے وہاں کے مکینوں کو ہدایات دیں گئیں ہیں کہ وہ اپنے گھروں پر پاکستانی پرچم لہرا دیں ۔ذرائع کے مطابق شمالی وزیر ستان میں ممکنہ آپریشن کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، حافظ گل بہادر گروپ نے بھی حکومت کو امن معائدے کی پاسداری کیلئے 10جون کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے اعلان جنگ اور عوام میں پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے نقل مکانی کرنے کا کہا ہے ۔ جبکہ حکومت نے بھی ممکنہ کاروائیوں کا جواب دینے کیلئے حکمت عملی تیار کرلی ہے اور طالبان کی گروپ بندیوں کے بعد اس موقع َ غنیمت بھی سمجھا جارہا ہے کہ کیونکہ کالعدم طالبان پاکستان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور واضح طور پر گروپ بندی منظر عام پر آچکی ہے ، لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور شمالی وزیرستان میں موجود غیر ملکیوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو گرفتار یا ہلاک کرکے پاکستان میں بد امنی کی فضا کو کم کیا جاسکے اور بین الاقوامی طور پر حکومت پر جو دباؤ ہے وہ بھی کم ہوسکے۔جنوبی وزیرستان وقبائلی علاقوں سے 16لاکھ افراد نے نقل مکانی کی تھی جو ابھی شروع کئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں تاحال قبائلیوں کی واپسی ممکن نہیں ہوسکی ہے اور ان کی جانب سے متعدد بار مظاہرے بھی کئے جاتے رہے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں اگر فوج نے اپنی عملداری قائم کردی ہے تو پھر انھیں واپس اپنے گھروں میں جانے کیوں نہیں دیا جارہا انھیں امداد کیوں نہیں دی جارہی۔طالبان کے ساتھ حکومتی کمیٹی کے مذاکرات وقت کا ضایع ثابت ہوئے اور کسی نتیجہ کے بغیر میڈیا کے ذریعے دونوں جانب سے الزام تراشیوں کا سلسلہ اور میڈیا میں آن ائیر آنا کا شوق پورا کیا گیا اور بالاآخر شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن کی اطلاعات کے بعد قبائلیوں کو نئے مصائب کا سامنا ہے۔

سوات ، دیر و ملحقہ علاقوں سے جب لاکھوں کی تعداد میں جنگ سے متاثرہ خاندان اپنے آبائی علاقوں سے نکلے تو اکثریت کا رخ کراچی کی سمت بھی تھا ، کیونکہ یہاں ان کے رشتے دارلاکھوں کی تعداد میں کئی عشروں سے رہ رہے تھے ، روزگار کیلئے آنے والے لاکھوں پختون آبادیاں قیام پاکستان سے قبل بھی صنعتی علاقوں سے ملحق علاقوں میں رہتی تھی جبکہ سوات کے پاکستان سے الحاق کے بعد ریاست سوات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ،لاکھوں افراد کراچی و حیدرآباد میں ہی بس گئے اور بتدریج سندھ میں پشتو بولنے والے" مقامی سندھی" بن گئے ۔گو کہ سوات اور ملحقہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے کی بڑی تعداد ، صوابی کے علاقہ کنڈ ، مردان کے شیخ شہزاد کیمپ، جلالہ کیمپ ،جلوزئی کیمپ،صوابی کے شاہ منصور کیمپ،چھوٹا لاہور کیمپ ،چارسدہ میں قائم کیمپوں میں بھی موجود تھے لیکن انسانی خدمت کی بڑی مثال اس وقت سامنے آئی تھی جب مردان صوابی کے گاؤں کے مکینوں نے اپنے گھروں کے دروازے سوات کی عوام کے لئے کھول کر انصار مدینہ کی سنت پوری کردی تھی۔

کراچی میں سوات کے ہنر مند اور حالات کے ستائے ہوئے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، حکومت سندھ کی جانب سے انھیں امداد فراہم نہیں کی گئی اور پورے سندھ میں انھیں کوئی کیمپ نہیں دیا گیا ، ماسوائے کراچی کے دور افتادہ سپرہائی وے کے ایک علاقے خلیجی گوٹھ میں ایک ایسا عارضی کیمپ بنایا گیا تھا جس میں ضروریات زندگی کی کوئی شے موجود نہ تھی ۔حکومت سندھ کی جانب سے ان سے یہی کہا جاتا تھا کہ انھیں اتنی دور آنے کے بجائے خیبر پختونخوا میں ہی رہنا چاہیے تھا کیونکہ وفاق اور عالمی ادارے وہاں آئی دی پیز کی مدد کر رہے ہیں۔لیکن پختونوں کی روایات میں یہ کہاں لکھا تھا کہ ان کے رشتے دار ان کے شہر آئیں اور وہ کیمپوں میں بے سروسامان رہیں اس لئے ہزاروں پختونوں نے اپنے رشتے داروں کے گھروں میں اس طرح پناہ حاصل کی کہ ایک ایک کمرے میں کئی کئی خاندان رہتے تھے۔چونکہ روزگار کا مسئلہ سب کو درپیش تھا س لئے جب وہ غم روزگار کیلئے باہر نکلتے تونئے آنے والے افراد کو یکدم روزگار کی فراہمی ممکن نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے بہت سے مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ۔
جب حکومت سندھ نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ملکر ٹرانسپورٹ اور فی خاندان پانچ سو روپیہ سفر خرچ مہیا کیا کہ اب آئی ڈی پیز سوات ،دیر اور جن علاقوں سے آئے ہیں، انھیں واپس چلے جانا چاہیے ۔ گو کہ سوات آپریشن کے بعد حالات اب بھی بہتر نہیں ہوئے تھے لیکن جس قدر تکلیف کی زندگی یہاں بسر کی جا رہی تھی اس پر انھوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اپنے گھر سے باہر مرنے سے بہتر ہے کہ اپنے گھروں میں ہی مرا جائے، کم از کم قبرستان میں تو جگہ مل جائے گی، یہاں تو قبرستانوں میں دفنانے بھی کوئی نہیں دے گا۔ اس لئے روزانہ کی تعداد میں سینکڑوں آئی ڈی پیز کی واپسی کا سفر شروع ہوگیا ۔لیکن ایک بہت بڑی تعداد پھر بھی رکی رہی اور اس میں خاص طور وہ افراد بھی رک گئے جو سوات آپریشن میں اپنے خلاف کاروائیوں کے ڈر سے بھاگ آئے تھے ، چونکہ کراچی میں اس وقت قوم پرستی اور لسانی سیاست بام عروج پر تھی اس لئے مختلف جماعتوں کے تحفظات کواے این پی نے یکسر رد کردیا ، جس کا خمیازہ بعد میں کراچی کے مقامی پختونوں کو بھگتنا پڑا۔لسانی ، گروہی اور قوم پرستی کی سیاست نے کراچی کو مقتل گاہ بنا دیا ، جہاں بھی غریب ریڑھی فروش ، چائے بیچنے والے ، مونگ پھلی والے کچرا چننے والے دہشت گردوں کو نظر آتے ، انھیں چن چن کر مار دیا جاتا ، ٹارگٹ کلنگ کے خوفناک عفریت نے کراچی کو اپنے مضبوط شکنجے میں پھنسا لیا اور اس مکڑی کے خونی جال سے صرف خون آلود لاشیں ہی باہر نکلتی رہیں اور اپنے آبائی شہروں کو روانہ کی جاتی تو نفرتیں آسمان کی حد بھی پار کرجاتیں ۔آہستہ آہستہ کراچی شہر سے چائے کے رات بھر کھلنے ولاے ہوٹل 80فیصد بند کرادئیے گئے ، بازاروں میں ریڑھی پر سبزیاں ، منگل ،بدھ ،جمعہ بازاروں میں ٹھیلوں پر پابندی عائد کردی گئی ، مارکیٹوں سے کئی دہائیوں سے کام کرنے والوں کو باہر نکال کر ان کی کپڑوں اور قالین کی دوکانوں کو جلا دیا گیا یا تو قبضہ کرلیا گیا ۔شناختی کارڈ کے ایڈریس پرعلاقے پہچان کرکے ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول بن گئی ، کراچی میں پختونوں کا واحد ذریعہ معاش ٹرانسپورٹ تھا ، منی بسوں ، ٹیکسیوں ، رکشوں کو جلا کر تقریبا 80فیصد کاروبار ختم کردیا گیا اور اب کراچی میں صرف چنگ چی رکشوں کا راج ہے۔

سوات طالبان کے نام پر سب سے پہلے سوات کے پختونوں کا جینا حرام کرکے کروڑوں روپیہ بھتہ لیا گیا اوربیشترنے تنگ آکر اپنی جائیدادوں کو تالے لگا کر دوسرے شہروں میں پناہ لی۔کراچی کے مقامی پختون شہریوں پر فیکٹریوں میں ملازمت اور کالجوں میں تعلیم کے دروازے بند ہوگئے,سرکاری اسکولوں میں اساتذہ نہیں آتے، انھیں ان کے گھر جاکر منتیں کرکے تحفظ کی یقین دہانی پر لایا جاتا ، کراچی کے لاتعداد علاقے میدانِ جنگ بن گئے ، گناہ گار اور بے گناہ کی پہچان ختم ہوگئی اور صرف زبان و قوم کے نام پر قتل وغارت کا بازار گرم رہنے لگا ۔پختون علاقوں میں ترقیاتی کام بند ہوگئے ، سرکاری اسکولوں پر لینڈ مافیاؤں نے قبضہ کرلیا اور تنگ آکر پختون نوجوانوں کی بڑی تعداد جرائم میں ملوث ہوتی جا رہی ہے ۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا شور ہے لیکن ان سے اپیل ہے کہ کراچی کا رخ نہ کریں یہاں سوائے بد امنی، خونی ندیوں اور نفرتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہاں صرف ٹارگٹ کلنگ ، فرقہ واریت ، لسانیت اور انسانیت فروشی باقی رہ گئی ہے، ملک کو 70فیصد ریونیو دینے اس شہر کی صنعتیں بند ہیں اورکئی عشروں سے کوئی نئی صنعت نہیں لگی ۔مزدوری کا تصور ختم ہوچکا ہے ، جس کو جو کام کرنا ہے وہ مہنگائی کی وجہ سے خود کرتا ہے ، علاقوں میں خوف کی وجہ سے نووراد شخص کی لاش ہی آتی کہ پتہ چلتا کہ مخبری کے شبے میں مارڈالا گیا۔شمالی وزیر ستان میں خانہ جنگی کے نتیجے میں ممکنہ طور پر کراچی میں آباد قبائلی عوام کے رشتے دار کے پاس دوبارہ یہ مصیبت کے ستائے عوام آئیں گے، مفاد پرست پھر احتجاج کریں گے ، دوبارہ ان گروہوں میں پناہ کی آڑ میں جرائم پیشہ و شدت پسند آئیں گے ، دوبارہ پختونوں کے گھروں کی آپریشن کی آڑ میں پامالی اورلوگ رسوا ہونگے، لہذا نکی آمد سے قبل حکومت سندھ کو چاہیے کہ ابھی سے پنجاب ، سندھ کی بارڈر پر لکھ دے کہ کراچی آنا منع ہے -
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744406 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.