یوم تکبیر میں شرکت کے لیے نواز شریف اسلام آباد سے سیدھے
نظریہ پاکستان ٹرسٹ آئے، وہ شلوار قمیص اور واسکٹ میں اچھے لگ رہے تھے، مگر
انہوں نے تقریر یوم تکبیر والی نہیں کی، مجید نظامی نے بڑا اچھا کہا مودی
کو موذی کہہ کر ہمارے دل کی بات کہہ دی، میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی
مودی کو موذی لکھا ہے،یہ بات نواز شریف کو بھی سمجھ آگئی ہوگی، لگتا ہے
نواز شریف کسی دھمکی کی زد میں ہے اور انجانا دبائو بھی ہے جو ابھی تک طاری
ہے، ایک خوف ایسی جذبے سے پھوٹتا ہے، اس خوف کو محفوظ رکھیں۔ یہ آدمی کو
دلیر بناتا ہے-
اس دورے میں شہباز شریف کو بھی ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر
پانی اور سیاچن سمیت دیگر مسائل پر مذاکرات ہونے ضروری ہیں، بہ بات بھارت
میں نریندر مودی نواز میں ہونا چاہیے تھی، ہمیں یوم تکبیر قومی سطح پر
منانا چاہیے تھا۔ یہ تقریب صرف نظریہ پاکستان میں ہوئی اور ہر سال یہی ہوتی
ہے، یہ تقریب نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران بھی اسی طرح ہوتی تھیں، اور اب
نواز شریف کی ہم وطنی اور جلاوطنی کا امتزاج تھی، مگر ان کے مزاج میں حسن و
جمال کی آہٹ نہیں تھی، ان کی موجودگی بہرحال بہت آسودگی کا باعث تھی، ہم ان
کے بھارت جانے کے دکھ کو بھی بھول گئے، جبکہ اس موقع پر جوش و جذبے سے
سرشار ترو تازہ اور امید افزا چہرے پر ملال کے سائے جھلملا رہے تھے۔ یہ صاف
نظر آرہا تھا کہ سائے اور چھائوں میں فرق ہوتا ہے-
میڈیا پر بار بار نواز شریف کے یہ جملے دکھائے جارہے تھے، جب انہوں نے چاغی
میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ کہ ہم نے آج ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کے ساتھ یہ
حساب بھی چکا دیا ہے،، اب ہم ان سے کیسے پوچھیں کہ مودی کے ساتھ ملاقات میں
انہوں نے کونسا حساب چکایا ہے،، اب ان سے اقتصادی دھماکے کی بھی امید ہے،
مگر اقبال کے بقول،
کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے جرات رندانہ
جنرل ذوالفقار علی خان چاغی کے لمحے لمحے گے گواہ ہیں۔ انہوں نے یوم تکبیر
پر سب سے پہلے اپنی تقریر میں بتا دیا تھا کہ ہمارا نیو کلیئر پروگرام
بھارت کے مقابلے میں بہت اعلی ہے، ہمارا ایٹم بم بھارتی ایٹم بم سے زیادہ
طاقت ور موثر اور محفوظ ہے، یہ بات مودی سمیت سارا ہندوستان اچھی طرح جانتا
ہے، الحمداللہ ہمارا ایک ایٹم بم بھارتی دس بموں پر بھاری ہے، ہمارا ایک
طیارہ دشمن کے دس طیاروں پر بھاری ہیں ہمارا ایک سپاہی دشمن کے دس سپاہیوں
پر بھاری ہیں نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر،، انہوں نے نواز شریف کے مصرعے کی
داد دی اور دوسرا مصرعہ بھی بتا دیا جو نواز شریف نے بھارتیوں صحافیوں کے
ساتھ گفتگو میں پڑھا تھا۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ،
امید رکھنے والے خزاں کے موسم میں بھی اپنے ولولے اور جذبے کو بھی ٹھنڈا
نہیں ہونے دیتے، دوسرے مصرعے پر بھی نواز شریف کو غور کرنا چاہیے۔
ملت کے ساتھ رابطہ ء و استوار رکھ،
بھارتی وزیر اعظم مودی سے ایک غیر ضروری ملاقات کے فورا بعد مجید نظامی کی
صدارت میں یوم تکبیر کی تقریب میں چلے آنا نواز شریف کے لیے بہت مفید ہوا،
یہ واضح پیغام بھارت کے انتہا پسندوں اور انکے وزیراعظم کے لیے،، بات کا
جواب بات چیت سے جنگ کا جواب جنگ سے ہوگا، سنا ہے نواز شریف کی ہیما مالنی
سے بھی ملاقات ہوئی یہ ملاقات اچھی لگی اگر ہمیں پتہ ہوتا تو ہم ہیما مالنی
کے لیے اپنا سلام بھجوا دیتے، ہیما مالنی کی آنکھیں جنرل ضیا کو بھی بہت
پسند تھی۔ پاکستان کے ایٹم بم کے لیے جنرل ضیاء کے کریڈٹ کو نہیں بھولنا
چائیے، انہوں نے افغانستان میں روس کے ساتھ جہاد کے دوران امریکہ کو پتہ
بھی نہیں چلنے دیا اور ایٹم بم بن گیا، یہ ڈاکٹر قدیر خان کا عظیم کارنامہ
اور احسان ہے، جیسے پاکستانی کی تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی ۔ ایٹمی دھماکوں
کے حوالے نواز شریف اور ڈاکٹر قدیر کے درمیان غلط فہمی بھی ہوئی تھی جیسے
مجید نظامی نے ختم کرادی تھی۔ صدر جنرل مشرف قوم سے معافی مانگے کونسی
معافی مانگے انہوں نے کوئی جرم کیا ہی نہیں تو معافی کس بات کی قوم تو آج
بھی ان سے محبت کرتی ہے، مجھے تو ان سے دلی لگائو ہے، ایٹمی دھماکے کرنے
والے نواز شریف کو یاد رکھنا چاہئے کہ جنرل ضیاء نے کہا تھا کہ اے خدا میری
عمر نواز شریف کو لگ جائے، اعجازالحق کو دکھ ہے کہ آج میاں نواز شریف وہی
عمر گزار رہا ہے، نواز شریف کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایٹم بم کے ذکر کے
بعد بھارتی وزیر اعظم راجو گاندھی بھی جنرل ضیاء کو دیکھتا رہ گیا تھا اور
بھارتی فوجیں پاک سرحد سے واپس چلی گئی تھی، اس طرح کی بات اگر نواز شریف
نریندر مودی سے کرتا تو وہ ہکا بکا رہ جاتا۔ مگر نواز شریف پاکستان آکر بھی
گم سم ہے، یوم تکبیر پر ان کی تقریر سے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ایک
اسلامی جمہوری ملک کے وزیراعظم ہیں، وہ امن کے پیمبر بننا چاہتے ہیں۔ ہمارے
پیارے آقا رحمت اللعالمین حضرت محمد سے بڑا امن کا پیمبر کون ہوسکتا ہے،
ہمارے نبی کو بھی کئی جنگیں لڑنا پڑی انہوں نے جنگ کو جہاد کا رتبہ دلادیا
اور میدان جنگ میں خاک و خون میں تڑپتے ہوئے مرنے والوں کو شہید بنا دیا،
کوئی کمزور آدمی امن نہیں لا سکتا امن قائم کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی
ہے، کمزور کی عاجزی بھی اچھی نہیں لگتی، عاجزی تو بندی سے بھی بہت بڑی چیز
ہے، مگر طاقت ور کے سامنے عاجزی ذلت خواری اور گناہ ہے-
کشمیر ہماری شہ رگ ہے، ہمارے گھوڑے ہمیشہ سے تیار ہیں، نواز شریف کی باتوں
میں کوئی کرارا پن نہیں تھا، نواز شریف کو علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا
کچھ پتہ تو ضرور ہوگا وہ خود داری سے واقف بھی ہونگے۔ قومی خود داری کی ذمہ
داری آج کل ان کے کاندھوں پر ہے، میرا دل کرتا ہے کہ یوم تکبیر پر نعرہ
تکبیر لگائوں۔ یہ ہماری پاک فوج کا بھی نعرہ مستانہ ہے یہ نعرہ ہماری شان
ہے، نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر، |