نیا سمسٹر شروع ہو رہا تھا۔
پچھلے سمسٹر کے بہترین رزلٹ پر نازاں بچیاں کوشش میں تھیں کہ اچھے نتائج کی
بنا پر اُنہیں وظیفہ مل جائے۔ مگر شاید کسی نے اُن کی نہیں سنی۔ کچھ بچیاں
واقعی مستحق تھیں مگر …… ایسی ہی ایک بچی میرے پاس آئی اور بڑی حسرت سے کہا
سر کیا وجہ ہے جن بچیوں کے باپ نہیں ہوتے ، جن کے پا س کوئی معتبر حوالہ
نہیں ہوتا، سفارش نہیں ہوتی وہ سکالرشپ سے ہمیشہ محروم رہتی ہیں۔ کسی کو
کیا بتائیں کہ گھر کے حالات کیسے ہیں۔ میری اکیلی ماں جو باپ کی ذمہ داریاں
بھی ادا کر رہی ہے۔ ایک چھوٹے سے سکول میں کینٹین چلاتی ہے۔ وہ عورت جس نے
میرے باپ کی زندگی میں کبھی کھانا بھی خود نہیں بنایا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے
کہ اسے تب بنانا بھی نہیں آتا تھا۔ اب سکول سے فارغ ہو تو محلے بھر میں جس
کے مہمان آئیں انہیں بھی کھانا بنا کر سپلائی کرتی ہے، ہم بہن بھائیوں کو
پڑھانے کے لیے وہ اس قدر مشقت کرتی ہے کہ ہمیں ماں پر رحم آتا ہے۔ مگر ماں
ہمارے مستقبل کے لیے دن رات کام کرتی ہے۔ اُس نے اپنی جوانی ہی نہیں اپنی
خوشیاں، اپنا وقت، اپنی مسکراہٹ اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔
سکالرشپ مل جاتا تو شاید اس کی کچھ مدد ہو جاتی۔ مگر یہاں تو کوئی سنتا ہی
نہیں۔ چیئرمین ملنے کو تیار نہیں۔ کیا کروں؟
اگلے دن ایک اور یتیم بچی ملی۔ سر کیا کروں، کوئی سفارش نہیں، امتحان میں
میری پوزیشن ہے، سکالرشپ ملنا چاہیے۔ اپلائی بھی کیا ہوا ہے مگر سفارش نہیں۔
وائس چانسلر کہتے ہیں کہ کس کس کی مدد کروں۔ یہاں تو تم جیسی سینکڑوں ہیں۔
سر میرے والد نہیں ہیں۔ ماموں کے پاس رہتے ہیں۔مگر تعلیمی اخراجات والد کے
دو، تین دوست مل کر اٹھاتے ہیں۔ وہ کبھی پیسے دینے سے انکار تو نہیں کرتے
مگر اب مجھے شرم آتی ہے۔ کیا کروں بہت مجبور ہوں۔ اگر ممکن ہو تو سفارش کر
دیں۔ شاید کوئی میری بات سن لے۔
بچیاں ٹھیک کہتی ہیں۔ ایسے اساتذہ جو انتظامی عہدوں پر تعینات ہیں وہ رویوں
کے معاملے میں بیوروکریٹس کو بھی مات کرتے ہیں۔ عام اساتذہ کو بھی استاد کی
ذمہ داریوں اور مثبت رویوں کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ دو دن پہلے
ایک بچی زار و قطار رو رہی تھی۔ کسی استاد نے بات کرنے پر اسے دو ہفتے کے
لیے کلاس سے نکال دیا تھا اور اس استاد کی لُغت میں معافی کا لفظ بھی نہیں۔
بچے کیا کریں؟
یونیورسٹی میں روزانہ اساتذہ اور طلباء سے گپ شپ رہتی ہے۔ اساتذہ کو شکایت
ہے کہ طلبہ کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں۔ شاگردانہ عالی ظرفی نہیں۔ برداشت
بالکل نہیں۔ وہ موجود جدید دور کے طلبا کا مقابلہ قدیم دور کے ان ہندوستانی
طلبہ سے کرتے ہیں کہ جنہیں ان کے والدین گور و یا استاد کے پاس چھوڑتے وقت
استاد کو کہتے تھے گورو جی! بچہ آپ کے سپرد۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور باقی سب
کچھ آپ کا اور پھر استاد کے پاس بچے کو چھوڑ کر عرصہ دراز کے لیے بچے کو
بھول جاتے تھے۔ بچہ گوروکُل میں گورو کے ساتھ اس طرح رہتا کہ گورو اس کا
باپ اور گورو کی بیوی اس کی ماں ہوتی۔ گورو اور اس کی بیوی بچے سے اس قدر
پیار کرتے اور اس کا خیال رکھتے کہ شاید حقیقی ماں باپ بھی نہ رکھتے تھے۔
موجودہ استاد شاگردوں سے ویسی توجہ چاہتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا
اپنا کردار بھی گورو کی طرح ہونا چاہیے۔ وہ شاگرد اگر با ادب تھے تو استاد
بھی بے حد شفیق تھے۔ شاگرد اگر گورو کی تعظیم کرتا تھا تو گورو بھی اپنی
زندگی کا پیار پوری طرح شاگرد پر نثار کر دیتا تھا۔ وہ استاد ماں اور باپ
سے بڑھ کر تھے۔ شاگردوں کو علم کی دولت سے مالا مال کرتے اور ہر صلے سے بے
نیاز ہوتے تھے۔ ان کا علم بھی فقط کتابی نہ تھا بلکہ وہ شاگرد کو اٹھنا،
بیٹھنا، کھانا، پینا، بات کرنا، حسن سلوک، انسانیت اور ہر اچھی چیز سکھاتے
تھے۔ آج کا استاد شاگرد کو کیا دیتا ہے؟ یہ استاد کو خود سوچنا ہوگا۔ اب تو
استاد کے طرز عمل پر لوگ لطیفہ زنی کرنے لگے ہیں۔
ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ استاد کا مرتبہ ماں سے پچاس درجے زیادہ ہے۔ پوچھا
کیسے؟ کہنے لگے ماں ایک بچے کو سلانے کے لیے بہت محنت کرتی ہے، اسے دودھ
پلاتی، لوری سناتی اور کئی جتن کرتی ہے تو بڑی مشکل سے وہ سوتا ہے۔ استاد
پچاس بچوں کی کلاس میں ایسا میٹھا میٹھا لیکچر دیتا ہے کہ لمحوں میں ساری
کلاس سوئی ہوتی ہے۔ یقینا استاد ماں سے پچاس گنا بہتر سمجھے جانے کے لائق
ہے۔ افسوس کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے ہونہار اساتذہ کی تعداد بڑھتی
جارہی ہے۔
کہتے ہیں بچہ اگر فیل ہو جائے تو وہ بچہ نہیں حقیقت میں استاد فیل ہوجاتا
ہے جو ایک معقول وقت تک بچے کو سکھانے کے باوجود خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں
کر سکا۔ اسی طرح بچے پر تنقید کی بجائے استاد کو سوچنا چاہیے کہ آخر کیا
وجہ ہے کہ بچے کا طرز عمل اچھا نہیں۔ یقینا استاد کی تعلیم میں کچھ نہ کچھ
کمی ہے۔ ورنہ ایک اچھے استاد کے بارے میں بچہ کبھی بھی غلط طرزِ عمل اختیار
نہیں کر سکتا۔
میرا ہمیشہ سے مؤقف ہے کہ وہ شخص جو آسانی سے طلبا کی رسائی میں نہ ہو، جس
سے طالب علم بغیر کسی عذر اور بغیر کسی جھجھک کے اپنے مسائل زیر بحث نہیں
لا سکتے۔ جو پدرانہ شفقت اور محبت کے ساتھ بچوں کی بات نہیں سنتا اچھا
استاد نہیں ہوتا۔ بچوں کے روّیے کی شکایت کرنے والے استاد ان حالات کے خود
ذمہ دار ہیں۔ اس لیے کہ انہیں نہ تو اپنے علم پر پوری دسترس ہے اور نہ ہی
ان کا روّیہ مثبت ہے۔ استاد اپنا مقام خود بناتا ہے۔ اچھا استاد آج بھی
انتہائی قابل احترام ہے۔ تعلیمی ماحول میں بہتری کے لیے اساتذہ کو اپنے
روّیوں اور اپنی کارکردگی کوبہتر بنانا ہوگا۔ اگر استاد اپنا دیانتدارانہ
جائزہ لیتا رہے اور حالات کے مطابق خود میں مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ہو
جائے تو اسے طلبا سے کوئی گلہ نہیں ہوگا۔ |