وہ پیشے کا مزدور ہے صبح نکلتا
ہے دن بھر مزدوری کر کے شام کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے ،یہ معاشرے
کے علاوہ تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتا ہے اس نے اپنی ساری زندگی ،محنت
مزدوری کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رویے ،سرمایاداروں کے ظلم اور عام آدمی کی
مشکلات کا مطالعہ کرتے ہوئے گزار دی میں جب بھی اس کے پاس بیٹھا اس نے کسی
نہ کسی حوالے سے تاریخ کی بات کرتے ہوئے آج کے دور کے انسان کی مشکلات اور
حالات کی بات کی ،اس کے پاس معلومات کا ایک خزانہ ہے مگر حالات اور وقت کی
گردش میں پھنسا یہ بھی عام آدمی کی طرح اپنا تماشا ،ہی دیکھتا ہے اس دفعہ
جب میری اس سے ملاقات ہوئی اس نے اس آج کل کشمیر میں چلنے والے تازہ ایشو
سرکاری ملازمین کی قلم چھوڑہڑتال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اگر ملازم،
مزدور اور نوکری پیشہ افراد کی بات کریں تو اکثریت لوگوں کی پرائیویٹ
مزدروی یا ملازمت جو غلامی کا دوسرا نام ہے کرتے ہیں جو دن رات اپنا خون
پسینہ بہا کر اپنے گھر کا نہیں بلکہ اس ملک کا نظام چلاتے ہیں ان کی حالت
کبھی نہیں بدلتی اور نہ کوئی ان کے پاس اپشن ہوتا ہے جس کو استعمال کر کے
یہ اپنے آپ کو بہتر کر سکیں اکثر تو سفید پوشی میں ہی مارے جاتے ہیں اور
کچھ برادری ۔تعلق کے سامنے بے بس ہوتے ہیں،یہ پرائیویٹ ملازم ،مزدور صرف
اور صرف اﷲ کے بھروسے اور ان سرمایا داروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ساری
زندگی اداروں اور لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے گزر جاتی ہے یہ لوگوں کو کروڑ
پتی بنا دیتے ہیں مگر خود غریب کے غریب ہی رہتے ہیں ،اس کی وجہ ن کی
نالائقی یا لا پروائی نہیں ہوتی بلکہ سرمایا دار کی پالیسی اور حکومت وقت
کی نظر اندازی کے ساتھ ساتھ بے رحمی بھی ہوتی ہے کیوں کہ ان کے لئے کوئی
پالیسی نہیں ہوتی اگر یہ اپنی اجرت یا تنخواہ بڑھانے کی،یا کسی سہولت کا
مطالبہ کریں تو ان کو ایک ہی جواب دیا جاتا ہے کہ کام کرنا ہے تو کریں ورنہ
چھوڑ دیں یہ اپنی مجبوری کے ہاتھوں مجبور اور سرمایا دار یا کوئی بھی ملازم
رکھنے والا ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے ،اور اگر کوئی اپنا حق سمجھ کر
کسی بات کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈیٹ بھی جائے تو اس کو ہزار الزم
لگا کر اسے ذلیل و رسوا کر کے نکال دیا جاتا ہے ہمارے اس ملک میں کشمیر جو
پاکستان کے نقش قدم پر چل رہا ہے کوئی اصول کوئی پالیسی نہیں نہ کوئی ایک
معیار کے کتنی اجرت ہونی چاہئے اور کتنی نہیں مہنگائی کے ساتھ ساتھ کس شرح
فیصد سے تنخواوں میں اضافہ ہونا چاہئے کوئی قانون نافذ العمل نہیں،بس جس کو
جتنا داو لگا لگایا ۔۔سرمایا دار،پرائیویٹ ادارے،عام ملازم رکھنے والے اپنے
اپنے مزاج سے اجرت دیتے ہیں کسی بھی پرائیویٹ ادارے میں بارہ سے چودہ گھنٹے
کام کروایا جاتا ہے اور کسی بھی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی جاتی یہاں تک کہ
مزدور چائے بھی اپنی پیتا ہے ۔انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ان
پرائیویٹ ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے یوں لگ
رہا ہوتا ہے جیسے یہ اس دنیا کی مخلوق نہیں ہیں ،ان کے لئے کوئی ضابطہ کوئی
قانون کوئی پالیسی نہیں یہ بے بس اور مجبور لوگ ہیں،یہ اس گھوڑے کی مانید
ہیں جو جوانی میں تو خوب کام کرتا ہے اپنے مالک کی ہر بات سنتا ہے اور اس
کا بوجھ اٹھاتا ہے مگر جب یہ گھوڑا بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہی مالک اس کو
گولی مار دیتا ہے اور ایک نیا گھوڑا پالتا ہے یہی کچھ ان پرائیویٹ ملازم
اور مزدور کے ساتھ کیا جاتا ہے یہ دوران ڈیوٹی اگر مر بھی جائیں تو چند
الفاظ تعزیت کے بول کر فر ض پورا کیا جاتا ہے۔ ان کے بیوی بچوں یا بوڑھے
ماں باپ کو فراموش کر دیا جاتا ہے ۔۔
اس کی نسبت اس معاشرے کے اسی جگہ کے وہ لوگ جو تعداد میں بہت کم ہیں اور وہ
اپنی خوش قسمتی سے سرکار کے نوکر ہوتے ہیں۔ان کی ڈیوٹی بھی مرضی کی کام بھی
اپنی مرضی سے کرتے ہیں ،دل کیا دفتر آگئے اور دل کیا تو کوئی نہ کوئی بہانا
بنا دیا ،دوسرے دن آکر وہ بھی حاضری لگا دی ،کوئی پابندی نہیں کوئی ڈر خوف
نہیں ۔بس اپنی اپنی جگہ پر چپڑاسی سے لیکر آفیسر تک سب بادشاہ ہی بادشاہ
ہیں ۔مہینہ پورا ہوا تنخوا ہ لی بس خود کو سرکار ی ملازم ہونے کا جھانسا
دیا اور چلے گئے زمہ داری کیا ہوتی ہے،ڈیوٹی کیسے کی جاتی ہے اور عوام سے
کیسے پیش آنا ہے ان کی بلا جانے۔ہاں کسی بڑے آدمی کا حوالہ دو ،کسی برادی
کی دھمکی دو ،کوئی سیاسی تعلق بتاو تو ان میں حرکت آجاتی ہے ،ورنہ یہ سدھے
منہ بات نہیں کرتے آئے روز سننے کو ملتا ہے کہ آج ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے،آج
کلرکوں نے قلم چھوڑ دی ہے،آج وکلا نے تالے لگا دیے ،آج بجلی والوں کی ہڑتال
ہے ،عوام خوار ذلیل رسوا ہو رہی ہے ،وجوہات جانو تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی
تنخوائیں کم ہیں ان میں اضافے کے لئے یا ان کے مطالبات ہیں وہ پورے نہ ہونے
کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا گیا ہے ،یہ مطالبات اور ہڑتالیں بھی سیزن میں کی
جاتیں ہیں جب جب بجٹ کے دن قریب ہوتے ہیں ان کے مطالبات روز پکڑتے جاتے ہیں
،اور پھر بجٹ میں ان کی اجرت میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جاتا ہے ۔یہ لوگ
یا تو نا شکرے ہیں یا پھر سرکاری ملازم ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ دن بھر
مرضی سے پھرتے رہتے ہیں جو کوئی دفتر میں ہو بھی وہ ایک فائل یا ایک کام
کرنے میں گھنٹہ لگاتا ہے، یا پھر سوئے رہتے ہیں فون میں مصروف ہوتے ہیں ۔
اور کچھ تو برائے نام کے ملازم یعنی تنخواہ کی حد تک ہوتے ہیں ان کا
کاروبار کچھ اور ہوتا ہے ۔ بات یہ نہیں کہ ان کو یہ سب کچھ کیوں مل رہا ہے
وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ان کو ملنا چاہئے مگر یہ کام تو پورا کریں۔پھر سوال
یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکار جس کی کامیابی میں پرائیویٹ لوگوں کا بہت بڑا
ہاتھ ہے ان کے ووٹ سے یہ اپنی حکومتیں اور نظام چلاتے ہیں ان کے لئے
پالیسیان فائیلوں میں نہیں بلکہ میدان ہونی چائیں ،یہ ٹرید یونین یا لیبر
لا یہ سب تو بس بلیک میلنگ کا دوسرا نام ہے پرائیویٹ مزدور اور ملزام کی
تنخواہ میں بھی سرکاری ملازم کے برابر اضافہ ہونا چاہئے ۔ان کے بیوی بچوں
کو بھی سہولیات ہونی چاہئے ان کو سرمایاداروں اور عام لوگوں کے رحم و کرم
پر نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ ان کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہو یہ سرکاری ملازم سے
تین گناہ زیادہ کام کرتے ہیں ۔جس طرح حالات بدل رہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب
سب کچھ پرائیویٹ ہو جائے گا بلکہ ملک تک کو ٹھیکے میں دیا جائے گا تب یہ
لوگ کس سے اور کیا مطالبہ کریں گے۔ایک دن صرف ایک دن یہ لوگ مزدوری کر کے
یا پرائیویٹ ملازمت کر کے دیکھیں انہیں سب کچھ سمجھ آجائے گی۔حکومت وقت کو
بھی مزدور کی زندگی اور مہنگائی کو سامنے رکھ کر ان کا خیال رکھنا چاہیے- |