Suffolk نامی ساحل سے 6 میل کے فاصلے پر واقع یہ قلعہ
دیکھنے والوں کسی قدیم آئل پلیٹ کی مانند نظر آتا ہے- لیکن Sealand نامی اس
قلعے کے اصولوں کے مطابق وہاں کے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے
چھوٹا ملک ہے-
اس عجیب و غریب دعویٰ کی وجہ قلعے کے رہائشی کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ یہاں
کا شاہی خاندانی نظام٬ کرنسی اور یہاں تک کہ ڈاک ٹکٹ تک٬ سب قلعے کے ذاتی
ہیں-
|
|
یہ چھوٹی سی ریاست جسے اب تک کسی دوسرے ملک نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں
کیا٬ 5290 اسکوائر فٹ پر پھیلی ہوئی ہے- جنگ عظیم دوئم کے دوران تعمیر کیا
جانے والا یہ قلعہ دو کنکریٹ ٹاورز پر ٹکا ہوا ہے اور اس کا پلیٹ فارم یا
زمین لوہے کے ہیں-
1967 میں اس قلعے کے رہائشیوں نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا تھا اور اس
وقت یہاں رہائش پذیر افراد کی تعداد 22 تھی-
پینے کے قابل پانی کی پیداوار کے ساتھ مچھلی اور کیکڑے بھی اس ملک کے اپنے
ہوتے ہیں لیکن انہیں اپنی غذا اور دیگر ساز و سامان برطانیہ کی سرزمین سے
امپورٹ کرنا پڑتے ہیں-
یہاں کے مقامی افراد ذریعہ آمدنی کے لیے سمندری نشانیاں بذریعہ آن لائن شاپ
فروخت کرتے ہیں-
متبادل طور پر آپ اس علاقے کا ایک اسکوائر فٹ کا ایریا٬ پیالا یا پھر فٹبال
ٹی شرٹ بھی خرید سکتے ہیں-
یہاں کی کرنسی کو Sealand ڈالر کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ اس ملک کی اپنی
ایک فٹبال ٹیم بھی ہے-
|
|
اس ریاست کی ابتدا اس وقت ہوئی جب 1966 میں کرسمس کے تہوار پر Royal
Fusiliers کی پہلی بٹالین کے Roy Bates نامی ایک سابق انفنٹری میجر نے اس
قلعے پر قبضہ کر لیا-
یہ قلعہ تعمیر کیے جانے والے ان دفاعی قلعوں میں سے ایک تھا جو جنگ عظیم
دوئم کے دوران Suffolk نامی ساحل پر تعمیر کیے گئے جبکہ 1950 میں اسے خالی
چھوڑ دیا گیا تھا-
قبضے کے وقت مسٹر Bates کی عمر 46 برس تھی اور وہ کسی ایسے مقام پر رہائش
اختیار کرنا چاہتے تھے جو کہ برطانوی دائرہ اختیار سے باہر ہو اور وہاں
برطانیہ کا کوئی قانونی عمل دخل نہ ہو-
قبضے کے وقت مسٹر بیٹس کے ساتھ ان کی بیوی ٬Joan بیٹی Penelope اور بیٹا
Michael بھی ساتھ تھے- اور اگلے سال ستمبر میں ہی مسٹر بیٹس نے اپنے آپ کو
اس قلعے کا راجکمار اور اپنی بیوی کو راجکماری قرار دے دیا-
اس کے بعد مسٹر بیٹس کو برطانوی حکومت کی طرف سے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا
پڑا- برطانوی حکومت نے ڈچ اور جرمن نمائندوں پر مشتمل اپنا ایک وفد بھی
بھیجا لیکن ان سب کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا -
|
|
اکتوبر 2012 میں 91 سال کی عمر میں مسٹر بیٹس کا انتقال ہوگیا جس کے بعد
ریاست کی حکمرانی کا تاج ان کے 63 سالہ بیٹے مائیکل کے سر سج گیا اور وہ اب
تک اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ اسی قلعے پر رہائش پذیر ہیں-
مائیکل کا کہنا ہے کہ “ یہاں مختلف سائز کے 30 کمرے موجود ہیں لیکن ہمارا
زیادہ تر وقت آفس میں گزرتا ہے خاص طور پر ان دنوں جب ہمیں آن لائن شاپ کے
ذریعے ملے ہوئے آرڈر کی ڈلیوری کرنی ہو٬ یا پھر اپنی ویب سائٹ کی دیکھ بھال
اور مینٹینس کرنی ہو-
اس قلعے میں بنے کچن سے سمندر کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے جبکہ قلعے
میں ایک ایسا کمرا بھی موجود ہے جہاں تمام لوگ تفریح کی غرض سے ایک ساتھ
جمع ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب ویب سائٹ یا آفس کا کام نہ
کیا جارہا ہو- |