سُرخ آندھیاں
(Muhammad Amjad Khan, Pakpattan)
بزرگ بتاتے ہیں کہ ہمارے زمانہ بچپن میں جب کہیں کسی بھی کسی بھی بے گناہ
سے کوئی ظلم زیادتی ہو جاتی تو سرخ آندھی آتی جس کی شدت اس قدر ہوتی کہ
درخت جڑو ں سے اُکھڑ جاتے تھے ،جہاں جو کھڑا ہوتا وہیں بیٹھ جاتا اور رو رو
کر اپنے خدا سے وہ تب تک اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتاجب تک یہ آندھی
رُک نہ جاتی،اور آندھی کے رُکتے ہی وہ کھوج لگانا شروع کر دیتاکہ ایسا واقع
کہاں اور کس نے کیا ہو جس کے سبب ہمیں اِس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ،اورآخر
کچھ ہی دِنوں میں میڈیا کے نہ ہونے کے باوجود وہ وجہ تلاش کر لیتااور اپنے
دوست احباب و دیگر علاقہ معززین کو آکر حالات و واقعات سے آگاہ کرتاکہ اس
جگہ پہ اس بندے کے ساتھ اِس شخص نے یہ ظلم کیا ہے ،جسے سنتے ہی لوگوں کے
چہرے غصے سے سرخ ہو جاتے اور وہ جمع ہو کر اُس قاتل یا مجرم کے پاس جاتے
اور اُس کی سخت سرزنش کے ساتھ ساتھ قاضی یا متعلقہ پولیس کو اسے سخت سے سخت
سزا دینے کی سفارش بھی کرتے ،یہ قیام ِ پاکستان سے قبل کا زمانہ تھا جب علم
کم اور عمل زیادہ ہوا کرتا تھا ،لوگوں کے دِلوں میں انتہا کا خوفِ خدا تھا
،پوری ایمانداری کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق خیال رکھا جاتا تھا ،انسانی
زندگی کی قدرہوتی تھی ،اس کے کچھ ہی عرصہ بعد جب پاکستان بن گیا تو ریڈیو
پاکستان بھی وجود میں آگیا جو گاؤں یا محلے میں صرف ایک ہی ہوا کرتا اور
اسے سب گاؤں یا محلے والے شام کو ایک جگہ مِل بیٹھ کر سنا کرتے تھے پھر اس
پر گانے وغیرہ بھی نشر ہونے لگے تب لوگوں کی توجہ خبروں کی نسبت گانوں کی
طرف زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی مصروفیات بھی بڑھنا شروع ہو گئیں مگر
دِلوں میں خوفِ خدا اور انسانی ہمدردی اب بھی اُتنی ہی تھی جتنی قیامِ
پاکستان سے قبل تھی جس کے کچھ ہی عرصہ بعد پی ٹی وی کی پیدائش ہو گئی جسے
سننے ودیکھنے کیلئے ٹیلی ویژن کی ایجاد ہوئی مگر یہ ٹیلی ویژن بھی ہر جگہ
اور ہر گھر میں دستیاب ہونے کی بجائے گاؤں کے نمبر دار یا محلے کے کسی
سماجی یا سیاسی ورکر کے ڈیرے یا ڈرائنگ روم میں ہی دستیاب ہوا کرتا تھا جس
کی نشریات دیکھنے و سننے کیلئے شام کے وقت کسی میلے کا سا عالم ہوتا تھا اس
کے بعد پرائیویٹ میڈیا نے جنم لینا شروع کر دیا تب یہ ٹیلی ویژن ہر گھر کی
ضرورت جبکہ ریڈیوہر جیب کی ضرورت بن چکا تھا کیونکہ یہ ایک ایسا وقت آچکا
تھا جب لوگوں کے دِلوں میں ایک دوسرے کی قدرو قیمت و محبت پہلے کی نسبت بہت
کم پڑ چکی تھی کیونکہ اس دور میں میڈیا کے ذریعے علم زیادہ اور عمل بہت کم
ہوتا جا رہا تھا اور پاکستانی سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں کرپشن کا
آغاز بھی ہو چکا تھا جس سے آشنائی کے سبب لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ پیسے کے
سوا کچھ نہیں ہوتا اورہر کام پیسے کے عوض ہوتا ہوا دیکھ کر لوگ انسان سے
زیادہ پیسے سے محبت کرنے لگے جو دیکھتے ہی دیکھتے محبت سے حوس میں تبدیل ہو
گئی ،جس کے نتیجہ میں ہر رشتے کی پہچان ختم ہوگئی،آخر نوبت اب یہاں تک جا
پہنچی ہے کہ انسان کو مارنا کسی فضول جانور کو مار دینے کے برابر سمجھا جا
رہا ہے کیونکہ لوگوں کے دِلوں میں اب نہ وہ خوفِ خدا ہے اور نہ ہی قانون کا
ڈر ،کیونکہ ہر بندہ ہی یہ سمجھتا ہے کہ پیسہ لگاؤجسے چاہوخرید لو ، جو چاہے
کروا لوں ،اور زیادہ تر ہوتا بھی ایسا ہی ہے ،ورنہ کوئی پسند کی شادی کرنے
والی معصوم حوا کی بیٹی کو انصاف کی دہلیز پر قتل کرنے کی ہمت کرکے زمانہ
جاہلیت کا بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیئے جانے والا وقت یاد نہ
دلاتا ،خیر مختصر یہ کہ روپے پیسے کی خاطر ہر طرف مارا ماری کا عالم ہے،
ہرشخص اپنے حقوق لینا چاہتا ہے مگر دوسروں کے ادا نہیں کرنا چاہتا، جس کے
سبب ہر روز سینکڑوں کے حساب سے جانیں جا رہی ہیں ،زناہ حرام کاری ،جسم
فروشی وشراب نوشی ایک فیشن بن چکا ہے ،بھائی کو بہن کی خبر نہیں اور شوہر
کو بیوی کی نہیں ،ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،ہر بندہ مشین کی طرح ہر وقت
مصروف ہے ،آندھی آئے یا طوفان ،توبہ تو بہت دور کی بات کسی کے پاس نماز تک
کا وقت نہیں جس کی وجہ علم کے باوجود عمل نہ ہونا اورعمل نہ ہونے کی وجہ
صرف اور صرف جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی ہوئی کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں،جسے
اسلام میں حرام قرار دیئے جانے کے باوجود کسی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے ہر
بندہ ہی اپنا حق تصور کرنے لگا ہے،خیر مختصر یہ کہ ملک کربلا کا میدان بنا
ہوا ہے مگر اب وہ سُرخ آندھیاں نہیں آتیں ،مطلب یہ نہیں کہ اب آندھیاں آتی
ہی نہیں آندھیاں تو اب بھی آتی ہیں مگر اب کی قتل و غارت پر وہ سُرخ
آندھیاں نہیں آتیں جن سے آسمان سرخ ہو جایا کرتا تھااور اس کا مطلب یہ بھی
نہی کہ اب ہم جرم کیلئے آزاد ہو چکے ہیں ،خدا کی پکڑ سے بہت دور جا چکے ہیں
،یا ہم ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ
ہے کہ ہم پر کوئی بہت بڑاعذاب آنے والا ہے جو کسی کو توبہ کا موقع بھی نہیں
دیگا ،کیونکہ جب ہر طرف سناٹا ہی سناٹا چھا جائے اور بہت زیادہ گھٹن ہو
جائے تب کہیں سے ہلکی ہلکی بوندا باندی یا ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا نہیں آیا
کرتی بلکہ یکدم طوفانی آندھی یا زالہ باری ہی شروع ہوتی ہے جو گھر کے برتن
سنبھالنے کی فرصت بھی نہیں دیتی،اور سب کچھ ساتھ ہی لے جاتی ہے لہذا اس
بھیانک وقت سے بچنے اور اپنی آخرت کیلئے جہاں ہمیں خود کو ٹھیک کرتے ہوئے
اپنی سابقہ غلطیوں کوتاہیوں پر اپنے پرور دیگار سے معافی مانگ کرسچی توبہ
کرنے کی اشد ضرورت ہے وہاں ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اسلام دشمن
طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے سسٹم کی مشینری کو گریس لگا کر شور شرابا
ختم کرنے کی بجائے سسٹم میں موجود خرابیوں کو درست کرکے اس موجودہ شور
شرابے کو ختم کریں،بے شک وہ ذات پاک بڑی غفور الرحیم ہے ،اور کسی کو بھی
خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی (فی ایمان ِﷲ) ۔ |
|