رات کے ۱۱ بج چکے تھے اورپانچ سالہ عمران نے ضد شروع کر دی ! مجھے ہاتھی
چاہئیے۔ یہ عجیب خواہش تھی لیکن عمران کے والد کے ماتھے پرذرا برابر بل
نہیں آیا۔ اس نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر باہر نکل گیا اکا
دکا دکانیں کھلی ہوئیں تھیں اور وہ بھی چھوٹے موٹے ہوٹل وغیرہ۔۔۔۔۔ وہ ہر
دکان سے ہاتھی کا پوچھتا اور انکار کی صورت میں عمران کو لے کر آگے بڑھ
جاتا۔ آخر وہ چلتے چلتے اسٹیشن پرپہنچ کر وہاں کی تمام دکانوں سے بھی وہی
دریافت کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ تمام دکاندار ان کا مذاق بھی اڑاتے رہے
لیکن وہ اپنے سوال سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بالآخر باپ اپنے بیٹے کو لے کر گھر
واپس پہنچ گیا جبکہ عمران اپنی ضد چھوڑ چکا تھا۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ اس
کے باپ نے بھرپور کوشش کی مگر ہاتھی دکان سے نہیں مل پایا۔ اس دوران جب باپ
بیٹا گھر سے باہر تھے تو عمران کے دادا آئے اور دونوں باپ بیٹے کا پوچھا!
بہو نے اسے بتایا کہ وہ عمران کی ضد پوری کرنے کے لیے بازار گئے ہوئے ہیں ۔
دادا کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور بہو کے سر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنے
کمرے کی راہ لی۔ بہو کچھ سمجھ نہیں پائی تھی کہ کیا ماجرا ہے؟جب اس ماجرے
کا ذکر بیوی نے شوہر سے کیاتو وہ بولے!
ایک رات ایسی ہی ضد میں نے بھی کی تھی اور میرے باپ نے ایک زوردار تھپڑ
میرے گال پر رسید کیاتھااور میرے دل و دماغ نے یہ تسلیم کر لیا کہ میرا باپ
مجھے مارنے کے سوا کچھ نہیں دے سکتااور تب سے اب تک میں نے ان سے کوئی
خواہش نہیں کی جبکہ کئی مواقع آئے اور انہوں نے اصرار بھی کیا مگر میں اپنی
جائز خواہشات کے لیے بھی ان کے سامنے زبان نہ کھولتا!
یہ قصہ دو لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ ایک تویہ کہ بچہ ہر حال میں اپنی تسلی
چاہتا ہے اور عمران کے والد نے منع کرنے کی بجائے اسے یہ تسلی دی کہ میں نے
ہر حال میں بچے کی خواہش پوری کی حالانکہ وہ جانتے تھے کہ کسی دکان سے
ہاتھی نہیں ملتاجبکہ دوسرا پہلواس سے بھی زیادہ اہم ہے ۔ بچے ابتدائی سالوں
میں تحفظ اور اعتماد دونوں اپنے باپ سے حاصل کرتے ہیں ۔ تحقیق ثابت کرتی ہے
جن کے والد اپنے بچوں کے ساتھ جسمانی طور پر کھیلتے اور بھاگتے ہیں وہ
زیادہ پر اعتماد ہوتے ہیں اور ایسے بچوں کا احساس تحفظ بھی بہت زیادہ ہوتا
ہے۔ اور وہ جوکام بھی کرتے ہیں پورے یقین اور اعتماد سے کرتے ہیں اور یہی
یقین آگے چل کر اسے کسی بھی بڑے کام کی رغبت دلاتا ہے۔
بچوں کی تربیت ہمارا بہت اہم مسئلہ ہے اور اس مستقبل کو بچانے کے لیے تعلیم
کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔ایک بڑا عجب تصور جنم لے چکا ہے کہ والدین
کسی بھی مہنگے اسکول کا انتخاب کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم اپنا فرض پورا کر
رہے ہیں کوئی بھی مہنگا اسکول آرام دہ ماحول تو دے سکتا ہے جبکہ اچھی تربیت
نہیں کر سکتاجبکہ دوسرا تصور یہ ابھر رہا ہے کہ ہم بھاری بھرکم فیس دے کر
سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اسکول تعلیم بھی دے گا اور بچوں کی تربیت بھی وہی کر
کے دے گا۔۔۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ بچہ دن کے ۱۸ گھنٹے گھر میں
گزارتا ہے اور صرف ۶ گھنٹے اسکول میں رہتا ہے۔ ماں بچے کی پہلی درسگا ہ ہے
اور اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتالہذاماں ابتدائی سالوں میں بچے کی
پرورش اور تربیت کے حوالے سے مواد پڑھیں جبکہ انپڑھ خواتین کسی بھی سمجھدار
خواتین سے ایسے طریقے سیکھیں مگر ایک والد کا اپنے بچوں کو روزانہ ۳۰ سے ۶۰
منٹس دینے سے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جبکہ اسکول کی کارکردگی پر صحت
افزاء اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی مشکل کا سامنا اعتماد سے کرتے
ہیں۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ ابتدائی سالوں میں سیکھنے کے حوالے سے
رکاٹیں دور ہونے سے آئندہ کی رکاوٹیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں لہذا ماں ،
باپ اور اساتذہ کی مثلث ہمارے مستقبل کو بہترین تعلیم و تربیت سے نواز سکتی
ہے۔ ان کی تربیت بھی مسلمہ ہے۔ آپ کی آراء کا منتظر! |