ہمارے یہاں خواندگی دیگر ملکوں
کی بہ نسبت بہت کم ہے۔ہماری پسماندگی کی بھی سب سے بڑی وجہ جہالت ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ خواندگی بڑھنے سے جہاں کام کی رفتار بڑھ جاتی ہے
وہیں دیہاتوں میں جدید فنّی معلومات نہ ہونے سے ترقی کی رفتار رک جاتی ہے
آج لوگوں کا دارومدار ایسے کاموں پرزیادہ ہے جو ان کے باپ دادا کرتے آئے
ہیں۔ جس میں ان کو کسی ہنر یا تربیت کی ضرورت نہیں پیش آتی، نہ لوگ نئے ہنر
سے آشنا ہیں نہ وقت کے تقاضے ان کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔
جدید ترین نظریات قبول کرنے اور اس کے ساتھ ترقی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ
ہمارے یہاں خواندگی کا تناسب زیادہ ہوتا کہ لوگ حالات حاضرہ کو سمجھیں اور
ہندوستان کو ایک فلاحی ملک بنانے میں اپنا کردار اس طرح انجام دیں کہ آنے
والی نسلیں اس سے استفادہ کرسکیں۔
زندگی کا مقصدصرف کھانا پینا اور بے فکری سے وقت گزارنا نہیں ہے بلکہ یہ
سوچنا بھی ہے کہ ہمیں کس مقصد کے لئے پیدا کیاگیا ہے۔ جہالت کے اندھیروں
میں زندگی بھر بھٹکنے سے بہتر ہے کہ ہم علم کی روشنی میں زندگی کی تابناک
راہ متعین کریں اور آگے بڑھنا ہمارا نصب العین ہو، تاکہ زندگی کے مختلف
شعبوں میں آسانی سے کام انجام دیاجاسکے۔
علم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ انسان کو باعمل بناتا ہے اور ناکامیوں
کو دور کرکے کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے، علم کی روشنی سے فرسودہ روایات
دم توڑ دیتی ہیں۔ استعداد، عمل اور صلاحیت کا معیار بڑھتا ہے سائنس اور
ٹیکنالوجی سے واقفیت زندگی کا درخشاں باب کھول دیتی ہے۔ ناخواندگی سے جہاد
کرنا ہر ایک کا فرض ہے خاص طو سے دیہاتوں اورغریب بستیوں میں ایسا انتظام
ہونا چاہئے جس سے غریب لوگوں میں علم کا شعور پیدا ہو اور وہ لکھ پڑھ کر
فعال اور باعمل شہری بن سکیں ملک کی بہتری کے لئے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ
علم کے مقصد کو ہمہ گیر اور جامع بنائے، قومی نشو ونما کے لئے انسانی وسائل
پر انحصار لازمی ہے اور اس میں سب سے بڑا کردار تعلیم کا ہے تعلیم کے نظام
کو کسی بھی قوم کی معاشی سماجی اور ثقافتی نشوونما کے لئے ضروری تصور
کیاجاتا ہے ملک سے غربت صرف تعلیمی پیش رفت سے ختم ہوسکتی ہے ہر شہری کو
چاہئے کہ وہ خواندگی کے خلاف ہمہ گیر تحریک میں بھرپور حصہ لے اور کسی نہ
کسی فرد کو پڑھاکر اپنی ذمہ داری پوری کرے اسی میں ہماری فلاح وبہبود مضمر
ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں ناخواندہ افراد بھی سب سے زیادہ
ہیں اور اسی ناخواندگی نے ہمارے جمہوری نظام کو درہم برہم اور سماجی سطح کو
کمزور کررکھا ہے آزادی کے بعد ۱۹۵۱ میں ہمارے خواندگی کی شرح ۱۸ء۳۳ فیصد
تھی جو ۱۹۹۱ء میں بڑھ کر ۱۱ء۵۲ فیصد ہوگئی ہے اور آج یہ ۷۵فیصد تک پہونچ
رہی ہے گویا ان ۶۵ برسوں کے دوران خواندگی میں کافی اضافہ ضرور ہواہے۔ اسی
عرصہ میں اسکولوں کی تعداد دس گنا اور اساتذہ کی تعداد بیس گنا بڑھی
ہے۔تعلیم کے قومی بجٹ میں بھی ۱۳۰ گنا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ صرف تصویر کا
ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ ہمیں بتاتا ہے عورتوں میں خواندگی کی شرح مردوں سے
کافی کم ہے ۔ ملک کی نوریاستوں میں خواندگی کی شرح قومی خواندگی سے بھی کم
ہے ان میں سے بھی چار ریاستوں راجستھان، اترپردیش، بہار، اور مدھیہ پردیش
ملک کی آبادی کے ۴۰ فیصد حصہ پر محیط ہیں۔
ہندوستان میں خواندگی کی یہ حالت اس حقیقت کے باوجود ہے کہ دستور کے رہنما
اصولوں میں ۱۴ برس سے کم عمر کے تمام بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم کی سہولت
فراہم کرنے پر زو ر دیا گیا ہے لیکن یہ کام آزادی کی پانچ دہائیوں کے دوان
انجام نہیں پایا لہذا آج ایک چیلنج بن کر ملک کے سامنے ہے۔ اور اس میں بھی
مسلمانوں کی آبادی جو مردم شماری کے مطابق ۱۶ کروڑ کے قریب ہے تعلیم کے
میدان میں سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی ہے۔ اسے تعلیم سے آشنا کرکے زندگی گزارنے
کے عصری طور طریقے سکھانا ملت کے ہر باشعور فرد کی ذمہ داری ہے جو اس سے
منہ چھپائے گا وہ مجرم شمار ہوگا۔ مرکزی اورریاستی سرکاریں بھی اس بارے میں
جوابدہی سے بچ نہیں سکتیں۔
عارف عزیز(بھوپال) |