موت فروش
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
ہر طرف چیخ وپکار تھی۔دھول اور
گرد میں کوئی شے دکھائی نہ دیتی تھی۔ ایک بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ بچاؤ۔نکالو،
پانی ڈالو کا ایک بے ہنگم شور تھا۔ لوگ جمع تھے ۔ہر شخص اپنے تئیں کوشش میں
تھا کہ کسی طرح ملبے تلے دبے بچے نکال لیے جائیں۔ان کی معصوم زندگیوں کو
بچالیاجائے مگر دھماکے کی شدت ،آگ کی حدت کی وجہ سے لوگ بے یقینی کا شکار
تھے۔ ایک طویل صبرآزما مشقت اور محنت کے بعدانکو نکال لیا گیا۔لیکن ان میں
سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ان بچوں کے والدین کو بھی شدید زخمی حالت میں
نکالا گیا۔یہ واقعہ کہروڑپکا کی ایک گلی کے ایک گھر میں شب بارات کیلئے جمع
کیے گئے آتش بازی کے سامان میں آگ لگنے سے پیش آیا۔جیسے ہی بارود نے آگ
پکڑی لمحو ں ہی لمحوں ایسا پریشر بنا کہ مکان کی چھت زمین پر آگری اور اس
میں رہائش پذیر مکین بالخصوص بچوں کو اپنی جانیں بچانے کا کوئی لمحہ اور
موقع میسر نہ آسکا۔اس طرح آتش بازی کے اس غیر قانونی سٹاک نے 4معصوم بچوں
کے ساتھ ماں باپ کو بھی نگل لیا۔ اسی طرح چاندنی چوک کے قریب ایک پختہ مکان
کی چھت ایک زوردار دھماکے سے اڑگئی قرب وجوار میں دہشت پھیل گئی انتظامیہ
پولیس نفر ی موقع پر پہنچ گئی کیونکہ دھماکہ اتنا زور دار اور شدید تھا کہ
گمان ہوتا تھا کہ بم بلاسٹ ہوگیا ہے یہاں پر بھی شب بارات کیلئے آتش بازی
کا سامان تیا رکیا جارہا ہے کہ جس میں آگ لگنے سے لنٹر والی چھت اڑ کر دور
جاگری۔مالک مکان موقع پر جاں بحق ہوگیا جبکہ ہمسایہ کے مکانوں کو نقصان
پہنچا۔ سٹی چوک میں متعدد بار آتش باز کے مکان اور دکان کو آگ لگی اور
انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ریلوے چوک ،گلشن مصطفی میں بھی لوگ جھلسے یہ
تو صرف ایک شہر کی بات ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں بارود کے بیوپاری اورڈھیر کئی بیگناہ اور معصوم جانوں
کو لقمہ بنا چکے ہیں لیکن ان کے خلاف کو ئی کاروائی عمل میں نہیں لائی
جاتی۔ ہر سال یکم شعبان سے شب بارات تک مختلف گلی محلوں میں خفیہ اور کھلے
عام آتش گیر اور دھماکہ خیز مواد کی خرید وفروخت کی جاتی ہے ۔یہ لوگ اپنے
ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگائے ہوئے ہوتے ہیں بچوں کے
جھلسنے کے اکثر واقعات تاریخ کا حصہبن چکے ہیں ۔کہیں پر کوئی بچہ ہاتھ جلا
بیٹھتا ہے تو کہیں ہاتھ کی انگلیاں غائب ہوتی ہیں ۔کہیں پر چہرے کے زخمی
ہونے کی اطلاع ہوتی ہے تو کہیں پر جسم کے جھلسنے کی بات بتائی جاتی ہے بعض
اوقات بچوں کی لاپرواہی سے کئی گھر بھی نذر آتش ہوچکے ہیں اور لاکھوں
کروڑوں روپے کے نقصان تک بات جا پہنچی۔لیکن ان سارے عوامل ،نقصانات اور
Threatکو روکنے، ان کے سدباب اور مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں
پولیس اور انتظامیہ کا کردار ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے۔شاذونادر ہی ایسے
موقع بنا ہوکہ کسی آتش باز کو کوئی سزا ہوئی ہو۔کسی کو کوئی جرمانہ ہوا
ہوکہ جس کی بنا پر وہ تو بہ تائب ہوا ہو۔اوپر سے زیادہ دباؤ آجائے تو اکا
دکا افراد کو پکڑ کر نذر حوالات کرایا جاتا ہے اور اگلے ہی روز وہ پھر اسی
کام میں لگا دکھائی دیتا ہے بلکہ اب زیادہ کھلے انداز میں وہ خطرناک کھیل
کھیل رہا ہوتا ہے ۔کوئی سدھاردکھائی نہیں دیتا۔
شب بارات کی آمد آمد ہے ۔تمام شہروں میں آتش باز ،بارود کے سمگلر اور جانوں
کے دشمن سرگرم ہوچکے ہیں ۔ٹڈے ،پٹاخے، شرلی،گولہ بم،انار اور پھل جھڑی
وغیرہ مارکیٹ میں نظر آنا شروع ہوچکی ہے ۔غیر محسوسانہ انداز میں آتش بازوں
نے اپنا سامان مارکیٹ میں پھیلانا شروع کردیا اور گاہے بگاہے دن رات میں
پٹاخوں کی آوازیں بھی سماعت سے ٹکرانا شروع ہوچکی ہیں۔ جس طرح سے پتنگ
بازوں اور ان کی خرید وفروخت کرنے والے پر سختی سے پابندی عائد کی گئی اس
پر کاربندرہا گیا۔اسی طرح ان تمام افراد کے خلاف سخت ایکشن لیاجانا چاہیے
ان کے سامان کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل
میں لائی جانی چاہیے۔یہ موت فروش افراد جو ان پندرہ دنوں میں موت بانٹتے
ہیں اس سے معاشرے کا امن وسکون برباد ہوجاتا ہے۔شور شرابہ جہاں ذہنی کوفت
کا باعث بنتا ہے وہیں پر جسمانی اذیت بھی دیتا ہے۔ تمام ڈی پی اوزکو چاہئے
کہ اس سلسلے میں سپیشل اقدامات کرتے ہوئے ان موت فروشوں کو کیفر کردار تک
پہنچانے کیلئے مخصوص ٹیمیں تشکیل دیں تاکہ امن وسکون کو تباہ ہونے سے بچانے
کے علاوہ انسانی جانوں کی بھی بچایا جاسکے۔اس سلسلے میں تحصیل کہروڑپکا
ہمیشہ سے حساس رہا ہے اور پے درپے واقعات نے اسکی حساسیت میں اضافہ کرویا
ہے۔ڈی پی او لودہراں گوہر مشتاق بھٹہ کو اس طرف بھی خصوصی توجہ دینے کی
ضرورت ہے۔ |
|