شریعت میں بدعات کی روک تھام !

درحقیقت بدعت سے شریعت کا صحیح نقشہ بدل جاتا ہے‘ جب کہ شریعت نے ہر چیز کی حدود متعین فرمائی ہیں اور ہر چیز کے درجات میں واضح فرق کیا ہے‘ جیساکہ نفل نماز اور فرض نماز میں پورا امتیاز کیا۔ اول تو فرمایا کہ فرض نماز کے بعد نوافل گھر میں پڑھیں‘ اگر کوئی مسجد ہی میں پڑھے تو مسنون طریقہ یہ ہے کہ جماعت کی ہیئت توڑ کر یا پیچھے ہوکر نماز پڑھے۔

اسی طرح روزہ شرعاً صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہے‘ لیکن چونکہ رات کو سب لوگ عادةً سوتے ہیں اور سونے کی حالت میں بھی کھانے پینے سے آدمی ایسا ہی رکا رہتا ہے جیساکہ روزہ میں‘ اس لئے سحری کھانا مسنون قرار دیا گیا ،تاکہ سونے کے وقت روزے کی جو صورت تھی‘ اس سے امتیاز ہوجائے اور روزہ ٹھیک صبح صادق سے شروع ہو‘ اسی وجہ سے غروب آفتاب کا یقین ہوتے ہی فوراًروزہ افطار نہ کرنا مکروہ ہے، تاکہ روزہ کی عبادت کے ساتھ زائد وقت کا روزہ میں اضافہ نہ ہوجائے۔ (سنت وبدعت از:مفتی محمد شفیع:۱/۱۸)

بدعت کی چند شرائط
بدعت کی تعریف کے ضمن میں یہ بات آچکی ہے کہ لغت میں بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں ،جب کہ شریعت میں ہر نئی چیز بدعت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی چند شرائط ہیں:
پہلی شرط:کسی خود ساختہ عمل کو نیکی اور ثواب سمجھ کر کرنا:
یعنی کسی خود ساختہ عمل کو دین اور نیکی سمجھ کر کیا جائے کہ اس کے کرنے پر ثواب ملے گا تو یہ بدعت شمار ہوگا۔ حضور ا کا ارشاد مبارک ہے:
”من احدث فی امرنا ہذا مالیس فیہ فہو رد“۔ (جامع البخاری:۲۶۹۷)
ترجمہ:․․․”جس نے دین میں ایسی بات نکالی جو دین میں نہیں وہ مردود ہے“۔
مشہور محدث علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:”المراد بہ امر الدین“ ۔(عمدة القاری:۱۳/۳۹۱)یعنی جس نے دین کے اندر کوئی نئی چیز نکالی وہ مردود ہے‘ لہذا ایسے تمام نئے امور جو بذات خود دین اور ثواب سمجھ کر نہیں کئے جاتے‘ وہ بدعت میں داخل نہیں‘ مثلاً: گاڑیوں میں سفر کرنا‘ نئی سائنسی ایجادات کا استعمال وغیرہ۔ ان میں سے کوئی چیز بدعت نہیں ہے۔اب ثواب وگناہ کا انحصار ان کے استعمال پر ہوگا‘ یعنی اگر انہیں کسی نیک جذبے اور نیک مقصد کے لئے استعمال کیا تو ثواب ہوگا‘اور اگر کوئی نیت نہیں‘ تو کچھ نہیں اوراگران کو کسی غلط کام میں استعمال کیا تو گناہ ہوگا۔

دوسری شرط:
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں داعیہ اور ضرورت ہونے کے باوجود ان نئے اعمال کا نہ ہونا:
بدعت کے سمجھنے میں یہ قاعدہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے‘ کیونکہ اگر کسی عمل کے بارے میں بدعت کا حکم لگایا جاتا ہے تو ذہن میں فوراً یہ سوال آتا ہے کہ یہ بظاہر تو نیک کام ہے پھر کیسے بدعت اور ممنوع ہوسکتاہے۔اس وقت اگر یہ سوچ لیا جائے کہ عہد صحابہ کرام میں آیا اس کا سبب موجود تھا یا نہیں؟ اگر سبب تھا تو صحابہ کرام نے پھر بھی ایسا نہ کیا تو یقینا یہ عمل خیر نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ حضرت حذیفہ  جو حضورا کے راز دار بھی کہلاتے ہیں‘وہ فرماتے ہیں:
”کل عبادة لم یتعبدہا اصحاب رسول الله فلاتعبدوہا فان الاول لم یدع للآخر مقالاً“۔ (الاعتصام:۱/۱۱۳)
ترجمہ:․․․”جو عبادت صحابہ کرام نے نہیں کی‘وہ عبادت تم بھی نہ کرو‘ کیونکہ انہوں نے تمہارے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی“۔

مشہور مفسر ومحدث حافظ ابن کثیر  فرماتے ہیں:
”واما اہل السنة والجماعة فیقولون فی کل وقع لم یثبت عن الصحابة ہو بدعة، لانہ لو کان خیراً لسبقونا الیہ، لانہم لم یترکوا خصلة من خصال الخیر الا وقد بادروا الیہا“۔ (تفسیر ابن کثیر:۴/۱۵۶)
ترجمہ:․․․”اہل السنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو ہر ایسے قول وفعل کو جو صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو‘ اس کو بدعت کہتے ہیں‘ کیونکہ اگر یہ قول یا فعل خیر ہوتا تو وہ ضرور اس کو کرچکے ہوتے‘ کیونکہ انہوں نے کوئی نیک عمل نہیں چھوڑا“۔

غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ آج کل جتنی بدعات رائج ہیں ان میں سے ہر ایک کا داعیہ اور سبب خیر القرون میں موجود تھا، مگر ان بدعات کا وجود نہ تھا ‘مثلا: ولادت باسعادت تھی اور صحابہ کرام کو آپ سے گہرا عشق بھی تھا مگر کسی نے بھی یوم ولادت پر وہ کچھ نہ کیا جو آج ہوتا ہے۔

اسی طرح آپ کی دو ازواج مطہرات ‘تین صاحبزادیاں اور تمام صاحبزادے آپ کی زندگی میں رخصت ہوئے مگر نہ تو آپ نے ان کی موت پر تیجہ کیا نہ چالیسواں‘ نہ قبر پر میلہ کیا نہ عرس کیا‘ نہ چراغ جلائے نہ ان کی قبروں پر چادریں چڑھائیں‘ نہ گنبد بنوائے ۔سوچنے کی بات ہے ،کیا آپ ا کو ان سے محبت نہ تھی؟آپ ا کے مبارک دور میں ایصال ثواب کیا جاتا تھا مگر نہ تو دنوں کی تعیین ہوتی تھی ‘ نہ کھانا سامنے رکھ کر اس پر کچھ پڑھا جاتا تھا‘ جنازے ہوتے تھے مگر جنازے کے ساتھ نہ تو زور سے کلمہ ہوتا نہ کلمہ شہادت بلند ہوتا ‘ دفن کرتے تھے‘ مگر قبر پراذان نہ دے جاتی تھی‘ مردوں کو کفن پہناتے مگر ”الفی“ لکھنے کا دستور نہ تھا ‘شادیاں ہوتی تھیں مگر نہ تو سہرے باندھے جاتے اور نہ پیسے پھینکے جاتے تھے‘ جنازہ کی نماز پڑھتے تھے مگر اس کے بعد دعا نہ مانگتے تھے‘ ذکرکرتے تھے اور درود شریف بھی پڑھتے تھے مگر مل کر اجتماعی صورت میں پڑھنے کا رواج نہ تھا‘ الغرض جتنی بدعات ہیں‘ ان کے اسباب تھے مگر یہ بدعات نہ ہوتی تھیں‘ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس کام کی ضرورت عہد رسالت وعہد صحابہ میں نہ ہو، بعد میں کسی دینی مقصد وضرورت کے لئے اسے اختیار کیا گیا ہو‘ وہ بدعت نہیں‘ مثلاً: دینی مدارس کی موجودہ شکل اور تبلیغی چلہ وغیرہ ‘کیونکہ ان کا سبب آپ کے زمانے میں نہ تھا‘ کیونکہ ہر صحابی علم دین حاصل کرتا تھا اور اسلام کو پھیلاتا تھا‘ بعد میں مشکوٰة نبوت سے دوری کی وجہ سے اس میں سستی آئی تو ضرورت ہوئی کہ بعض افراد تو تفصیلی علم حاصل کرکے احیاء دین میں لگیں اور باقی افراد مختلف وقتوں میں تھوڑا تھوڑا وقت فارغ کرکے دین سیکھنے اور پھیلانے میں فارغ عمر کے لمحات صرف کریں۔

تیسری شرط:
کسی نیک عمل کو لازم یا کسی خاص تاریخ یا دن کے ساتھ خاص کر لینا:
یعنی یہ ضروری نہیں کہ کوئی چیز اصل ہی میں بری ہو تووہ بدعت ہوگی بلکہ وہ طاعات اور عبادات بھی جن کو شریعت نے مطلق چھوڑا ہے ان میں اپنی طرف سے قیود لگادینا یا ان کی کیفیات بدل دینا یا اپنی طرف سے اوقات کے ساتھ متعین کردینا‘ یہ بھی شریعت کی اصطلاح میں بدعت ہوگی اور شریعت اسلامی اس کو ناپسند کرے گی۔حضور کریم ا کا ارشاد ہے:
”لاتختصوا لیلة الجمعة بقیام من بین اللیالی ولاتختصوا یوم الجمعة بصیام من بین الایام ان یکون فی صوم یصومہ احدکم“۔ (صحیح مسلم:۱۱۴۴)
ترجمہ:۔”جمعہ کی رات کو دوسری راتوں سے نماز اور قیام کے لئے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے روزہ کے لئے خاص نہ کرو‘ لیکن اگر کوئی شخص روزے رکھتا ہو اور جمعہ کا دن آجائے تو الگ بات ہے“۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی نیک عمل کو بھی ایسے اوقات کے ساتھ خاص کرنا بدعت ہے، جن کے ساتھ حضورا نے خاص نہ کیا ہو‘ مثلاً:

میلاد منانا:
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد ا کے ساتھ عشق ومحبت عین ایمان ہے اور آپ کی ولادت سے وفات تک زندگی کے ہر لمحہ وشعبہ کے صحیح حالات وواقعات اور آپ کے اقوال وافعال کو پیش کرنا‘ سننا اور سنانا باعثِ نزول رحمت خداوندی ہے اور ہر مسلمان کا فریضہ ہے‘ لیکن ربیع الاول کی بارھویں تاریخ مقرر کرکے اس میں میلاد منانا‘ محفل اور مجلسیں منعقد کرنا‘ جلوس نکالنا یا فقراء کو کھانا کھلانا، جب حضور ا سے تئیس سالہ دور نبوت میں‘ خلفاء راشدین سے ان کے تیس سالہ عہد خلافت میں صحابہ کرام سے ۱۱۰ھ تک اور تابعین وتبع تابعین سے ۲۲۰ھ تک ثابت نہیں ہے تو اس میں کیسے ثواب ہوسکتا ہے؟ کیا ہمیں ان سے زیادہ حضورا سے محبت ہے؟علامہ ابن امیر الحاج  فرماتے ہیں:
”فان خلا منہ وعمل طعاماً فقط ونویٰ بہ المولود ودعا الیہ الاخوان وسلم من کل ما تقدم ذکرہ فہو بدعة بنفس نیتہ فقط‘ لان ذلک زیادة فی الدین ولیس من عمل السلف الصالحین واتباع السلف اولیٰ“۔ (المدخل:۲/۳)
ترجمہ:۔․”اگر مجلس میلاد سماع سے پاک ہو اور صرف بہ نیت مولود کھانا تیار کیا جائے اور بھائیوں اور دوستوں کو اس کے لئے بلایا جائے اور تمام مذکورہ بالا مفاسد سے محفوظ ہو‘ تب بھی وہ صرف نیت (عقد مجلس میلاد) کی وجہ سے بدعت ہے اور دین کے اندر ایک جدید امر کا اضافہ ہے‘ جو سلف صالحین کے عمل میں نہ تھا ،حالانکہ سلف (یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین) کے نقش قدم پر چلنا ہی بہتر ہے“۔

تیجا‘ چالیسواں کرنا
کسی میت کے لئے ایصال ثواب کرنا بڑی فضیلت کی چیز ہے‘ جو شخص کسی مرنے والے کو ایصال ثواب کرے تو اس کو دُگنا ثواب ملتا ہے ‘ ایک اس عمل کے کرنے کا ثواب اور دوسرے مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا ثواب‘ لیکن شریعت نے ایصال ثواب کے لئے نہ کوئی طریقہ خاص کیا ہے نہ کوئی دن‘ بلکہ جس وقت جس نیک عمل کی توفیق ہوجائے ،اس نیک کام کا ایصال ثواب جائزہے۔

لہذا شریعت کی اس صاف وآسان سنت کو چھوڑ کر تیسرے ‘ دسویں یا چالیسویں دن کو یا ان کے قریب کے ایام میں لوگوں کو اہتمام سے بلاکر ایصال ثواب کرنا اور ایسا نہ کرنے والے کو ملامت کرنا یا اجنبی سمجھنا‘ دین کے اندر اپنی طرف سے تخصیص پیدا کرنا ہے‘ لہذا بدعت ہے۔حضرت جریر بن عبد اللہ  فرماتے ہیں:
”کنا نریٰ الاجتماع الی اہل المیت وصنعہ الطعام من النیاحة“۔ (سنن ابن ماجہ:۱/۱۱۶)
ترجمہ:۔”ہم (یعنی حضرات صحابہ کرام) میت کے گھر جمع ہونے اور میت کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے“۔

اس سے معلوم ہوا کہ میت کے گھر اجتماع کرنا اور وہاں کھانا تناول کرنا حضرات صحابہ کرام کے نزدیک نوحہ جیسا ایک جرم تھا اور اس پر سب صحابہ کا اتفاق تھا۔دسویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ علامہ حسام الدین علی الحنفی  فرماتے ہیں:
”ان ہذا الاجتماع فی الیوم الثالث خصوصاً لیس فیہ فرضیة ولا فیہ وجوب ولافیہ سنة ولا فیہ استحباب ولا فیہ منفعة ولافیہ مصلحة فی الدین بل فیہ طعن ومذمة وملامة علی السلف حیث لم یبینوا بل علی النبی ا حیث ترک حقوق المیت بل علی الله سبحانہ وتعالیٰ حیث لم یکمل الشریعة وقد قال الله تعالیٰ : ”الیوم اکملت لکم دینکم“۔ (بحوالہ براہ سنت:۱/۱۶)
ترجمہ:․․․”میت کے گھر تیسرے دن کوخاص کرکے جمع ہونا نہ تو فرض ہے‘ نہ واجب‘ نہ سنت اور نہ مستجب ۔ نہ تو اس میں کوئی دینی مصلحت ہے اورنہ ہی کوئی دینی فائدہ‘ بلکہ اس میں تو پچھلے بزرگوں پر اعتراض ہے کہ انہوں نے اس کو (کیوں) بیان نہ کیا، بلکہ (معاذ اللہ) حضور ا پر اعتراض ہے کہ آپ نے میت کے حق (یعنی تیسرے یا کسی خاص دن جمع ہونا جس کو عوام میت کے حق میں فائدہ مند سمجھتے ہیں) کو (کیوں) بیان نہ کیا بلکہ (معاذ اللہ) اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات پراعتراض ہے کہ اس نے شریعت کو مکمل نہیں کیا (کہ اس میں تیسرے دن جمع ہونے کا کسی طرح بھی ذکر نہیں ہے) حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :” میں نے آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا“۔

عرس منانا
اسی طرح بزرگانِ دین سے حسن عقیدت اور محبت ”الحب فی الله“ کے موافق افضل ترین اعمال میں داخل ہے‘ ان کی وفات کے بعد ان کے لئے شرعی قواعد کے تحت ایصال ثواب کرنا اور ان کے رفع درجات کے لئے دعا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے‘ کسی بزرگ کی قبر پر حاضر ہوکر دعا کرنا اور سنت کے مطابق سلام کہنا‘ سب درست اور جائز ہے‘ خود حضور کریم ا ہر سال شہداء کی قبور پر جاتے اور فرماتے: تم پر سلامتی ہو۔ (رد المحتار:۲/۲۴۲)لیکن بزرگوں کی قبور کے لئے دن مقرر کرنا‘ خصوصاً سال کے بعد جو دن مقرر کیا جاتا ہے ‘ جس کو عرس کہتے ہیں‘ بدعت ہے۔ کیونکہ اس میں شریعت کی دی ہوئی آزادی میں اپنی طرف سے قید لگانا ہے۔حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”عرس کا دن مقرر کرنا جائز نہیں“۔ (مسائل اربعین:۱/۴۲)
خود نبی کریم ا کا ارشاد گرامی ہے:
”لاتجعلوا قبری عیداً“۔ (سنن ابی داؤد:۲۰۴۶)
ترجمہ:․․․”تم میری قبر کو عید نہ بناؤ“۔
علامہ طیبی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
”لاتجتمعوا للزیارة اجتماعکم للعید“۔ (شرح الطیبی:۲/۳۶۳)
ترجمہ:․․․”تم زیارت کے لئے ایسے جمع نہ ہوں جیسے عید کے لئے جمع ہوتے ہو“۔
جب کہ امام سبکی اسی حدیث کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ویحتمل ان یکون المراد: لاتتخذوا لہ وقتاً مخصوصاً“۔ (الجنة:۱/۱۳۶)
ترجمہ:۔”اس کے یہ بھی معنی ہے کہ میری قبرکی زیارت کے لئے وقت مقرر نہ کرو“۔
جب سرکار دو عالم ا کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے دن مقرر کرنا اور اجتماع کرنا ناجائز ہوا‘ تو کسی امتی کی قبر کے متعلق یہ افعال کرنا کب جائز ہوگا؟

بدعات کی پہچان:
ہمارے معاشرے میں رائج بدعات کی فہرست طویل ہے اور جہالت کی وجہ سے طویل تر ہورہی ہے‘ اعتقادی بدعات تو کفر کی سرحد کے قریب کردیتی ہیں ،جب کہ عملی بدعات گناہ کبیرہ ہیں۔ ان سب بدعات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے ،البتہ بدعت کی چند علامات کاذکر کرنا مقصود ہے۔

علامت:۱
بدعت ہر زمانے میں بدلتی رہتی ہے جب کہ سنت ہر جگہ اور ہرزمانے میں یکساں رہتی ہے‘ مثلاً: اذان دیناسنت ہے جو حضور ا کے مبارک دور سے آج تک ان ہی مخصوص الفاظ اور متعین کیفیت کے ساتھ چلی آرہی ہے ،جب کہ اس کے برخلاف اذان سے قبل یا بعددرود پڑھنا بدعت ہے‘ لہذا اس کے الفاظ ہمارے مشاہدے کے موافق بدلتے رہتے ہیں۔

علامت:۲
جو عبادتیں انفرادی طورپر ثابت ہوں‘ ان کو اجتماعی طور پر کرنا بدعت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عروة بن زبیر  کے ساتھ مسجد نبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر  حضرت عائشہ  کے حجرے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نماز باجماعت پڑھ رہے ہیں‘ ہم نے حضرت سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”بدعت“ ہے۔ (صحیح مسلم،حدیث:۱۲۵۵)

آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ چاشت کی نماز جو اکیلے اکیلے ‘ فرداً فرداً پڑھی جاتی ہے اس کو اجتماعی طور سے باجماعت پڑھنا بدعت ہے نہ کہ اصل چاشت کی نماز بدعت ہے ،کیونکہ چاشت کی نمازتو احادیث سے ثابت ہے۔ (شرح النووی:۱/۴۰۹)

موجودہ دور میں اس کی مثال سنتوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا التزام ہے‘ یہ یقینا بدعت ہے‘ کیونکہ حضور کریم اور صحابہ کرام سے اس موقع پر دعائیں مانگنا تو ثابت ہے لیکن اجتماعی طور پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر۔اسی طرح شب قدر اور دوسری مبارک راتوں میں عبادت کرنا بہت بڑی سعادت ہے اور اس کااہتمام بھی کرنا چاہئے لیکن چند سالوں سے کچھ علاقوں میں مساجد میں صلوٰة التسبیح کو باجماعت ادا کرنے کا رواج شروع ہوگیا ہے جو یقینا قابل ترک ہے، کیونکہ صلوٰة التسبیح کا تو حضور ا اور صحابہ کرام سے انفرادی طورپر پڑھنا ثابت ہے نہ کہ باجماعت ۔اگر باجماعت پڑھنے میں کوئی خیر ہوتی تو ایک دفعہ تو آپ بھی پڑھتے‘ کیونکہ آپ سب سے زیادہ علم بھی رکھنے والے تھے اور نیکی کے حریص بھی تھے۔

علامت:۳
جو سنت آہستہ کرنی ثابت ہو اس کو زور سے ادا کرنا بدعت ہے۔ مثلاً: درود شریف پڑھنے کی بہت سی روایات میں ترغیب آئی ہے اور مختلف مقداروں پر بڑے بڑے اجر کا وعدہ مخبر صادق نے بتایا ہے‘ لیکن اس کے پڑھنے کا سنت طریقہ انفرادی اور آہستہ آواز میں ہے نہ کہ بلند آواز سے۔علامہ شامی اس سلسلے میں ایک بہت اہم واقعہ نقل کرتے ہیں:
”صح عن ابن مسعود  انہ اخرج جماعة من المسجد یہللون ویصلون علی النبی ا جہراً وقال لہم ما اراکم الا مبتدعین“۔ (رد المحتار:۵/۲۸۱)
ترجمہ:․․․” حضرت عبد اللہ بن مسعود سے صحیح روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک جماعت کو مسجد سے محض اس لئے نکال دیا تھا کہ وہ بلند آواز سے ”لا الہ الا اللہ“ اور درود شریف پڑھتے تھے‘ آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں بدعتی ہی سمجھتا ہوں“۔

اسی وجہ سے فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جن جن مواقع میں بلند آواز سے ذکر اور دعاء ثابت ہے ،وہاں بلند آواز سے ہی ذکر اور دعاء کرنے سے شریعت کی منشا ٴپوری ہوگی اور جہاں بلند آواز سے دعاء اور ذکر کرنا ثابت نہیں ہے وہاں آہستہ دعاء اور ذکر ہی بہتر اور افضل ہے‘ بلکہ ایسے مواقع میں خصوصاً جب کہ لوگوں کو تکلیف بھی ہوتی ہے (جیساکہ آج کل محافل میلاد میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے) تو زور سے ذکر حرام‘ بدعت اور مکروہ ہے‘ حضرات صحابہ  اور تابعین کا عمل عمومی طور پر آہستہ آواز سے ذکر پر رہا ہے اور یہی مسلک حضرات ائمہ اربعہ کا ہے۔

علامت:۴
شریعت میں کسی نیک عمل کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہ ہو تو ایسے عمل کو خاص اوقات کے ساتھ خاص کرکے اہتمام والتزام سے ادا کرنا بدعت ہوگا‘ اسی وجہ سے امام شاطبی فرماتے ہیں:
”ومنہا التزام الکیفیات المعینة والہیئأت المعینة کالذکر بہیئة الاجتماع علی صوت واحد واتخاذ یوم ولادة النبی عیداً“۔ (الاعتصام :۱/۳۹)
ترجمہ:۔․”اور بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ اعمال میں مخصوص کیفیات اور ہیئات کا التزام کیا جائے‘ جیسے اجتماعی طور پر ایک آواز سے زور سے ذکر کرنا اور یوم ولادت نبی کو عید قرار دینا یا عید منانا“۔
اسی وجہ سے علامہ شامی فرماتے ہیں:
”وقد صرح بعض علماء نا وغیرہم بکراہة المصافحة المعتادة عقب الصلوٰات مع ان المصافحة سنة وما ذاک الا بکونہا لم توثر فی خصوص ہذا الموضع فالمواظبة علیہا فیہ توہم العوام بانہا سنة فیہ“ (رد المحتار:۲/۲۳۵)
ترجمہ:․․․”علمائے کرام نے نمازوں کے بعد مصافحہ کی عادت بنانے کو صاف طور پر مکروہ فرمایاہے ،باوجود یہ کہ مصافحہ کرنا سنت عمل ہے‘ اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ خاص اس موقع پر (یعنی نمازوں کے بعد) مصافحہ کرنا حضور ا اور صحابہ کرام سے منقول نہیں ہے“۔

مطلب یہ ہے کہ ہرمسلمان کے لئے ملاقات کرتے وقت مصافحہ کرناسنت ہے اور بڑے اجر کا باعث ہے ،اسی طرح اگر کسی سے اتفاقاً نمازوں کے بعد مسجد میں ملاقات ہوجاتی ہے تو اس موقع پر بھی مصافحہ کرنا باعث رضائے الٰہی ہوگا‘ لیکن بعض دیار میں جو رواج بن گیا ہے کہ جماعت کی نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،گوکہ نماز سے پہلے امام صاحب سے ملاقات بھی ہوگئی ہو‘ یہ بدعت ہے۔ اسی طرح نماز کے بعد بعض لوگ خصوصیت اور اہتمام سے اپنے دائیں اور بائیں طرف کے مقتدیوں سے مصافحہ کرنے کی عادت بنالیتے ہیں‘ یہ بھی بدعت ہے۔

علامت:۵
کوئی جائز یا نیک عمل اس طرح سے کیا جائے کہ عبادت پر زیادتی کا خیال ہونے لگے‘ مثلاً: میت کے لئے دعا مانگنا باعثِ ثواب ہے مگر نمازِ جنازہ کے بعد مکروہ ہے۔حضرت ملاعلی قاری حنفی  فرماتے ہیں:
”ولایدعو للمیت بعد صلوٰة الجنازة لانہ یشبہ الزیادة فی صلاة الجنازة“۔ (مرقاة المفاتیح:۴/۱۷۰)
ترجمہ:․․․”دعاء نہیں مانگیں گے میت کے لئے نمازِجنازہ کے بعد اس لئے کہ اس سے نماز ِ جنازہ پر زیادتی کا شبہ ہوتا ہے“۔

دعاء ہے کہ رب کریم ہمیں امام الانبیاء‘ سید الرسل‘ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ‘احمد مجتبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہر طرح کی بدعات سے بچائے۔شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر  فرماتے ہیں:
”فالسعید من تمسک بما کان علیہ من السلف واجتنب عن ما احدث۔“ (فتح الباری:۳/۲۱۳)
ترجمہ:․․․”سعادت مندی اس پر موقوف ہے کہ سلفِ صالحین کے طریقے کو اپنایا جائے اور بعد میں آنے والوں نے جو بدعات نکالی ہیں‘ ان سے بچاجائے“
muhammad wasie fasih butt
About the Author: muhammad wasie fasih butt Read More Articles by muhammad wasie fasih butt: 6 Articles with 12113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.