جان لیوا گرمی....بدترین لوڈشیڈنگ

پاکستان ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ صوبہ سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت میں جان توڑ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ گرمی نے نظام زندگی معطل کر کے رکھ دیا ہے۔ مختلف شہروں میں گرمی نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اتوار کے روز ملک میں سب سے زیادہ درجہ حرارت جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ رہا، جو کہ 1919ءکے دوران جیکب آباد میں ہی ملک میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب تر ہے۔ موہنجودڑو، دادو، سبی میں 49 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیاگیا۔ سکھر، پسنی، قصور، بھکر، نور پور تھل، لسیبلا 48 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے، واضح رہے کہ پسنی میں اس سے پہلے23جون 1992کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت47ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیاگیا تھا۔ پڈعیدن، اوکاڑہ، لاڑکانہ، رحیم یار خان، بہاولنگر47، ڈی آئی خان، لاہور، ڈی جی خان، ساہیوال، بہاولپور، خان پور، روہڑی، ملتان، میانوالی، گوادر 46 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ اتوارکراچی میں رواں برس کا گرم ترین دن رہا، جہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرات 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ ان کے علاوہ ملک کے دوسرے تمام شہروں میں بھی گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں سے متعدد افراد کے جاں بحق اور بے ہوش ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ جبکہ گرمی کی وجہ سے بیمار ہونے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق چند روز تک گرمی کی شدت میں مزید اضافے کا امکان ہے، جبکہ تاحال مون سون کی بارشوں کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ملک کے شہریوں کے لیے گرمی کا موسم انتہائی کرب میں گزر رہا ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت اور سخت گرم لو چلنے کی وجہ سے گھروںسے باہر نکلنا محال ہے، جبکہ دوسری جانب شہریوں کے لیے اس گرم ترین موسم میں گھر میں بیٹھنا بھی محال ہے، کیونکہ جوں جوں گرمی میں شدت آرہی ہے، توں توں ملک میں لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈ نگ کے دورانیے میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ جب سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، تب سے ملک کے مختلف شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12سے 14 گھنٹے، جبکہ دیہی علاقوں میں 17 سے 19 گھنٹے کر دیا گیا ہے۔ طویل لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی آنے کے دوران بھی وقفے وقفے سے بجلی میں تعطل کا سلسلہ جاری ہے، جس سے عوام کے کروڑوں روپے کے الیکٹرانک آلات ضائع ہو رہے ہیں۔ کراچی اور دیگر شہروں میں کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کئی کئی روز سے بجلی غائب ہے، لیکن ابھی تک عوام کو بجلی فراہم نہیں کی گئی۔ جان لیوا گرمی میں اتنی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اتوار کے روز ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار 13ہزار 350 میگاواٹ ،جبکہ طلب 16 ہزار 900 میگاواٹ اور بجلی کے شارٹ فال میں 550 میگاواٹ کے اضافے کے بعد 3 ہزار 550میگاواٹ ہو گیا۔ منگلا ہائیڈل پاور اسٹیشن کے یونٹ نمبر 4 کے پاور ٹرانسفارمر میں فنی خرابی کی وجہ سے پاور اسٹیشن کے 5 یونٹس بند کر دیے گئے، جبکہ بجلی کی پیداوار مزید تین سو پچاس میگا واٹ کم ہو گئی۔ بجلی کا شارٹ فال ساڑھے چار ہزار میگاواٹ ہوگیا ہے۔ سرکاری تھرمل پاور پلانٹس ایندھن کی پوری مقدار فراہم کیے جانے کے باوجود چار ہزار کی بجائے ایک ہزار چھ سو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کے لیے کم وولٹیج فراہم کر رہی ہیں۔ آئیسکو ذرائع کے مطابق بجلی کا جتنا کوٹہ ملتا ہے، اس کو لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں پورا نہیں کیا جا سکتا، جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں وولٹیج کم کرنے پڑ رہے ہیں۔ وولٹیج کم نہ کیے گئے تو لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے تک بڑھ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق منگلا ڈیم کے 5یونٹ فنی خرابی کی وجہ سے بند ہونے اور بجلی کی پیداوار میں مزید 500 میگاواٹ کی کمی کے بعد گزشتہ روز بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کی گئی۔ واپڈا ترجمان نے کہا کہ منگلا ہائیڈل پاورا سٹیشن یونٹس ٹرپ کرنے کی وجہ آتش زدگی نہیں بلکہ فنی خرابی تھی۔ دوسری جانب بجلی کی بیشتر تقسیم کار کمپنیاں غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث حکومت کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں، حکومت کو مجموعی طورپر 25فیصد لائن لاسز کا سامنا ہے، بیشتر کمپنیوں کے لائن لاسز 35فیصد سے بھی زیادہ ہیں، نیپرا نے بھی خراب کارکردگی کی حامل تقسیم کارکمپنیوں کو مراعات، جبکہ غیر تسلی بخش کارکردگی کی حامل کمپنیوں کو سزا دینے کی تجویز دی ہے، کمپنیوں کی نااہلی کا بوجھ زیادہ ترصارفین جبکہ کسی حد تک حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے، سبسڈی کی مد میں حکومت گزشتہ دس سال میں 1.7ٹریلین روپے ادا کرچکی ہے، جوکہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی مجموعی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا فرسودہ نظام اور ان کمپنیوں میں لائن لاسز کے نام پر ہونے والی اربوں روپے کی چوری کاخاتمہ کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے، اس سلسلے میں حکومت نے 2017 تک تمام کمپنیوں کو لائن لاسز 16فیصد تک لانے کا ہدف دیا ہے۔ حکومتی اقدامات سے آئندہ 4 سال میں 16564 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔

ملک میں لوڈشیڈنگ میں اضافے کی وجہ سے ملک بھر کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف احتجاج کو سلسلہ شروع ہے۔ مختلف شہروں میں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور حکو مت کے خلاف شدےد احتجاج اور مظاہر ے کےے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ عوام نے دھرنے بھی دیے جس کی وجہ سے مختلف شاہراہوں پرٹریفک بند ہوگیا۔ عوام کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈ نگ نے ہمیں ذ ہنی مر یض بنا دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے عوا م کو ذلیل و خوار کر نے میں سا بقہ حکو متو ں کے ریکارڈبھی توڑ دیے ہیں۔ گھرو ں میں نہ بجلی ہے، نہ پا نی ہے۔ایسے حالات میں عوام کہاں جائیں۔ عوام نے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے عاجز آکر ہی مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سونپا تھا، لیکن اب بھی ماضی کی طرح شہریوں کا سکون غارت ہے۔ عمران خان کے 11 مئی والے جلسے سے 3 دن پہلے لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی تھی، تب بجلی کہاں سے آئی تھی۔ حکمرانوں کی نیت اگر ٹھیک ہو تو معاملات درست ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارے پالیسی سازوں کی نیتوں میں فتور ہے، جس کے باعث معاملات گھمبیر سے گھمبیر ہو رہے ہیں۔ عوام کا مزید کہنا تھا کہ حالانکہ گزشتہ ماہ مئی میں ہی وزیر اعظم کی حکم پر محکمہ بجلی کے سرکاری عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ ”توانائی کی طلب اب پوری ہوچکی ہے، لہٰذا اب ملک میں کسی جگہ بھی لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی۔ اس وقت بجلی کی طلب گیارہ ہزار ایک سو میگاواٹ ہے، جو ملک میں بجلی کی ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔“ پنجاب میں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے کے دوران مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب گزشتہ وفا قی حکو مت کے خلاف مینار پا کستان جا کر بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف دھرنے دیتے تھے ،آج خا موش کیوں ہیں ،صرف اس لیے کہ آج وفاق میں ان کے بھا ئی کی حکو مت ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636798 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.