کرنل جج اور پنشن

وہ میرا دوست ہے اور ہم ساڑھے چھبیس سال سفر و حضر کے ساتھی رہے۔بلند وبالا پہاڑ اور بے رحم ریگستان اپنے تئیں وطن کی خدمت کے لئے ہم نے اکٹھے سر کئے۔ہم نے اپنا لڑکپن جوانی اس ملک کے نام کر دی۔وطن نے بھی ہمیں کیا کچھ نہیں دیا۔ہم بے نام تھے ہمیں نام دیا۔بے زبان تھے ہمیں زبان دی۔بے مول تھے ہمیں زمانے کی نگاہ میں انمول کر دیا۔ہم نے بارہا وطن کی الفت میں شہادت گاہ میں اکٹھے قدم رکھے لیکن وہ ہمارا مقدر نہ تھی ۔ہم زندہ بچ گئے تو اسی مادرِ وطن نے ہمیں غازی کہہ کے اپنے سینے سے لپٹا لیا۔ہمیں وطن سے گلہ نہیں۔اب کہ ہمارے قویٰ میں اتنی جان نہیں۔ہم برق رفتاری سے جھپٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن اپنی تربیت کے مطابق جب تک دم میں دم ہے اﷲ کے دین کی سر بلندی اور وطن کی حفاظت کے لئے ہر دم تیار ہیں۔گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے کہنے کے بعد غالب نے تو ساغر و مینا سامنے رکھنے کی درخواست کی تھی لیکن اس معاملے میں ہم غالب کے نہیں سی ایم ایچ میں پڑے اپنے اس سپاہی کے مرید ہیں جو اوائل عمری میں ایک بار ہمیں سی ایم ایچ میں ملا تھا۔اس کے دونوں ہاتھ کندھوں تک اور ٹانگیں کولہوں تک کٹی ہوئی تھیں۔اس کے چہرے پہ لیکن ملکوتی مسکراہٹ تھی۔میں نے دور سے اسے دیکھا تو مجھ میں اسے تسلی دینے کی ہمت نہ ہوئی۔دوسرے سپاہیوں کی عیادت کرتے سمے اس سے کنی کترا کے گزرنے لگا تو وہ خود ہی بول پڑا۔سر جی! میں اب ٹھیک ہوں۔میری سفارش کریں کہ مجھے دوبارہ محاذ پہ بھیج دیا جائے۔ میری آنکھیں سلامت ہیں ۔میں گارڈ ڈیوٹی تو اب بھی کر سکتا ہوں۔

میرا دوست میرے سامنے بیٹھا ہے۔اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔مسئلہ کوئی اتنا بڑا نہیں لیکن اس کی آنکھ کا مثانہ ہی کچھ کمزور ہے۔بوڑھے ماں باپ کو تو بچے بھی گھر کی دہلیز پہ بٹھا دیتے ہیں وہ ایک سول جج کا دکھڑا لے کے بیٹھا ہے۔کرنل صاحب کا بیٹا نیا نیا جوان ہو رہا ہے۔فوج میں رہتے ہوئے کرنل صاحب نے کبھی سوائے فوجی ہتھیاروں کے کبھی اسلحہ نہیں خریدا۔کبھی شکار نہیں کیا۔ننھی منی چڑیوں کو کیسے شکار کیا جائے۔دل کے بہت نرم ہیں لیکن بیٹا تو فوجی کا بیٹا ہے اور پھر نیا خون۔اس نے کہیں سے ایک پسٹل خریدا جو گلی گلی محلے محلے چھابڑی میں رکھ کے فروخت کئے جاتے ہیں۔دوستوں پہ شاید دھاک بٹھانے کو اسے گاڑی کے ڈیش بورڈ میں رکھا۔ کرنل صاحب کو اس کی خبر نہیں تھی۔ انہیں کسی کام سے اسلام آباد آنا تھا۔انہوں نے گاڑی پکڑی اور اسلام آباد آ گئے۔دارالخلافے کے دوستوں کو پتہ چلاتو انہوں نے کھانا اکٹھے کھانے کی ضد کی۔تین دوستوں کے ساتھ کرنل صاحب اسلام آباد کے ایک ریستوران کی طرف مڑے تووہاں طاہر القادری صاحب نے دھرنا دے رکھا تھا۔ پولیس کے جوانوں نے ناکا لگا رکھا تھا اور دھڑا دھڑ عوام کی مٹی پلید کر رہے تھے۔انہیں بھی روکا گیا۔ گاڑی سے اترنے کو کہا گیا۔بد تمیزی ہوئی تو انہوں نے اپنی شناخت پیش کی ۔پولیس کے سپاہی نے ان کا کارڈ اٹھا کے دور پھینکا اور کہا ریٹائرڈ ہے۔اس پہ احتجاج کیا تو سپاہی مزید جوش میں آ گیا۔ گاڑی کی تلاشی ہوئی اور پستول برآمد ہو گیا۔

کرنل صاحب بھلے آدمی ہیں اور انتہاء کے قانون پسند۔انہوں نے پولیس پہ شک کی بجائے اسے اپنے منہ زور بیٹے کی کارستانی سمجھا اور پولیس کے ساتھ ہو لئے۔ ایک سولین دوست بھی ہمراہ تھا۔اس نے معاملہ رفع دفع کرانے کے پاکستانی طریقے کی پیشکش کی لیکن کرنل صاحب کا کیپیٹل پولیس سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔قصہ زمین بر سر زمین حل کرنے کی بجائے انہوں نے قانونی کاروائی پہ زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں سنا جائے گا لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔رات تین بجے تک بھوکے پیاسے انہیں تھانے میں بیٹھنا پڑا۔وہ پولیس کے روئیے سے شاکی ضرور تھے لیکن انہیں عدالت سے انصاف کی امید تھی۔رات تین بجے انہیں ایف آئی آر کی کاپی دی گئی اور ضمانتی کا بندو بست کرنے کو کہا گیا۔اس وقت تک کرنل صاحب کے ہوش ٹھکانے آ چکے تھے۔

تقریباَ چار ماہ تک کرنل صاحب پولیس اور متعلقہ عدالت کے ریڈر سے مقدمے کے سلسلے میں رابطے میں رہے ۔کرنل صاحب دل کے مریض بھی ہیں بیماری میں پھر وہ بھی بھول گئے کہ وہ ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں ایک مقدمے میں ماخوذ ہیں۔سال یونہی گزذر گیا۔ ایک دن خبر ملی کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ایبٹ آباد سے لشتم پشتم جج کے سامنے پیش ہوئے اسے بتایا کہ مجھے کوئی سمن ہی نہیں ملا۔اس نے کمال مہربانی سے سمن کینسل کیے اور تقریباََ ایک مہینے بعد کی تاریخ دے دی۔آج دوبارہ پیش ہوئے ۔جج نے تین ہزار جرمانہ اور عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں چھ دن کی قید لکھ کے مقدمہ خارج کر دیا۔ شکر ہے کہ ان کے پاس تین ہزار روپے تھے ورنہ سنا ہے کہ اڈیالہ جیل کا سپریڈنڈنٹ کافی مہمان نواز ہے۔میں نے بری ہونے پہ کرنل صاحب کو مبارک باد دی لیکن ان کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ انہیں امید تھی کہ جج سے انہیں انصاف ملے گا کہ اب عدالتیں آزاد جو ہیں۔وہ پیش ہوئے۔جج نے انہیں سنے بغیر کہا کہ آپ مقدمہ چلانا چاہتے ہیں تو وکیل کا بندوبست کریں یا جرمانہ کر کے کیس فارغ کر دوں۔انہوں نے عدالت کی اجازت سے عرض کیا کہ غازی ہوں اور قانون پسند کبھی کوئی جرم نہیں کیا۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ پستول کہاں سے آیا۔جج نے پھر دہرایا کہ کیس چلانا ہے تو وکیل کا بندو بست کریں۔اس کا مطلب تھا مزید ایک سال کی خواری اور وکیل کی فیسوں کا خرچہ الگ۔یہ سیدھی سادی دھمکی تھی۔کرنل صاحب نے سزا کے خوف سے معافی کی بات کی تو وہ نوخیز سا جج پوچھنے لگا۔پنشن نہیں لیتے کیا؟کرنل صاحب نے پنشن بتائی تو اس نے آخری وار کیا۔اتنے پیسے تو جوڈیشل افسروں کی تنخواہ نہیں جتنے آپ پنشن کی صورت لیتے ہیں۔میں نے بتایا ناں کرنل صاحب کی آنکھ کا مثانہ کمزور ہے۔وہیں انہوں نے آنسو کا پہلا قطرہ اپنے ملک کے نظام عدل کی نذر کیا۔آنکھیں جھکائیں اور عدالت سے باہر نکل آئے۔

کرنل صاحب کو بیٹے کی منہ زور جوانی کا دکھ ہے۔پولیس کے روئیے کا دکھ ہے اور جج کی بے حسی کا۔میں نے کہا تم نے جرم کیا تمہیں سزا مل گئی رونا کس بات کا۔رہیں تمہاری خدمات تو کیا تم ان کے لئے تنخواہ نہیں لیتے رہے۔ترنول پھاٹک پہ چار دن پہلے شہید ہو جانے والے کرنل ظاہر شاہ اور کرنل اسد بھی تو تنخواہ لیتے تھے مر گئے تو کیا ہوا؟ تم نے تنخواہ کے بدلے وطن کو نقد جان پیش کرنے کا عہد کیا تھا کرنل ظاہر شاہ اور اسد نے وہ نبھا دیاتم تو وہ بھی نہ کر سکے۔پھر اسے میں نے پانچ کروڑ کے گھر میں رہنے والے اور ایکس سروس مین سوسائٹی کی چڑیا اڑانے والے انقلابی جنرل حمید گل کا وہ بیان دکھایا کہ وطن پہ جان دینے کو سابقہ فوجی دوبارہ اپنی وردیاں پہن لیں۔جنرل صاحب ! اب کیوں ،ہمیں تو اب تنخواہ نہیں ملتی۔جانیں وہ لٹائیں جنہیں تنخواہ ملتی ہے۔ہم تو اب پنشن پہ ہیں جو ایک جوڈیشل افسر کی تنخواہ سے تو زیادہ ہے لیکن ہے تو پنشن ناں۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268407 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More