بیمار معاشرہ

دربار میں مسخرہ اپنے لطائف اور جگت بازیوں سے درباریوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ کا بھی دل بہلا رہا تھا،مسخرے کی باتوں سے سارے درباری ہنس رہے تھے بادشاہ بھی مسخرے کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا،جیسے جیسے بادشاہ ہنستا مسخرہ اور بلند آواز میں جگت بازی کرتا ،وہ کہتا بادشاہ لنگڑا ہے،بادشاہ ،اندھا ہے،بادشاہ بہرہ ہے،بادشا ہ جھوٹا ہے،وہ کنجوس ہے،وہ ڈرپوک ہے مسخرے کی ان باتوں سے درباری خوب ہنستے اور بادشاہ بھی ہنسی سے بے حال ہوا جاتا،مسخرے کو اور جوش آیا اس نے زور زور سے کہا کہ بادشاہ گنجا ہے،پاگل ہے، اس پر بادشاہ کو غصہ آیا اس نے فوراَ حکم دیا کے مسخرے کو گرفتار کیا جائے اس کو سزا دی جائے بادشاہ کے اس حکم پر دربار میں سناٹا چھا گیا اور سارے درباری خاموش ہو گئے کہ بادشاہ کو کیا ہوگیا ابھی تو یہ ہمارے ساتھ ہنس رہے تھے اور ابھی انہوں نے مسخرے کو سزا کا حکم دے دیا،بادشاہ نے حکم دیا کہ صبح اس کو شیر کے پنجرے میں ڈالا جائے تاکہ شیر اس کو کھا جائے یہی اس کی سزا ہے بادشاہ کے اس حکم پر کوئی بھی ردوبدل نہیں ہو سکتی تھی سارے درباری اور عام لوگ بھی اس بات پر پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا مسخرے کو کس طرح بچایا جائے کیونکہ جو حکم بادشاہ نے صادر کیا اس کا ٹالنا کسی کے بس میں نہیں تھا،لوگوں نے راتوں رات شیر کو گوشت کھلانا شروع کر دیا پوری رات لوگ بادشاہ سے چھپ کر شیر کو طرح طرح کے جانوروں کا گوشت دیتے رہے تاکہ جب صبح اس کے پنجرے میں اس کو ڈالا جائے تو وہ اس کو نہ کھا سکے ۔صبح مقررہ وقت پر مسخرے کو شیر کے پنجرے میں ڈالنے کا وقت آیا تو وہاں پر لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا سب کے لبوں پر بس ایک ہی دعا تھی کہ کسی طرح یہ بچ جائے ،اس کی جان بچ جائے بادشاہ کے حکم پر اسے پنجرے میں ڈالا گیا شیر اسے دیکھ کر کھڑا ہوا سب کے ہونٹوں پر بس دعا تھی اور خاموشی کا عالم تھا شیر ایک قدم آگے بڑھا اور پھر رک گیا،مسخرہ ڈانس اوراٹھگیاں کرتا ہوا کسی طرح پنجرے کے دروازے تک پہنچا اور پھر پھرتی سے باہر نکل گیا،جب سب نے دیکھا کہ وہ بچ گیا اور شیر نے اسے کچھ نہیں کہا تو سب خوشی سے جھوم اٹھے اور تالیاں بجنے لگیں،بادشاہ بھی یہ دیکھ کر خوش ہوا اور اس نے اس خوشی میں مسخرے کو اپنے پاس بولایا اور کہا کہ مجھے تمہارے بچ جانے کی خوشی ہے،مسخرے نے بادشاہ سے پوچھا کہ مجھے ایک بات بتائی جائے کہ میں نے آپ پر اتنی باتیں کی آپ ان پر ہنستے جا رہے تھے آپ پر جگت لگانے سے درباری بھی خوشی سے پاگل ہوتے جا رہے تھے مگر ایسی کونسی بات میں نے کی جس کی وجہ سے آپ نے مجھے سزا کا حکم دیا بادشاہ نے کہا کے تم نے کہا کہ ہمارا بادشاہ لنگڑا ہے،ہمارا بادشاہ بہرہ ہے،اندھا ہے مگر مجھے پتہ تھا کہ سب جانتے ہیں کہ میں ایسا نہیں ،جب تم نے کہا کہ ہمارا بادشاہ کنجوس ہے،لالچی ہے مجھے اس پر بھی ہنسی آئی کہ سب جانتے ہیں میں ایسا نہیں،مگر جب تم نے کہا کہ ہمارا بادشاہ گنجا ہے تو بادشاہ نے اپنے سر سے ٹوپی اتاری اور دیکھا یا کہ یہ دیکھ یہ سچ ہے کہ میں واقعی گنجا ہوں بس اس سچ پر مجھے غصہ آگیا کیونکہ باقی تو سب میرے بارے میں جھوٹ تھا لیکن میرے گنجے پن کا آج تک کسی کو پتہ نہیں بس اس بات پر مجھے غصہ آیا اور میں نے تمہیں سزا دینے کا حکم دیا۔

ٹی وی ٹاک شو میں اکثر ایسا دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے ،اپنے دوستوں کی محفلوں میں،شادی بیاہ کی تقریب میں اس طرح دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر دوست ایک دوسرے پر خوب فقرے کس رہے ہوتے ہیں سب ہنس ہنس کے پاگل ہوتے ہیں مگر اچانک کسی ایک بات پر کوئی دوست بھڑک اٹھتا ہے اور بات بہت دور تک نکل جاتی ہے اصل میں وہی سچی بات ہوتی ہے جس پر کسی کو غصہ آتا ہے،سیاست دانوں میں یہ بات بہت زیادہ پائی جاتی ہے کسی بھی شو میں باتیں ہوتیں ہیں اپنے اپنے خیالات پیش کئے جاتے ہیں مگر جب کسی سیاست دان کی ذات کا سچ سامنے آتا ہے جو اس نے عوام سے چھپا کر رکھا ہوتا ہے تو وہ اپے سے باہر ہو جاتا ہے اور پھر وہی ہلڑ بازی ہوتی ہے جو اس ملک کے سیاست دانوں کا وطیرہ بن چکی ہے۔اصل میں غصہ اس بات پر نہیں آتا کہ کوئی الزام لگا رہا ہے بلکہ اس سچ پر جو انہوں نے عوام سے ،لوگوں سے چھپا رکھا ہوتا ہے اور خود کو پارسا کہتے ہیں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔اسی لئے کہتے ہیں کہ سچ کڑوا بھی ہوتا ہے تلخ بھی۔یہی تو اس دور کے جھوٹے انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی ذات کا سچ برداشت نہیں کر سکتا ،آج کے دور کا انسان چائے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو اس کا بنیادی فلسفہ اپنا مفاد ہوتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر وہ دوسرے انسان کا خون کرنے تک تیار ہوتا ہے ،یہاں پر دین ،اسلام،مذہب کا نام تک بیچا جاتا ہے ۔کسی انسانی بہلائی کی نہیں بلکہ اپنی ذات کے مفاد کے لئے ایمان تک کا سودہ کیا جاتا ہے۔اسی لئے ایسے خیالات اور نظریات معاشرے میں عام ہیں کہ شریف انسان کی جگہ نہیں،یہاں پر سچے انسان کا گزارا نہیں،جو جھوٹ نہیں بولتا وہ مقابلہ نہیں کر سکتا،مگر یہ انسان ،اس معاشرے میں رہنے والا یہ نہیں سوچتا کہ وہ مخلو ق کہا ں سے آئے گی جو سچ کو اہمیت دے گی ،جو اچھے انسان کی قدر کرے گی ۔دوسرے کوطعنہ دینے والا کیا کبھی اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ایک شخص برائی خود کرتا ہے اور پھر اس کو جسٹیفائی کرنے کے لئے خود ہی ریمارکس دیتا ہے کہ یہاں پر تو شریف انسان کی جگہ نہیں، میں نے اسی لئے بدمعاشی کی کہ معاشرے میں اپنے رہنے کی جگہ بنائی۔اگر سچ بولا جائے تو ہم خود بھی بیمار ہیں اور ہم نے معاشرے کو بھی بیمار کر دیا ہے۔جس طرح کسی جانور کے منہ خون لگ جائے تو وہ خون خوار ہو جاتا ہے اسی طرح ہمارے منہ بھی حرام لگ چکا ہے اور ہم اس کی خاطر اخلاقیات ،انسانیت،بھائی چارہ،ہمدردی،اخوت،حقوق ،کو اپنے پاوں تلے روندتے ہوئے فخریہ انداز میں ظلم کرتے اور ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی انکھیں بند کر کے بغل میں چھری منہ میں رام رام کرتے ہیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75030 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.