پوائنٹ اسکورنگ سے آگے
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
سیاست کولھو کے بیل کی صورت
اختیار کرگئی ہے۔ بات خواہ کہیں سے چلے، گھوم پر پھر اُسی نکتے پر آجاتی ہے
جس سے بحث کا آغاز ہوا ہوتا ہے۔ ایک زمانے سے اداروں کے جس تصادم کا راگ
الاپا جارہا تھا اور رونا رویا جارہا تھا وہ تصادم بالآخر واقع ہوکر رہا۔
قوم نے یہ تماشا پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے۔ ع
لیکن اب کے نظر آتے ہیں کچھ آثار جُدا
معاملہ ایک دوسرے کو پیغام دینے تک محدود تھا مگر اب بات پوائنٹ اسکورنگ
یعنی ایک دوسرے کے کمزور لمحات سے فائدہ اُٹھانے تک آگئی ہے۔ کل تک عالم یہ
تھا کہ ادارے برتری پانے کی کوشش میں اپنا اپنا زور آزماتے تھے اور میڈیا
کو سہارا بناکر اپنی پوزیشن بہتر بناتے تھے۔ اب معاملہ بہت عجیب ہے کہ بعض
میڈیا خود بھی اداروں کے درمیان تصادم کا حصہ یا فریق بن گئے ہیں۔ سیاسی
اور عسکری قیادت نے ایک دوسرے کو قبول کرنے کا سو بار عندیہ دیا ہے مگر قوم
ایسی سادہ بھی نہیں کہ ہر بات کو سوچے سمجھے بغیر سچ مان لے۔ جو کچھ دکھائی
دے رہا ہے اُس کی مدد سے ایسا بہت کچھ بھی دیکھا جاسکتا ہے جو آنکھوں کے
سامنے نہیں۔ اندازے لگانے میں اب اہلِ وطن کی مہارت کو کوئی چیلنج نہیں
کرسکتا۔
وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان جو بھی معاملات رہے ہیں وہ اِس قدر اظہر
من الشمس ہیں کہ اٹکل کے گھوڑے دوڑاکر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کون
سا معاملہ کہاں تک جا رہا ہے۔ میاں محمد نواز شریف اپنے تیسرے دورِ حکومت
میں بھی فوج کو زیرِ دام لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف فوج ہے کہ
اپنا ’’اسٹیک‘‘ کمزور ہونے سے بچانے کے لیے وہ سب کچھ کر رہی ہے جو کرسکتی
ہے۔ کل تک میڈیا والے اِس کشمکش کی کوریج کیا کرتے تھے۔ اب کئی آؤٹ لیٹس
واضح طور پر فریق بن چکے ہیں۔ اگر وزیر اعظم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو فوج
کو پسند نہیں تو جواب میں عسکری قیادت بھی اشارا یا پیغام دینے میں دیر
نہیں لگاتی کہ بات اُسے بُری لگی ہے۔ آرمی چیف کا ایس ایس جی کے ہیڈ
کوارٹرز کا دورہ سیاسی قیادت کے لیے واضح پیغام تھا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی
ہوسکتا ہے۔ کراچی میں امن و امان کے حوالے سے اجلاس میں وزیر اعظم نے سابق
صدر آصف علی زرداری کو بھی شریک کرکے فوج کو پیغام دینے کی کوشش کی کہ کسی
ایسی ویسی صورت حال میں سیاست دان ایک ہوں گے۔
ٹی وی چینلز کی لڑائی میں بھی سیاسی اور عسکری قیادت نے ثابت کردیا ہے کہ
اُن کی راہیں ہرگز ایک نہیں۔ عمران خان کو اُن کے سرپرستوں نے خوب استعمال
کیا ہے۔ ایک میڈیا گروپ کے خلاف سرگرم رکھ کر گویا اُنہیں ٹرک کی بَتّی کے
پیچھے لگادیا گیا ہے۔ کارکن بھی حیران ہیں کہ قائدِ محترم کو آخر ہوا کیا
ہے کہ ایک ہی راگ الاپے جارہے ہیں، سَپتک بھی تبدیل نہیں کر رہے! اِس سے
کہیں زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ چار پانچ حلقوں میں دھاندلی کا رونا روکر
خیبر پختونخوا پر توجہ نہیں دے رہے جس پر حکمرانی کا تحریکِ انصاف کو موقع
ملا ہے! بہت سے مبصرین عمران خان کی روش کو کفرانِ نعمت سے تعبیر کرنے پر
مجبور ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین کو کمال ہوشیاری سے
غیر متعلق باتوں میں اُلجھا دیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان بھی
کوئی ننھے کاکے تو ہیں نہیں کہ یوں باتوں میں آجائیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ
سیاست کی رونقیں دیکھنے کے لیے اُنہوں نے جن کے کاندھوں پر سواری کی ہے وہ
اب اُن سے کام لے رہے ہیں اور اُن کا کام اُتار رہے ہیں!
پوائنٹ اسکورنگ کی دُھن میں عمران خان یہ بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ
اُن کے سیاسی فکر اور ساکھ کو گُھن لگتا جارہا ہے۔ انتخابات میں اُن پر
بھروسہ کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اب لوگ ووٹ دینے سے پہلے
ضرور سوچیں گے کہ ایک صوبے کی حکومت ملنے پر بھی وہ چند حلقوں میں دھاندلی
کا رونا روکر اپنا وقت اور توانائی ضائع کرتے رہے۔ ایسے میں اُن پر دوبارہ
کیونکر بھروسہ کیا جائے؟
میڈیا گروپس کی لڑائی میں بھی دیگر اداروں کی پوزیشن واضح ہوگئی اور سب نے
حتی المقدور پوائنگ اسکورنگ کی۔ کیوں نہ کرتے؟ یہی کام تو سب سے اچھا آتا
ہے! معاملات دیکھتے ہی دیکھتے ایسا رُخ اختیار کرگئے کہ فوج غیر جانبدار رہ
سکی نہ حکومت۔ آئی ایس آئی پر الزامات کے جواب میں فوج تو بِھنّائی مگر
حکومت نے کچھ خاصا ناک بھوں چڑھانے سے گریز کیا۔ یہ گویا اِس امر کا اشارا
تھا کہ سیکیورٹی کے حَسّاس ترین ادارے کے معاملے میں وہ فوج سے پوری طرح ہم
خیال اور ہم آہنگ نہیں ہوسکتی یا نہیں ہونا چاہتی۔
اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ سویلین قیادت کی برتری منوانے کا ہے۔ نواز شریف
اِس معاملے میں اِس قدر سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں کہ شاید وہ حکومت بھی داؤ
پر لگانے سے گریز نہ کریں۔ آصف علی زرداری سے اُن کے تعلقات کا اُستوار
رہنا بہت سوں کے نزدیک گٹھ جوڑ ہو تو ہو مگر عسکری قیادت کی سیاسی مہم
جُوئی کے آگے بند باندھنے کی یہ بھی تو ایک صورت ہے۔ یعنی یہ کہ بڑی سیاسی
جماعتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سویلین سیٹ اپ چلتا رہے اور فوج کو
اِس طرف آنے کا راستہ نہ ملے۔
نریندر مودی کی حلف برداری نے اداروں میں تصادم کو مزید اظہر من الشمس کرنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وزیر اعظم کو جیسے ہی بھارت کی طرف سے مودی کی
تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ ملا، ملک میں ہر طرف شور اُٹھا کہ
ایک انتہا پسند اور متعصب ہندو لیڈر کی حلف برداری کے موقع پر موجود رہنا
مناسب نہیں۔ یعنی یہ کہ وزیر اعظم کو بھارت نہیں جانا چاہیے۔ فوج بھی یہی
چاہتی تھی۔ میاں صاحب نے برادرِ خورد کو جی ایچ کیو بھیجا تو قوم یہ سمجھی
کہ شاید مشورہ مقصود ہے۔ مگر شاید شہباز شریف صرف یہ اطلاع دینے گئے تھے کہ
بھائی جان نئی دہلی جارہے ہیں! مخالفین نے تاثر دیا کہ دِلی چلے بھی جاؤ تو
دِلّی ہنوز دور است! مگر میاں صاحب نہ مانے اور سارک کے رکن ملک کے سربراہِ
حکومت کی حیثیت سے راشٹر پتی بَِھوَن میں اُس وقت موجود رہے جب مودی بھارت
کی ترقی و استحکام کا حلف اُٹھا رہے تھے۔
قومی سیاست یہ کیسے موڑ پر کھڑی ہے کہ ہر معاملے میں پوائنٹ اسکورنگ کو
پیدائشی حق سمجھ لیا گیا ہے؟ کوئی ایک آدھ معاملہ تو ایسا بھی ہونا چاہیے
جس میں مقتدر حلقے صورت حال کا فائدہ اُٹھانے سے گریز کریں اور صرف ملک و
قوم کے مفاد کا سوچیں۔ اداروں کا اسٹیک ملک اور قوم کے اسٹیک سے بڑھ کر
نہیں ہونا چاہیے۔ ریاستی ادارے ہوں یا نجی ملکیت والے میڈیا گروپس، سبھی کے
لیے بہتر یہ ہوگا کہ اپنی منطقی حدود کا خیال رکھیں۔ پوائنٹ اسکورنگ کی
جاسکتی ہے مگر ہر معاملے میں نہیں۔ اسکور کو لیول کرنے کی کوشش میں قومی
مفادات کو لیول کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ معاملہ اُمورِ داخلہ کا ہو
یا اُمورِ خارجہ کا، ہر معاملے میں متعلقین یعنی فریقین کو اپنے اپنے کردار
کا تعین تو کرنا ہی ہے۔ اگر الگ بیٹھ کر ایسا کرنا ممکن نہیں تو وسیع
البنیاد مصالحتی عمل کے ذریعے سہی۔ ملک کو نیا نظام دینے کے لیے بات چیت کے
ذریعے نئے عمرانی معاہدے کی منزل تک پہنچنے میں کیا ہرج ہے؟ کیا لازمی ہے
کہ جو اسٹیک ہولڈرز ہونے کے دعویدار ہیں وہ ’’اسٹاکسٹ‘‘ بن کر رہ جائیں!
اگر سبھی اپنے مفادات سمیٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالیں گے تو قوم کہاں
جائے گی؟ جو غریب محفوظ اور پُرسکون زندگی کے خواب اپنی پلکوں پر سجائے
بیٹھے ہیں کچھ اُن کے اسٹیک کا بھی خیال اور احساس کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے
کہ جب کسی ریاست میں عوام پوائنٹ اسکورنگ پر تُل جاتے ہیں تو اپنے جذبات
اور اُمنگوں سے کھیلنے والوں کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچاکر ہی سُکون کا
سانس لیتے ہیں! |
|