ایک خاتون سے‘ راہ چلتے‘ ایک تھانےدار نے‘ جو گھوڑی پر
سوار تھا‘ چودھری کے گھر کا رستہ دریاقت کیا۔ اس خاتون نے‘ تفصیل اور تسلی
سے‘ رستہ بتایا۔ گھر آ کر‘ با رعب خاموشی اختیار کر لی۔ گھر کا کوئی بھی
فرد بلاتا‘ بارعب دیکھنی کے ساتھ‘ منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ شام کو خاوند
آیا‘ اس نے بھی بلایا‘ تو اس بارعب اور معزز خاتون نے‘ وہ ہی انداز اختیار
کیا۔ پھر اس نے‘ اپنے بچوں سے‘ معاملہ دریافت کیا۔ انہوں نے کہا‘ ہمیں وجہ
کا تو علم نہیں‘ لیکن اماں صبح سے ہی‘ ہم سب سے‘ اسی طرح کا‘ برتاؤ کر رہی
ہے۔ خاوند نے دو چار گالیاں کھڑکائیں‘ اور بوتھا پھیلانے اور سوجھانے کی
وجہ دریافت کی۔ اس بی بی نے‘ بڑے فخر اور تمکنت سے فرمایا: میں نے اس منہ
سے‘ تھانےدار سے بات کی ہے‘ اور اب اسی منہ سے‘ کتوں بلوں کے ساتھ بات
کروں۔
ریاض کا کراچی میں‘ بڑا لمبا چوڑا کاروبار تھا۔ لاکھوں میں کھیلتا تھا۔ کسی
کام سے‘ اس کا منیجر کرم پور آیا۔ واپسی پر‘ ہمارے ہاں بھی رکا۔ اس نے ریاض
کی جانب سے‘ ہم سب کا حال احوال دریافت کیا۔ چلتے وقت‘ ریاض کی جانب سے‘
مجھے پارکر کا پن‘ اور زرینہ کو‘ پانچ صد روپے دیے۔ منیجر چلا گیا‘ تو ذرا
دکھانا‘ کہہ کر پن مجھ سے لے لیا اور پھر مستقل قبضہ کر لیا۔ میں نے‘ اس
پرمکر قبضے پر‘ صبر کا گھونٹ بھر لیا‘ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس کے
بھائی نے یہ پن دیا تھا۔ مجھے دینے سے‘ میرا تو نہیں ہو گیا تھا۔
زرینہ پڑھی لکھی ہے‘ اس لیے‘ یہ ناجائز قبضہ‘ قابل مذمت نہیں۔ اصل معاملہ
یہ ہوا‘ کہ اس کے مزاج میں‘ رعونت آ گئی۔ یہ تو منیجر آیا تھا‘ اگر ریاض
خود آ جاتا‘ تو خدا معلوم‘ اس کے مزاج میں‘ کس نوعیت کی تبدیلی آ جاتی۔
مفتوح کو‘ فتح کرنے کے لیے‘ میدان میں اترنا‘ کسی طرح‘ بڑے کارنامے کے زمرے
میں نہیں آتا۔ چھری کا خربوزے کو‘ ظالم کہنے والے کو‘ عقل مند نہیں کہا جا
سکتا۔ مانتا ہوں‘ ریاض‘ زرینہ کا‘ چالیس سال سے بھائی ہے‘ لیکن پندرہ سال
سے‘ میرا بھی تو‘ عزت مآب سالہ صاحب ہے۔ پندرہ برسوں کو‘ کسی کھاتے میں نہ
رکھنا‘ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔ ہمارے حکم رانوں کی طرح‘ زرینہ بھی‘
مفتوح‘ یعنی مجھے‘ مزید فتح کرنے کے‘ چکر میں رہتی ہے۔
عجیب دھونس تو یہ ہے‘ لوگ‘ طاقت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے‘ خربوزے کو‘
ظالم قرار دے دیتے ہیں۔ ظلم یہ کہ اس ذیل میں‘ ان کے پاس‘ ناقابل تردید
دلائل بھی ہوتے ہیں۔ ان دلائل کا منکر‘ جان سے جائے ناجائے‘ جہان سے ضرور
چلا جاتا ہے۔ اسے ہر اگلے لمحے‘ چھبتی اور طنزیہ نظروں کا‘ سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ صاحب حیثیت اور صاحب ثروت بھائی کی بہن ہونا‘ بلاشبہ کوئی معمولی اعزاز
نہیں‘ لیکن اس بوتے پر‘ اوروں کو معمولی اور حقیر سمجھنا‘ اور ان کو حقارت
کی نظر سے دیکھنا‘ بھی تو کوئی اچھی بات نہیں۔ پورے کنبہ کی عورتیں‘ زرینہ
کو سچا سمجھتی ہیں۔ کہتی ہیں‘ یہ ہی ہے‘ جو گزرا کر رہی ہے‘ کوئی اور ہوتی‘
تو کب کی‘ چھوڑ کر چلی جاتی۔
لڑنے اور بےعزتی کرنے کے لیے‘ بہانے تراشنا‘ کوئی اچھی عادت نہیں۔ کل ہی کی
بات ہے‘ اس بات پر اچھا خاصا بولی‘ کہ انڈے چھوٹے لایا ہوں۔ اب ان سے کوئی
پوچھے‘ انڈے میں دیتا ہوں! انڈے مرغی دیتی ہے‘ اور مرغی کسی کی ماتحت نہیں‘
یہ اس کی مرضی ہے‘ کہ انڈے چھوٹے دے یا بڑے دے۔
بات یہاں تک ہی محدود نہیں‘ جب سے‘ ریاض کا منیجر‘ پانچ سو روپے اور پاکر
کا قلم‘ دے کر گیا ہے‘ زرینہ کا طور ہی بدل گیا ہے۔ ہر چیز میں‘ نقص نکالنا
اور اسے گھٹیا ثابت کرنا‘ اس نے ابنا‘ فرض منصبی بنا لیا ہے۔ اب میں نے‘
بازار کی چیزیں‘ لانا چھوڑ دی ہیں وہ خود ہی‘ لاتی ہے۔ بازار سے واپسی پر‘
پہلے بڑبڑاتی ہے‘ پھر مہنگائی کا رولا ڈالتی ہے۔ اوہ خدا کی بندی‘ مہنگائی
میں نے کی ہے۔ مہنگائی کی شکایت‘ صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں سے بنتی ہے۔
ایک بار نے کہہ دیا‘ تم ریاض بھائی سے کیوں نہیں کہتیں‘ کہ وہ مہنگائی کے
سلسلے میں‘ ایوب خاں سے بات کرے۔ میں نے غصے میں ہی کہا تھا۔ کہنا تو یہ
چاہیے تھا‘ کہ جس کے بوتے پر اتراتی ہو‘ مہینے کا خرچہ بھی‘ بھیج دیا کرے‘
لیکن میں‘ پھر بھی‘ مروت میں رہا۔ میری کہے پر‘ بڑا چمکی‘ سارا دن بلاوقفے
برسی۔ خدا معلوم‘ ماں نے کیا کھا کر پیدا کیا تھا‘ تھکنے کا نام ہی نہ لیتی
تھی۔ لوہے کا سر رکھتی تھی۔ اتنی گرمی تو‘ لوہے کو بھی‘ پانی بنا دیتی ہے
لیکن اس کے سر پر‘ تو رتی بھر اتر نہ پڑتا۔ ہاں البتہ‘ سر پر پٹی باندھ
لیتی۔ پٹی تو معمول میں داخل تھی۔ خصوصا‘ جب کام سے آتا‘ تو وہ مجھے پٹی
بردار ہی ملتی۔
تنخواہ میں‘ مجھے باسٹھ روپے ملتے تھے۔ یہ کوئی‘ معمولی رقم نہ تھی۔ عموم
اتنی تنخواہ‘ خواب میں بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔ میں جو لاتا‘ پائی پائی اس کے
حوالے کر دیتا۔ اپنے خرچے کے لیے‘ ایک آڑھت پر دو گھنٹے کام کرتا۔ وہاں سے‘
جو پان سات روپے ملتے‘ اسی پر گزرا کرتا۔ بلکہ اس میں سے بھی‘ ایک آدھ
روپیہ‘ گھر پر خرچ کر دیتا۔ اس کے خیال میں‘ میں جھوٹ بولتا ہوں‘ اوور ٹائم
میں‘ پندرہ بیس روپے کما لیتا ہوں۔ یہ کام‘ اس کے ٹائم میں کرتا ہوں۔ کئی
بار قسم بھی کھائی‘ لیکن اس نے‘ یقین نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ پندرہ بیس
رویے‘ اوور ٹائم میں کب ملتے ہیں۔ زرینہ کی‘ اوور ٹائم کی آمدن پر‘ بڑی
گہری نظر تھی۔ مرد ہوں‘ باہر دوستوں میں رہتا ہوں‘ چھوٹی موٹی‘ سو ضرورتیں
ہوتی ہیں۔ باہر خالی جیب رہنے سے‘ نہیں بنتی۔ اسے اس بات کا‘ احساس تک نہ
تھا۔ کتنی بےحس تھی۔
گھر میں‘ معقول رقم آنے کے باوجود‘ چار پانچ روپے ہر ماہ‘ قرض میں نکل ہی
آتے۔ بڑا تاؤ آتا‘ لیکن چپ کے آنسو پی کر رہ جاتا۔ نیچے دیکھنا‘ تو اس نے
سیکھا ہی نہ تھا۔ ہمارے اردگرد میں‘ مزدور لوگ اقامت رکھتے تھے۔ بےچارے پتا
نہیں‘ کس طرح‘ گزر اوقات کرتے تھے۔ درمیانے طبقے کے لوگوں کو‘ اونچی اڑان
وارہ نہیں کھائی۔ اونچی اوڑان کے لیے‘ پر بھی اونچی اوڑان کے درکار ہوتے
ہیں۔ اب ہم‘ ریاض کی اڑان‘ تو نہیں بھر سکتے تھے۔ میں ملازم تھا‘ کاروباری
آدمی نہ تھا۔ وہ تو شروع سے‘ پاکستانی مال پر‘ میڈ ان جاپان کا ٹھپا لگا
کر‘ مال بیچ رہا تھا۔ میرے پاس‘ یہ آپشن تھا ہی نہیں۔
زرینہ‘ پاکستانی حکمرانوں کے قدموں پر تھی۔ پاکستانی عوام کا‘ خون پسینہ‘
ان کے کھیسے لگتا تھا۔ اس کے باوجود‘ ان کا پیٹ نہیں بھر رہا تھا۔ الله
جانے‘ پیٹ تھا یا کوئی اندھا کنواں۔ سب کچھ‘ ہڑپنے کے باجود‘ ملک لاکھوں
ڈالر کا مقروض ہو گیا تھا۔ یہ بوجھ بھی‘ تو عوام پر ہی تھا۔ عوام کی بہبود
کے نام پر‘ لیے گیے قرضوں سے‘ موجیں اڑا رہے تھے۔ غریب عوام نے‘ ڈالر تو
بڑی دور کی بات‘ ایک ہزار کا نوٹ‘ کبھی نہیں دیکھا تھا۔
زرینہ کا چڑھایا قرضہ‘ مجھے ہی دینا تھا۔ اسے اس امر کی‘ قطعی پرواہ نہ
تھی‘ کہ قرض اتارنے کے لیے‘ رقم کہاں سے آئے گی۔ بچت کے نام سے‘ وہ جیسے
الرجک تھی۔ اس کا خیال تھا‘ اوور ٹائم میں‘ کافی کچھ کما لیتا ہوں۔ دوسرا
موج کرنا‘ اس کا حق ہے‘ قرض اتارنا‘ اس کی سر درد نہیں۔ اس ذیل میں‘ میں
جانوں‘ یا میرا کام جانے۔ الله ہی جانے‘ میری زرینہ سے‘ کب اور کس طرح‘
خلاصی ہو گی۔ مجھے لگتا ہے‘ زرینہ اور زرینہ کے ہم خیال حکم رانوں سے‘ میری
اور عوام کی‘ کبھی بھی‘ خلاصی نہ ہو سکے گی اور ہم‘ اسی طرح‘ سسک سسک کر‘
قبروں کا رستہ ناپیں گے۔ |