آدمی کے‘ دنیا کی جملہ مخلوق سے برتر ہونے میں‘ کسی قسم
کے شک و شبہ کی‘ گنجائش ہی نہیں‘ لیکن اس کا ذاتی گمان یا چمچوں کڑچھوں کی
جھوٹی تعریف و تحسین‘ اسے وہ کچھ سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہے‘ جو وہ اپنی
ذات میں ہوتا نہیں۔۔ بلا کا طاقت ور ہونے کے باوجود‘ لامحدود نہیں۔ اگر وہ
ان حدود میں رہتے ہوئے‘ زندگی کرئے گا‘ تو نقصان سے بچ جائے گا۔ مورخ کو‘
محمود کا سترواں حملہ یاد ہے‘ سولاں حملوں کے متعلق‘ ایک لفظ پڑھنے سننے کو
نہیں ملتا۔ اس کا کتنا جانی نقصان ہوا یا اس نے کتنا جانی نقصان کیا‘
ریکارڈ میں موجود نہیں۔ باقی باتیں چھوڑیں‘ بچے کو جوان کرتے کرتے‘ ماں کا
کیا حال ہو جاتا ہے‘ کسی ماں سے پوچھا چاہیے۔ یہ بات ماں سے پوچھنے کی ہے۔
جب بھی شخص‘ اپنے متعلق غلط اندازہ لگاتا ہے‘ نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ خود
مرتا‘ یا اس کے اپنے مرتے‘ تو ہی اندازہ ہوتا۔ لوگ مرے تھے‘ اس لیے اسے درد
کا‘ کیا اندازہ ہوتا۔
یہ غالبا چالیس سال سے پہلے کی بات ہے۔ میری چناب رینجرز کی کسی پوسٹ پر
ڈیوٹی تھی۔ ٹائیگر بڑا زبردست کتا‘ بھی اس پوسٹ پر برسوں سے چلا آتا تھا۔
اب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ لیکن اس کی پھرتیاں دیکھنے لائق تھیں۔ اچانک کھرک
کی زد میں آ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ اس کی بڑی بری حالت ہو گئی۔ چلتی کا
نام گاڑی ہے‘ دھتکار دیا گیا۔ جو بھی اسے دیکھتا‘ ناصرف دھتکارتا‘ مارنے کے
لیے بھی دوڑتا۔
قریب کے گاؤں میں‘ ایک کوبرا نکل آیا۔ سانپ کیا تھا‘ بہت بڑی بلا تھا۔ اس
نے رستہ ہی ڈک دیا۔ مال ڈنگر تو الگ‘ اس نے لوگوں کا رستہ بھی روک لیا۔ اسے
گولی مارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دریں اثنا‘ کھرک خوردہ بوڑھے ٹائیگر کا بھی‘
ادھر جانا ہو گیا۔ رینجرز کا کتا تھا‘ کوبرا اسے دوسری طرف جانے نہیں دے
رہا تھا۔ کیا ہوا کہ وہ بوڑھا اور کھرک خوردہ تھا۔ تھا تو رینجر کا ٹائیگر۔
ہار ماننا‘ تو اس کے کاغذوں میں ہی نہ تھا۔
اسی کشمکش میں‘ کئی منٹ گزر گیے۔آخر کوبرے کا داؤ چڑھ گیا‘ وہ ڈنگ مارنے
میں‘ کامیاب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی‘ ٹائیگر کے منہ میں‘ کوبرے کا درمیانہ
حصہ آ گیا تھا۔ ٹائیگر ڈنگ لگتے ہی‘ جان بحق ہو گیا تھا‘ لیکن اس کے دانت
بھینچے گیے۔ دانت کیا پڑے‘ جمور پڑ گیا۔ کوبرے کی بےچینی‘ بےبسی اور
بےچارگی‘ ایک زمانہ دیکھ رہا تھا۔ ٹائیگر کے‘ ماضی و حال کے قصے‘ ہر زبان
پر تھے۔ خون اور کھرک کی گند پر‘ چونٹیوں اور مکھیوں کا آنا ‘ فطری سی بات
تھی۔ ٹائیگر جان دے کر‘ قابل قدر جیت سے‘ ہم کنار ہوا تھا۔ کوبرا تڑپ پھڑک
رہا تھا۔ چونٹیوں اور مکھیوں کی آمد سے‘ لطف میں ہر چند اضافہ ہو رہا تھا۔
مرا تو کس کے ہاتھوں‘ بوڑھے اور کھرک زدہ کتے کے ہاتھوں۔ ٹائیگر امر ہو گیا
تھا۔ اس نے اندھی اور بےلگام طاقت کو‘ جان دے کر‘ بےبسی بےچارگی اور عبرت
ناک موت مرنے پر‘ مجبور کر دیا تھا۔ اگر کوبرا طاقت کے نشے میں‘ حدود تجاوز
نہ کرتا‘ تو نشان عبرت نہ بنتا۔ اس نے خود ہی‘ پنگا لیا تھا۔ اس پنگے کا
بھگتان‘ اسے بڑا مہنگا پڑا۔
کسی باددشاہ کے جی حضوریوں نے‘ تعریفیں کر کر کے‘ اسے طاقت کے آسمان پر
بیٹھا دیا۔ ایک صاحب نے‘ تو یہاں تک کہہ دیا‘ کہ حضور کی تو‘ دریا کی لہروں
پر بھی حکومت ہے۔ دنیا کی ہر شے‘ آپ کی تابع اور فرمابردار ہے۔ ایک روز‘ اس
نے دریا کنارے‘ تخت لگانے کا حکم دیا‘ تخت لگ گیا۔ جی حضوریوں کے ہجوم میں‘
جی حضور‘ جی سرکار کے‘ سریلے بول سنتا ہوا‘ بڑی شان اور بڑے جاہ وجلال کے
ساتھ‘ تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ پرلطف فضا و ماحول نے‘ نشے کو دو آتشہ کر
دیا۔ پھر اچانک ۔۔۔۔۔ ہاں بالکل اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لہر آٹھی‘ بہت سے جی
حضوریوں کو‘ بہا کر لے گئی۔ بادشاہ کی ٹانگیں اوپر ہو گیں۔ اس کی حالت‘
پانی سے نکلے چوہے کی مانند ہو گئی۔ اس نے ایک بچ رہنے والے‘ دریائی گرفتہ
سے‘ دریافت کیا کہ فلاں تو کہتا تھا‘ آپ کی دریا کی لہروں پر بھی‘ حکومت
ہے‘ تو پھر دریا کو‘ کس طرح اور کیوں جرآت ہوئی۔ اس چمچے نے‘ حقیقت کہنے کی
بجائے‘ پڑوس کے‘ ایک حکم ران پر الزام رکھ دیا‘ کہ یہ اس کی سازش ہے۔ نمرود
کی طرح اس کہوتے کو‘ عقل نہ آئی اور وہ لاؤ لشکر سمیت‘ اس پر چڑھ دوڑا۔
جہاں لامحدود اختیار کا‘ گمان لے ڈوبتا ہے‘ وہاں چمچے کڑچھے بھی‘ لٹیا ڈبو
دیتے ہیں۔
موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی حاصل تھی‘ کہ انہیں الله
کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی حاصل نہ ہوتی‘ تو وہ دریا میں‘ اتنے
لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘ سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا
پورا یقین تھا‘ یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں
ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ عزت بھرم اور پہلے
سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘ آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی
گمان اور چیلوں چمٹوں کی لایعنی اور مطلبی جی حضوری‘ اندھی اور بے لگام
طاقت نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔
یونان کے‘ سکندر کے ساتھ بھی‘ یہ ہی کچھ ہوا‘ چلا تھا دنیا فتح کرنے۔۔ وہ
سمجھتا تھا‘ کہ میں ناقابل فتح ہوں۔ چوری خور مورکھوں نے‘ اسے سکندر اعظم
کے القاب سے ملقوب کیا۔ حقیقت یہ ہے‘ کہ وہ تہری شکست سے‘ دو چار ہوا۔
اس کی اپنی فوج نے‘ مزید آگے بڑھنے سے انکار کیا۔
زخمی ہوا۔
ہدف کی حصولی کے بغیر ہی‘ واپسی کا ٹکٹ کٹوانا پڑا۔
اندھے گمان اور شخصی زعم نے‘ اسے مارا ماری پر مامور رکھا۔ اگر وہ دنیا فتح
بھی کر لیتا‘ تو یہ کوئی وجہءفخر وافتخار نہ ہوتی۔ پوری زمین‘ اور اس کے
وسائل کا‘ مالک ہونا‘ میں کون سی‘ ایسی بڑائی کی بات ہے۔ آخر اس میں‘
انسانیت کی بھلائی اور خدمت کی‘ کون سی بات ہے۔ محض قبضہ وتصرف کے لیے‘
بےگناہ بچوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں‘ تیاگیوں وغیرہ کا خون بہانا‘ اور ان کی رہائش
گاہوں کو‘ مسمار کرتے چلے جانے سے‘ بڑھ کر‘ شائد ہی کوئی‘ شرم ناک اور قابل
نفرت بات ہو گی۔
اٹھتی طاقت‘ جرمن کے متعلق‘ چرچل نے غلط اندازہ لگایا۔ امریکہ درمیان میں
نہ آتا‘ تو برطانیہ کے تو‘ ستو بک چکے تھے۔ کوبرے کی سی‘ موت مرتا۔ جرمن
قوم اور ہٹلر کا‘ پوری انسانی برادری پر احسان ہے‘ کہ اس نے کبھی نہ سیر
ہونے والی‘ جونک سے نجات دلائی۔ اس نے معاش خور قوم کو‘ وہاں سے نکال باہر
کیا۔ برطانیہ نے اسے آباد کیا۔ مصر سے فرار ہونے والا‘ یہ بارہواں قبیلہ‘
آج پوری دنیا کا بااختیار اور معزز ترین‘ قبیلہ ہے۔ حق سچ تو یہ ہی ہے‘ کہ
وہ گرم ہواؤں میں‘ چپکے ہو گیے اور تصادم سے دور رہے۔ صبر و برداشت سے‘ وقت
گزارا۔ اندر خانے‘ وہ قوم محنت کرتی رہی‘ آج اسے‘ اس کا پھل مل رہا ہے۔
برطانیہ نے پنگا لیا‘ اور اس پنگے کے نتیجہ میں‘ ناہیں کے گھنگھٹ میں مکھڑا
چھپاتے اس کی بنی۔
خاوند کو غرور تھا‘ کہ وہ کما کر لاتا ہے‘ اور اس کی بیوی کا ہاتھ‘ نیچے
ہے۔ ایک جنگ میں‘ بیوی کو ماں بہن کہہ بیٹھا۔ مولوی نے‘ کفارے میں‘ مرغے کی
دیگ ڈال دی۔ رات کو‘ چل قریب بیٹھے‘ آگ تاپ رہے تھے۔ بیوی نے بڑی ہم دردی
سے کہا‘ کملیا ماں بہن نہ کہتے‘ تو سات سو روپے کی دیگ‘ تو نہ ٹہکتی۔ تفاخر
ابھی تک‘ سر پر سوار تھا۔ اس نے جوابا کہا‘ توں پیو نوں نہ چھیڑ دی۔
میں نے‘ اس سے ملتی جلتی‘ بہت سی مثالیں‘ ثریا کے گوش گزار کیں‘ لیکن خود
کفالتی کا بھوت‘ ابھی تک‘ اس کے سر پر سے‘ نہیں اترا تھا۔ اس کے خیال میں
وہ کسی کی محتاج نہیں‘ اور خود سے‘ باآسانی زندگی کر سکتی ہے۔ دو روپے کی
ماچس تک‘ پلے سے‘ نہیں منگواتی تھی۔ ماہانہ ملنے والی معقول پنشن سے‘ ایک
اکنی صرف کرنا‘ جرم عظیم سمجھتی تھی۔ مجھ سے‘ روپے کے اٹھاراں آنے وصول
کرکے بھی‘ اسے روپیہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔
ایک بار‘ مجھے ضرورت پڑی‘ تو کہنے لگی‘ میرے پاس‘ بیس ہزار زکوات کے پڑے
ہیں‘ جو میں نے‘ اپنی بہن بےبی کو‘ دینے ہیں۔ کئی دن خجل خوار کرنے کے بعد‘
دے تو دیے‘ لیکن ریڈیو پر اعلان کرنا‘ باقی رہ گیا‘ ورنہ شائد ہی‘ کوئی رہ
گیا ہو گا‘ جسے بتایا نہ ہو گا۔ اسے زعم تھا‘ کہ وہ میرے بغیر‘ گزارہ کر
سکے گی‘ بلکہ اس نے کہا‘ اس ظالم دنیا سے‘ مجھے فوری طور پر‘ چھٹکارا حاصل
کر لینا چاہیے‘ تا کہ وہ آزاد زندگی بسر کر سکے۔ ایک نہ ایک دن‘ مرنا ہی
ہے‘ اب ہی کیوں نہیں‘ مر جاتا۔ گویا آج کا کام‘ کل پر چھوڑنا‘ کسی طرح
مناسب نہیں۔
میرے مرنے سے‘ وہ اور اس کا وچارا بھائی‘ اپنے بیٹے سے‘ میری بیٹی کی شادی
کرکے‘ میری اور ثریا کی جمع پونجی سے‘ پچرے اڑا سکے گا۔ فریحہ‘ اس کی بیوی
مر گئی تھی۔ اس کی پنشن سے‘ تو گھر نہیں چل سکتا تھا۔ محنت مزدوری سے‘ گھر
چلایا‘ تو کیا چلایا۔ ثریا کو جو میں نے‘ سوا سولہ تولے زیوار اور پاؤ بھر
چاندی کے زیوار بنا کر دیے تھے‘ وہ بھی وچارے بھائی زادے کے کام آ سکے گا۔
نمرودد ہو کہ فرعون‘ سکندر ہو کہ محمود‘ برطانیہ ہو کہ ثریا‘ بنیادی رولا‘
تو سوا سولہ تولے سونے اور پاؤ بھر چاندی کا ہے‘ یا تین مکانوں کا ہے‘ جو
میری ملکیت میں ہیں‘ اور پچاس لاکھ سے زیادہ مارکیٹ رکھتے ہیں۔ ہوس‘ لالچ‘
زعم اور بےلگام طاقت‘ خود بھی ڈوبتی ہے‘ اوروں کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ بدقسمتی
یہ ہے‘ کہ وہ میری بات سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ یہ تو‘ قدرت کے نظام
سے‘ پنگا لینے والی بات ہے۔ قدرت کے نظام سے‘ پنگا لینے والوں کا‘ انجام
بڑا ذلت ناک ہوتا رہا ہے۔ |