کیا آپ کے ذہن میں کبھی کسی ایسی عبادت گاہ کے بارے میں
خیال آیا ہے جہاں بیک وقت تین مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی عبادات
سرانجام دے سکتے ہوں؟ اگر نہیں تو پھر کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ برلن
میں ایک ایسے منفرد منصوبے کے لیے رقوم جمع کرنے کی مہم شروع ہو گئی ہے، جس
کے تحت مسلمان، مسیحی اور یہودی ایک ہی چھت کے نیچے عبادت کر سکیں گے۔
منصوبے کے فعال محرکین میں ایک پادری، ایک ربی اور ایک امام مسجد شامل ہیں۔
یہ عبادت گاہ جرمن دارالحکومت برلن کے وسط میں سینٹ پیٹرز اسکوائر نامی جگہ
پر ایک عمارت تعمیر کی جائے گی۔ فی الحال یہ مقام خالی ہے اور وہاں صرف ریت
اور چند پتھر ہی دیکھے جا سکتے ہیں- یہ عمارت ممکنہ طور پر 2018ء میں مکمل
ہو جائے گی۔
|
|
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس عمارت کو نہ تو صرف مسجد کہہ سکتے ہیں، نہ محض
گرجا گھر اور نہ ہی صرف کوئی یہودی عبادت خانہ۔ بظاہر کسی بھی زبان میں
ایسا کوئی لفظ موجود ہی نہیں جو کسی ایسی عمارت کی تعریف کر سکے جہاں
مسلمان، مسیحی اور یہودی مل کر عبادت کرتے ہوں۔
اس تعمیراتی منصوبے کے بنیادی محرکین کا کہنا ہے کہ یہ عمارت دنیا بھر میں
اپنی نوعیت کی واحد عبادت گاہ ہوگی جو مسجد، چرچ اور synagogue ہوتے ہوئے
بھی ان تینوں مذاہب میں سے صرف کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کے لیے مخصوص
نہیں ہو گی۔ اسی لیے اس مشترکہ عبادت گاہ کو اب تک ’ایوانِ عبادت و تعلیم‘
کا نام دیا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کی تکمیل پر 44 ملین یورو لاگت آئے گی۔ اس پروجیکٹ کو ایک فیصلے
کی صورت میں حتمی شکل دینے سے پہلے اس پر برسوں تک غور و فکر کیا گیا۔ اس
کے لیے مالی وسائل جمع کرنے کی مہم منگل تین جون کو شروع کی گئی۔
برلن کے سینٹ پیٹرز اسکوائر نامی اس مقام پر 2007ء میں ماہرین آثار قدیمہ
کی جانب سے کھدائی کی گئی تھی جس کے دوران انکشاف ہوا کہ اس جگہ پر قرون
وسطیٰ سے لے کر 1960ء میں سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ریاست کے دور تک
مختلف ادوار میں مسیحیوں کے سینٹ پیٹرز چرچ کے نام سے چار مختلف گرجا گھر
قائم رہ چکے تھے۔
جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد اس جگہ پر ایک بہت بڑی کار پارکنگ تعمیر کر
دی گئی تھی لیکن چند سال قبل یہ جگہ شہری انتظامیہ نے واپس مقامی پروٹسٹنٹ
برادری کے حوالے کر دی تھی۔ رولانڈ اشٹولٹے کے بقول برلن کی پروٹسٹنٹ
برادری اس جگہ پر دوبارہ اپنا کوئی نیا چرچ قائم کرنے کی بجائے اسے اس طرح
استعمال میں لانا چاہتی تھی کہ وہ برلن شہر کی کثیر المذہبی شناخت کا مظہر
بھی ہو۔
2010ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک وفاقی صوبے کے طور پر برلن کی
3.4 ملین کی آبادی میں پروٹسٹنٹ مسیحیوں کا تناسب قریب 19 فیصد بنتا ہے۔
مسلمانوں کی آبادی 8.1 فیصد ہے جبکہ یہودیوں کا تناسب ایک فیصد سے کچھ کم
ہے۔ برلن کے 60 فیصد سے زائد شہریوں کے مطابق وہ عملی طور پر کسی بھی مذہب
کے پیروکار نہیں ہیں۔
|
|
اس منصوبے میں مسلمانوں کی نمائندگی ترک نژاد امام مسجد کا نام قادر سانچی
کر رہے ہیں- ان کا تعلق برلن کے مسلمانوں کی ایک تنظیم، فورم برائے بین
الثقافتی مکالمت سے ہے۔ قادر سانچی کا کہنا ہے کہ فرینکفرٹ کے نواحی شہر
ڈارمشٹٹ میں ایک ہی چھت کے نیچے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے دو مختلف
چرچ دیکھتے ہی انہیں خیال آیا تھا کہ ایسا کوئی مرکز بھی قائم کیا جا سکتا
ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں تینوں کے عبادت
خانے قائم ہوں۔
یہ عبادت گاہ وِلفریڈ کُوہن نامی ماہر تعمیرات کے تیار کردہ نقشے کے تحت
تعمیر کی جائے گی- نقشے کے مطابق تینوں مذاہب کے عبادت خانے ایک ہی منزل پر
ہوں گے اور انہیں رقبے کے لحاظ سے بالکل برابر جگہ دی جائے گی۔ وِلفریڈ
کُوہن کے بقول تینوں عبادت خانے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوں گے اور ایسا نہیں
ہو گا کہ مسلمان، مسیحی اور یہودی ایک ہی جگہ مل کر عبادت کر رہے ہوں۔ |