اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قیا م پا کستا ن سے لے
کر آج تک ہمارا شعبہ تعلیم حکو متوں کی عدم توجہی کا شکار رہا،جس کی وجہ سے
عام آدمی کیلئے تعلیمی سہولتوں کا فقدان ایک سنگین صورت اختیار
کرگیا،حالانکہ 5سے 16سال تک کے ہر بچے کو مفت اور معیا ری تعلیم کی فراہمی
آئین کی شق 25A کے تحت حکومت وقت کی ذمہ داری میں آتی ہے،لیکن جہاں ہماری
حکومتیں دیگرشعبوں میں ٹھوس اور عملی اقدامات سے محروم رہی، و ہیں تعلیم
جیسے اہم شعبے میں بھی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں نا کام
نظرآئیں۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے تر قی یافتہ ممالک کی تر قی کا راز
اُن کی تعلیمی پا لیسوں میں پو شیدہ ہے،یعنی کسی بھی ملک کی تر قی وخوشحالی
کا انحصار اُس کی تعلیمی پالیسی پر ہو تا ہے،آج برطانیہ، چین، جا پا ن اور
سنگا پور سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے مو جو د
ہیں،دوسر ی جنگ عظیم کاشکست خوردہ جا پا ن آج ساری دنیا کو تعلیمی میدان
میں پیچھے چھوڑچکا ہے،وہاں شر ح خواندگی 99%ہے جو کہ پو ری دنیا میں سب سے
زیا دہ ہے۔
جبکہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت پاکستان کی تعلیمی کا رکردگی کا جا ئزہ
بتاتا ہے کہ ہماری شرح خواندگی جنو بی ایشیا کی کم تر ین شرح خواندگی میں
شمار ہوتی ہے،افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خطے کے آٹھ ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان،
بھارت، ایران، مالدیپ نیپال اورسری لنکا میں پاکستان نیپال کے بعد پسماندگی
کی انتہائی آخری صف میں کھڑا ہے، جہاں خواندگی کی شرح74 فیصد ہے،جبکہ نیپال
میں شرح خواندگی65 فیصد ،سری لنکا میں94 فیصد، بھارت میں92 فیصد، مالدیپ
میں96فیصد،بنگلہ دیش میں85 فیصد، بھوٹان میں88 فیصد اور ایران میں 93 فیصد
ہے۔ پاکستان میں حکومتیں تعلیم پر کتنا خرچ کرتی رہی ہیں اِس کا اندازہ
یونیسکو کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ
ہمارے حکمران تعلیم کو کتنی ترجیح دیتے ہیں،جبکہ اقوام متحدہ نے مجموعی
قومی پیداوار کا کم سے کم4 فیصد تعلیم کیلئے مختص کرنے کا عالمی معیار مقرر
کر رکھاہے لیکن پاکستان کی زبوں حال تعلیمی تصویر یہ دلخراش منظر پیش کرتی
ہے کہ 13 برس قبل بھی اور آج بھی ہم اپنے مجموعی بجٹ کاصرف 2 فیصد تعلیم کو
دیتے ہیں۔
آج ہمارا حال یہ ہے کہ UNOکے ایجوکیشن انڈکس میں پا کستا ن کا 173ممالک میں
166واں نمبر ہے اور ہمارے ا سکولوں میں بچوں کی تعداد ہر سال کم سے کم ہو
تی جا ر ہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 100میں سے صر ف 25بچے اسکول جا تے ہیں
اور اِن 25میں سے 6بچے ہی ہا ئی اسکول کی سطح تک پہنچ پا تے ہیں،اِس وقت
ہمارے ا سکو لوں میں اسا تذہ کی شدید قلت ہے اورہر 60بچوں کیلئے صر ف ایک
استا د مو جود ہے جوکہ دنیا کا کم تر ین تنا سب ہے،جبکہ ہمارے بہت سے
اسکولوں کی حالت ایسی ہے کہ وہ ’’اسکو ل‘‘کہلائے جانے کے قا بل ہی نہیں
ہیں،اُن میں پڑھائی نہ ہونے کے برابر ہے اور اکثر اسکول پانی و بجلی اور
دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اعداد و
شمار کے مطابق پاکستان میں 5 کروڑ 70 لاکھ بچے زیور تعلیم سے محروم
ہیں،جبکہ 67 لاکھ پاکستانی بچے تو ایسے ہیں جو بنیادی ابتدائی تعلیم سے بھی
نابلد ہیں،پلڈاٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کہتی ہے کہ اگر ہمارے ہاں شعبہ تعلیم
کی یہی رفتار رہی تو ہما را پرائمری تعلیم کا ہدف اگلے 30سالوں میں ہی پورا
ہوسکے گا۔
جبکہ ایجوکیشن ٹاسک فورس کی طرف سے’ ’پاکستان کی تعلیمی ایمرجنسی‘ ‘ کے
عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان کی اِس تباہ کن
ایمرجنسی کے اثرات انسانی، سماجی اور معاشی سطح پر موجود ہیں اور اِس بحران
سے ملک کی سا لمیت کو شدید خطرہ لاحق ہے،رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیم کے
حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے میں اب تک ناکام رہا
ہے،پاکستان کے تقریباً ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں، یہ تعداد
لاہور شہر کی پوری آبادی کے برابر ہے،رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ
دنیا میں جتنے بچے اِس وقت پرائمری تعلیم سے محروم ہیں اُن کی تقریباً دس
فیصد تعداد پاکستان میں ہے ،اِس طرح تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے
سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پرہے،پاکستان کے ہائی ا سکولوں میں داخلے
کی شرح محض23 فیصد ہونے کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی اور اپنی آئینی ذمہ
داریوں کو پورا کرنے میں اور بھی پیچھے ہے،گو پاکستان میں تعلیمی مواقع کم
نہیں لیکن اِس کی ناہموار تقسیم سب سے بڑا مسئلہ ہے، ملک کے بیس فیصد امیر
ترین شہری غریب ترین شہریوں کے مقابلے میں سات سال زیادہ تعلیم حاصل کر تے
ہیں، دوسری جانب تیس فیصد پاکستانی انتہائی تعلیمی غربت میں زندگی بسر کر
رہے ہیں اور وہ بمشکل دو سال تک سکول جا پاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں قومی روزنامے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ
ہاؤس میں میلینم ڈویلپمنٹ اہداف سے متعلق اسپیکر کے قائم کردہ خصوصی
پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں تعلیمی اعداد و شمار کے ضمن میں جب حقائق پیش
کئے گئے تو شرکاء اجلاس پر شرمندگی کا احساس غالب تھا اور شرح خواندگی سے
متعلق ماضی کی حکومتوں کی ساری کارکردگی کاجادو سر پرچڑھ کر بول رہاتھا۔مگر
اِس تعلیمی زبوں حالی کے باوجود وفاقی حکومت نے تعلیمی بجٹ میں معمولی
اضافہ کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کیلئے محض 64 ارب روپے مختص کئے ہیں، جو کہ
خود ن لیگ کے انتخابی وعدے اور منشور ’’ تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم 4
فیصد خرچ کرنے ‘‘کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے، گو پنجاب صوبا ئی حکو مت کی
جانب سے یونیورسٹی طلباء میں لیپ ٹاپس تقسیم ایک قابل تعریف عمل ہے،لیکن
اِس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج بھی قوم کے بچے پلوں کے نیچے
اور قبر ستانوں میں بیٹھ کر تعلیم حا صل کر نے پر مجبو ر ہیں،چنانچہ اِس
تناظر میں آنے والی نسل کو جا ہل رکھنا اور اُن کی تعلیم وتربیت پر توجہ نہ
دینا حکومت کی سب سے بڑی نااہلی اور جرم قرار پاتا ہے،کیونکہ جہالت کے
اندھیرے سے علم کی روشنی کی طر ف لے جا نا حکومت وقت کی اہم ،بنیادی اور
آئینی ذمہ داری بنتی ہے۔
یاد رکھیئے ترقی اور تعلیم کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور قوموں کا
عروج تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے، تعلیم کسی بھی قوم اور ملک کی مستقبل
سازی کیلئے ناگزیر ہے، تعلیم کا عمل جتنا بامقصد، موثر اور وقت کے تقاضوں
سے ہم آہنگ ہوگا، اتنا ہی قوم اور ملک کا مستقبل شاندار اور تابناک
ہوگا،مملکت خداداد پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، ہم اِس بات پر مکمل طور
پر یکسو ہیں کہ اِس ملک کی بقا ء و سلامتی اور استحکام اِس کے بنیادی نظریہ
پر عمل پیرا ہونے میں ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نظام تعلیم اور تعلیمی
عمل، اِس طرح استوار کیا جاتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے ملک و قوم کے
اجتماعی شعور اور نظریاتی اساس سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتیں اور اُس کے
عملی تقاضوں کی تکمیل کی صلاحیتیں لے کر پروان چڑھتیں، اس سلسلے میں یہ بھی
ضروری تھا کہ ہماری تعلیمی پالیسیاں، نصابات کی تشکیل، تربیت اساتذہ، طریقہ
تعلیم، ذریعہ تعلیم، نظام کار اور نظام امتحانات کو ملکی اور قومی ترجیحات
کے مطابق استوار کیا جاتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور ہر دور میں
آنے والی حکومتوں میں جو چیزیں مشترک رہی وہ نااہلی، خود غرضی، کم ظرفی،
کوتاہ بینی، ذاتی مفادات اور استعمار سے وفاداری کے رویئے تھے ،یہی وہ
وجوہات ہیں جن کی بناء پرتعلیمی پالیسیاں تو بنی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین
پات ہی رہے۔
لہٰذا ہمارا تعلیمی شعبہ ہنگامی اقدامات اور بھرپور توجہ کا متقاضی ہے،جس
کیلئے سرکاری سطح پر نیک نیتی،جذبہ صادق اور عزم صمیم ضروری ہے اور یہ تب
ہی ممکن ہے جب ہمارے ارباب اقتدار تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ اور
اخراجات کی صحیح ترجیحات کا تعین، اقراء سرچارج کی مد میں حاصل ہونے والی
ایک کھرب سے زائد رقم کو تعلیمی شعبے کی ترقی کیلئے استعمال، مخصوص طبقاتی
نظام کے خاتمے اور پوش طبقہ کیلئے قائم تعلیمی اداروں کی سرکاری سرپرستی
میں کمی اور اُن وسائل کو عوامی تعلیم کیلئے صرف کرنے جیسے عملی اقدامات کے
ساتھ نئی نسل کو بہتر مسلمان اور اچھا پاکستانی بنانے کیلئے یکساں قومی
نصاب کی تشکیل اور اردو زبان کو اُس کا جائز مقام دیتے ہوئے ذریعہ تعلیم
بنانے اور انگریزی کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر اُس کی بہتر تدریس کے
انتظامات پر خصوصی توجہ نہیں دیتے ۔
آج نالج بیسڈمعاشی دور میں معاشی ترقی کیلئے تعلیم کی اہمیت اِس لیے بھی
بڑھ جاتی ہے کہ دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے، سائنس اور
ٹیکنالوجی کے شعبوں سے لے کے مینجمنٹ اور سوشل سائنسز تک انتہائی تیز
رفتاری سے ترقی ہو رہی ہیں، کمیونیکیشن اور معاشی مسائل کے صحیح ادراک اور
فہم کیلئے تعلیم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، تعلیمی بجٹ کو خاطر خواہ
بڑھانے سے ہی اِس شعبے میں ترقی اور انقلاب لایا جاسکتا ہے، لہٰذاضرورت اِس
امر کی ہے کہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے ایسی تعلیمی اصلاحات
لائی جائیں جو ہمیں دیگر ممالک کی طرح تعلیمی میدان میں آگے لے جاسکیں،اگر
ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہر ست میں شامل ہو نا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی
میدان میں انقلابی اقدامات کرنا ہونگے ،تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے تعلیم
کا اپنا نصب العین بنا یا وہ ترقی کی راۂ پر گامزن ہوئے اور جنھوں نے تعلیم
سے کنارہ کشی اختیا ر کی و ہ ذلت وپستی میں گرکر دوسر ی قوموں کی غلا می پر
مجبور ہوگئے ۔ |